• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

جسٹس عیسیٰ کیس: 'مدت ملازمت کے تحفظ کا مطلب یہ نہیں کہ جج جو چاہے کرتا رہے'

شائع April 21, 2021
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بینچ نے نظرِ ثانی کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بینچ نے نظرِ ثانی کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرِ ثانی کیس کی سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ججز بھی سروس آف پاکستان کا حصہ ہیں، مدت ملازمت کے تحفظ کا مطلب یہ نہیں کہ جج جو چاہے کرتا رہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرِثانی کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی دائر اپیل پر سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بزرگ آدمی کو مشکل کام پر لگا دیا، جس پر جسٹس منظور ملک نے کہا کہ آپ نے بزرگ کس کو کہا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے بال سفید ہوگئے ہیں اس لیے بوڑھا ہوگیا ہوں، اس پر جسٹس منظور ملک نے کہا کہ بالوں سے کوئی بوڑھا ہوتا ہے نہ سیانا۔

یہ بھی پڑھیں: جو بدنیتی میرے کیس میں سامنے آئی کبھی نہیں دیکھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تین سوالوں کے تحریری جواب کچھ دیر میں کراؤں گا، کچھ دیر تک میرا جواب عدالت کے سامنے آجائے گا اور کہا کہ جج سرکاری ملازم نہیں ہوتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ ججز بھی سروس آف پاکستان کا حصہ ہیں، کیا کرپشن ججز کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، مدت ملازمت کے تحفظ کا مطلب یہ نہیں کہ جج جو چاہے کرتا رہے، خوش قسمتی سے یہ کرپشن کا مقدمہ نہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بار کے وکیل تحریری دلائل جمع کروا چکے ہیں، وفاق کو اپنے دلائل دینے دیں تا کہ کیس ختم ہو، بار بار کہا جاتا ہے میری وجہ سے تاخیر ہورہی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میں اتنا سمجھدار نہیں کہ تحریری دلائل پر اکتفا کر سکوں، ہر سائل کے ساتھ عدالت کا رویہ یکساں ہونا چاہیے۔

سماعت میں بار کونسلز کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس ختم ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل غیر فعال ہو جاتی ہے، کالعدم ہوئے ریفرنس پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔

بار کونسل کے وکیل حامد خان نے کہا کہ معاملہ ایف بی آر کو نہیں بھجنا چاہیے تھا، ایف بی آر کو معاملہ بھیجنا غلط فیصلہ تھا، یہ تو واضح ہے کہ صدارتی ریفرنس کالعدم ہوگیا، جب ریفرنس کالعدم ہوا تو سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی معاملہ ختم ہوگیا، مزید کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں ہوسکتی۔

مزید پڑھیں: حکومت چاہتی ہے بس کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے، جسٹس فائز عیسیٰ

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بالکل ایسا ہی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے کوئی معاملہ نہیں، چونکہ ریفرنس کالعدم ہوا تو اس پر مزید کارروائی نہیں ہوئی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں ریفرنس کی بحالی کا کہیں ذکر نہیں، فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کونسل ایف بی آر کے مواد کا جائزہ لے گی، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھا جائے، سپریم جوڈیشل کونسل ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کرتے ہوئے مزید کارروائی کرسکتی ہے۔

حامد خان نے کہا کہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے کہ وہ کیسے کام کرتی ہے، آیا سامنے لائے گئے مواد پر فیصلہ کرتی ہے یا ازخود نوٹس کا استعمال کرتی ہے، میرا موقف ہے کہ جب ریفرنس کالعدم ہوگیا تو پھر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کونسل غیر فعال نہیں ہوتی اس تک معلومات فراہم کی جاسکتی ہیں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ بچے اور خاندان نہ سپریم جوڈیشل کونسل اور نہ ہی سپریم کورٹ میں فریق تھے، ان کو کسی بھی کیس میں اور کسی بھی پلیٹ فارم پہ فریق نہیں بنایا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ جج کے ضابطہ اخلاق میں اس کے بچے اور خاندان نہیں آتا، اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے، جج کو اپنے خاندان اور اولاد سے متعلق بھی بہت محتاط ہونا چاہیے، آمدن سے زائد اثاثوں کا معاملہ نہایت اہم ہے۔

