اسٹیک ہولڈرز کی اوگرا سے ایل این جی ٹرمینلز کے لیے تعمیراتی لائسنس جاری کرنے کی اپیل
اسلام آباد: عوامی سماعت کے شرکا نے توانائی کے اخراجات اور گیس کی قلت کو کم کرنے میں مدد کے لیے جلد از جلد تعمیراتی لائسنس کی فراہمی کے لیے دو علیحدہ اداروں کے کیسز کی بھاری بھرکم حمایت کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوگرا کے چیئرمین مسرور خان کی زیرصدارت سماعت میں ممبر گیس محمد عارف، ممبر آئل، این العابدین قریشی اور سیمنٹ پروڈیوسر، سی این جی اسٹیشن آپریٹرز، بجلی کمپنیاں اور ٹیکسٹائل انڈسٹری جیسے بڑے کنزیومر گروپس نے شرکت کی۔
اوگرا نے کراچی میں پورٹ قاسم پر تمام سہولیات سے لیس ایل این جی ری گیسیفیکیشن ٹرمینلز کی تعمیر کے لیے لائسنس دینے کے لیے دو علیحدہ علیحدہ درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواست گزار تعبیر انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ (ٹی ای پی ایل) اور انرگیس ٹرمینل پرائیویٹ لمیٹڈ (ای ٹی پی ایل) نے اوگرا (ایل این جی) رولز 2007 کے تحت لائسنس کی فراہمی کے لیے درخواست دی تھی۔
مزید پڑھیں: ایل این جی بحران کے دوران صنعتوں کو گیس کی فراہمی میں کمی کا امکان
درخواست گزاروں نے ان مقامات پر ایل این جی ٹرمینلز لگانے کے بارے میں حتمی سرمایہ کاری کے فیصلے (ایف آئی ڈی) لینے سے قبل اوگرا سے تعمیراتی لائسنس طلب کیا تھا کیونکہ دیگر تمام ریگولیٹری عمل مکمل ہوچکے ہیں۔
لائسنس سے ڈیولپرز کو ٹرمینلز لگانے، ایل این جی سپلائی خریدنے، اسے پیش کردہ ایل این جی ٹرمینلز کے ذریعے ری گیسفیکیشن کرنے اور آر ایل این جی کو مقامی مارکیٹ میں سپلائی کرنے اور اپنی دیگر کمپنیوں میں خود استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔
دونوں درخواست دہندگان نے کہا کہ نجی شعبے میں ان کے اپنے صارفین ہیں اور وہ گیس یوٹیلیز کے پائپ لائن نیٹ ورک کو استعمال کرکے حکومت پر کوئی بوجھ ڈالے بغیر ایل این جی کی درآمد کا بندوبست کریں گے۔
دونوں فریقین نے فلوٹنگ اسٹوریج اینڈ ری گسیفیکیشن یونٹ (ایف ایس آر یو) کے مینوفیکچرز کے نام بتانے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اس سے ان کے کاروباری منصوبوں میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گیس کمپنیوں کو ایل این جی آپریٹرز کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت
تعبیر کے نمائندہ سعد قاضی نے بتایا کہ کمپنی تعمیراتی لائسنس کے اجرا کی بنیاد پر ایف آئی ڈی بنائے جانے کے 24 ماہ بعد اپنے ٹرمینل کو چلانے کا ہدف بنا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے میں تھوڑا سا زیادہ وقت لگے گا کیونکہ کمپنی کو 24 کلومیٹر طویل پائپ لائن بھی بنانا ہوگی جس میں چن بنڈو جزیرہ سے 19 کلومیٹر کی آف شور پائپ لائن بھی شامل ہوگی جہاں ٹرمینل لگایا جائے گا۔
اس ٹرمینل میں پورٹ قاسم پر سوئی سدرن گیس پائپ لائن نیٹ ورک کے ساتھ ٹائی-ان سہولت ہوگی اور اس میں 750 سے ایک ہزار ملین مکعب فٹ یومیہ (ایم ایم سی ایف ڈی) کی گنجائش ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ تقریبا 500 ایم ایم سی ایف ڈی، آر ایل این جی ناردرن اور تقریبا اتنی ہی ملک کے جنوبی حصوں کو فراہم کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ گیس کی ٹرانسپورٹیشن کے معاہدے کے لیے ایس ایس جی سی ایل اور ایس این جی پی ایل کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمپنی نے عالمی معیار کے ٹرمینل فراہم کرنے والوں کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں اور ایس این جی پی ایل کے ساتھ بھی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں اور گیس کے شعبے میں کام کرنے کے لیے ایس ایس جی سی ایل کے ساتھ سمجھوتہ کیا ہے۔
اینرگیس کے انصار خان نے کہا کہ ان کی کمپنی نے 2022 میں اپنا ایل این جی ٹرمینل لگانے اور اپنی شراکت دار کمپنیوں کو سستا ایندھن فراہم کرنے کے لیے لائسنس، اراضی اور متعلقہ ریگولیٹری منظوری حاصل کرلی ہے۔
ان میں لکی گروپ، یونس برادرز، سفائر گروپ اور ہالمور وغیرہ شامل ہیں جن کو گیس کی فراہمی نہیں ملی اور برآمدی آرڈرز اور ملکی پیداوار کو پورا کرنے کے لیے انہیں فرنس آئل پر انحصار کرنا پڑرہا تھا۔
سیمنٹ، ٹرانسپورٹ اور ٹیکسٹائل سیکٹر سے تعلق رکھنے والے متعدد کاروباری گروپس نے کہا کہ دونوں درخواست دہندگان کو نئے ٹرمینلز کو اضافی آر ایل این جی کے سسٹم میں شامل کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے اور گیس کی قلت کی وجہ سے متعدد پروجیکٹس کو کھولنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: ایل این جی ٹینڈر ڈیفالٹ پاکستان کے لیے رحمت بن گیا
جب کہ سی این جی اسٹیشن مالکان نے نجی شعبے کے ایل این جی ٹرمینلز سے اخراجات کم کرنے کا خیرمقدم کیا تاہم ریگولیٹر سے سوال کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ نئے ٹرمینلز میں نجی کاروباری گروپس کے علاوہ نجی صارفین کے لیے بھی کچھ اضافی گنجائش موجود ہونی چاہیے جس سے عوامی شعبے کی دو گیس یوٹیلیٹی کمپنیوں کی اجارہ داریوں کی طرح نجی شعبے کی اجارہ داری سے بچا جاسکے۔
اوگرا نے اپنے اختتامی بیان میں کہا کہ 'تمام اسٹیک ہولڈرز نے متفقہ طور پر اتھارٹی سے نجی سرمایہ کاروں کو لائسنس کی فراہمی کے عمل میں تیزی لانے کا مطالبہ کیا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے مستقبل میں توانائی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نجی شعبے کی ایل این کی درآمد کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