حامد خان نے کہا کہ یہاں بچے خود کفیل ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی شخص کو سنے بغیر کوئی فیصلہ دیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کے خلاف فِفتھ جنریشن وار شروع کردی گئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

حامد خان نے کہا کہ یہاں تو قاضی کا خاندان فریق نہ تھا تو پھر کیسے کارروائی ہوسکتی ہے، ان کو آرٹیکل 209 کے تحت فریق نہیں بنایا جاسکتا، ججز کا ضابطہ اخلاق بھی اس سے متعلق بات نہیں کرتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر پلیڈنگ کنکشن موجود ہو تو پھر؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ تو پھر متعلقہ فریق نے اس کا جواب دینا ہوتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 184(3) کی کارروائی میں سب عدالتی دائر ہ اختیار پر منحصر ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں معاملہ ارسلان افتخار کا تھا، سپریم کورٹ ججز کے اہل خانہ سے متعلق آبزرویشن دے چکی ہے، آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بھی صرف عوامی عہدیداروں پر نہیں بنتا۔

حامد خان نے کہا کہ اہلیہ اور بچے زیر کفالت نہ ہوں تو کیس نہیں بن سکتا، سپریم جوڈیشل کونسل مستقل قائم رہنے والا ادارہ نہیں، کوئی ریفرنس آئے تو ہی کونسل تشکیل پاتی ہے۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل مستقل ہی ہوتی ہے، میں سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ ہوں، میں نے خود کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے الگ کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خود کو الگ کرنے والی بات نہ کریں، جو چیز نظر ثانی کیس کا حصہ نہیں اس پر بات نہ کی جائے، خدشہ ہے ایسی گفتگو میرے مفادات کے خلاف جائے گی۔

حامد خان نے کہا کہ ازخود نوٹس لینا سپریم جوڈیشل کونسل کی صوابدید ہوتی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کو ازخود نوٹس کی ہدایت نہیں کی جا سکتی۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کیس کو براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آج کے دن تک ایف بی آر رپورٹ کا جوڈیشل کونسل نے جائزہ نہیں لیا، رجسٹرار کے پاس مواد موجود ہے جو کونسل کو پیش کر سکتا ہے، کیا سپریم جوڈیشل کونسل کو مواد پیش کرنے سے روکا جا سکتا ہے، جوڈیشل کونسل کہیں سے ملنے والی معلومات پر بھی کارروائی کر سکتی ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ کونسل کے پاس موجود مواد سپریم کورٹ کے حکم پر جمع ہوا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ طویل عرصے بعد عدالت میں قانونی گفتگو سن کر اچھا لگا، جسٹس منظور ملک نے کہا کہ آپ نے سب کو دکھایا کہ وکیل کیسے دلائل دیتا ہے، وکیل اور درخواست گزار کے دلائل میں ہی فرق ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ بار پاکستان بار کونسل اور بلوچستان بار کے وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہونے پر سندھ بار کونسل اور پی ایف یو جے کے وکیل رشید رضوی نے حامد خان کے دلائل اپنا لیے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے دلائل دیے تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ہدایت کی کہ اپنی تحریری معروضات بھی عدالت کو فراہم کریں۔

عامر رحمٰن کا کہنا تھا کہ کہا گیا کہ سرینا عیسیٰ کو سماعت کا موقع نہیں ملا، سرینا عیسیٰ نے عدالت میں بیان دیا اور دستاویزات پیش کیں، نظرثانی درخواستوں میں صرف فیصلے میں غلطی پر بات ہو سکتی ہے، نظر ثانی ایسی غلطی پر ہوتی ہے جو برقرار رہنے سے ناانصافی ہو۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے مزید کہا کہ سرینا عیسیٰ کو فریق نہ ہوتے ہوئے بھی سنا گیا، شفاف ٹرائل کے حق پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے، عدالت نے سرینا عیسیٰ کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا، عدالتی فیصلے میں قانون کے مطابق گوشواروں کے جائزے کی ہدایت تھی، سپریم کورٹ کیس نہ بھی بھجواتی تو ایف بی آر نوٹس لے سکتا تھا۔

حامد خان نے کہا کہ عدالت نے اِنکم ٹیکس حکام کو کارروائی کیلئے ٹائم لائن دی، عدالت کی دی گی ڈیڈ لائنز غیر قانونی ہے، قانون میں ٹیکس حکام کے لیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی گی۔

جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہا کہ ٹیکس حکام کو ہدایات کس قانون کے تحت دی گئی ہیں، انتہائی حساس کیس تھا اس لیے عدالت نے ڈیڈ لائن دی، ایف بی آر کو ڈیڈ لائن دینا کوئی غیر قانونی حکم نہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سرینا عیسیٰ کو باضابطہ سماعت کا مکمل موقع فراہم کیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور ان کی اہلیہ کا مؤقف تھا کہ ایف بی آر نے نوٹس نہیں کیے۔

یہ بھی پڑھیں: اہلیہ جسٹس عیسیٰ کی چیف جسٹس سے متعلق بات پر عدالت برہم، حد میں رہنے کی تنبیہ

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ میں نے یہ نقطہ کھبی نہیں اٹھایا میرے وکیل نے یہ بات کی تھی۔

جسٹس منظور ملک نے مداخلت کرنے پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آج پہلے دن سماعت سکون سے ہو رہی ہے اسے چلنے دیں، کوئی دن تو ایسا ہو جب کوئی بدمزگی نہیں ہوئی، قاضی صاحب سننے کا حوصلہ بھی پیدا کریں۔

عامر رحمنٰ نے کہا کہ ایف بی آر کے مطابق سرینا عیسٰی ذرائع آمدن کی وضاحت نہیں کرسکیں، جو نقاط اٹھائے گئے عدالتی فیصلے میں ان پر بحث ہوچکی ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایف بی آر نے ٹیکس قوانین کے تحت ہی معاملے کا جائزہ لیا۔

وفاق کے وکیل عامر رحمٰن کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بینچ میں موجود دو مجاہدین کا مشکور ہوں، جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی برا وقت دیکھا، جسٹس مقبول باقر پر فائرنگ ہوئی، جسٹس سجاد علی کا بیٹا اغوا ہوا، بار کونسلز اور پی ایف یو جے کے وکلا کا مشکور ہوں۔

بعدازاں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تین سوالات کے جواب جمع کروا دیے جس کے بعد سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں 7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔

عدالتی بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپرم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔

تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔

اس معاملے پر عدالت کی جانب سے نظرثانی کے لیے پہلے ایک 6 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم درخواست گزروں نے 6 رکنی نظرثانی بینچ کی تشکیل کو چیلنج کردیا تھا اور یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تینوں ججز کو نظرثانی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

5 دسمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اضافی درخواست داخل کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کی۔

ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظر ثانی درخواست میں استدعا کی تھی کہ سماعت ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔

جس کے بعد بینچ تشکیل کے معاملے پر سماعت ہوئی تھیں اور عدالت نے 10 دسمبر 2020 کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ آیا یہی بینچ یا ایک لارجر بینچ جسٹس عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تعین کرے گا۔

بالآخر 22 فروری 2021 کو جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ کریں اور وہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔

بعد ازاں 23 فروری 2021 کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک 10 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں ان تینوں ججز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا جنہوں نے مرکزی فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

مذکورہ بینچ نے نظرِ ثانی کیس کی سماعت براہِ راست نشر کرنے کی اپیل کی بھی سماعت کی جس کے دلائل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود دیے تھے۔

مذکورہ درخواست پر 18 مارچ کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جسے 13 اپریل کو سناتے ہوئے درخواست مسترد کردی گئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024