حکومت، کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے مابین مذاکرات کا آغاز
ایک روز قبل ہی ہر قسم کے مذاکرات سے انکار کے بعد وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے علی الصبح پیر کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں شیخ رشید نے بتایا کہ مذاکرات کا پہلا دور کافی بہتری سے مکمل ہوا ہے اور مثبت رہا جبکہ دوسرا دور سحری کے بعد صبح ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ٹی ایل پی نے اغوا کیے گئے پولیس اہلکاروں کو چھوڑ دیا ہے اور خود مسجد رحمتہ اللعالمین میں چلے گئے ہیں جبکہ پولیس بھی پیچھے ہٹ چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں پُرتشدد مظاہرے، ڈی ایس پی سمیت 5 پولیس افسران اغوا
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات حکومت پنجاب نے کیے ہیں جس کے دوسرے دور میں باقی معاملات بھی طے کرلیے جائیں گے اور 192 ناکوں میں سے ایک ناکہ رہ گیا تھا اس میں بہتری آگئی ہے۔
علاوہ ازیں ٹی ایل پی کارکنان کے خلاف تھانہ نواں کوٹ پر 'حملے' کا مقدمہ بھی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کرلیا گیا ہے۔
مزید برآں مذہبی رہنماؤں کی جانب سے لاہور واقعے پر احتجاجاً ہڑتال کا اعلان کرنے کے بعد بڑے شہروں میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔
یرغمال بنائے گئے پولیس اہلکار بازیاب
دوسری جانب لاہور پولیس کے ترجمان نے کہا کہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے اہلکاروں کو بازیاب کروانے کے آپریشن میں حصہ لیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پولیس کی نفری کے علاوہ رینجرز کو بھی شہر بھر کے حساس مقامات پر تعینات کردیا گیا ہے جبکہ نواں کوٹ پر ہونے والا احتجاج منتشر ہوگیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس مقام پر موجود ہیں۔
خیال رہے کہ سی سی پی او لاہور کے ترجمان نے اس سے قبل ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹی ایل پی کارکنان نے ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کو 'بہیمانہ تشدد' کا نشانہ بنایا اور انہیں اور دیگر 4 اہلکاروں کو یرغمال بنالیا ہے۔
بعدازاں وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ حملہ آور ڈی ایس پی سمیت 12 پولیس اہلکاروں کو اغوا کر کے اپنے مرکز لے گئے ہیں۔
ہڑتال کی کال
گزشتہ شب لاہور میں پیش آنے والی صورتحال پر مفتی منیب الرحمٰن کی سربراہی میں تنظیمات اہلسنت کا ایک خصوصی اجلاس ہوا جس کے بعد ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے آج ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کی کال دی گئی تھی جس کی حمایت جمیعت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی نے بھی کی۔
مفتی منیب الرحمٰن نے کہا تھا کہ 'مین اسٹریم میڈیا پر پابندیاں ہیں، اس لیے درست معلومات دستیاب نہیں ہیں تاہم سوشل میڈیا سے جو معلومات لوگوں تک پہنچ رہی ہیں وہ انتہائی ہولناک اور اذیت ناک ہیں کہ ہم سب کے دل دکھی اور آنکھیں اشکبار ہیں'۔
مزید پڑھیں: مفتی منیب الرحمٰن کا ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کا اعلان
انہوں نے مزید کہا کہ '2017 میں ان لوگوں (کالعدم ٹی ایل پی) کا یہی عمل آپ کی داد و تحسین کا مستحق تھا کیونکہ تب اقتدار پر کوئی اور فائز تھا اور جب آپ خود اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہیں تو وہی عمل آپ کی نظر میں دہشت گردی قرار پایا، اس سے بڑی منافقت اور کیا ہوگی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس تھانوں اور جیلوں میں قید کارکنان پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، انہیں اذیت سے دوچار کیا جارہا ہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تھانوں اور جیلوں میں قید کارکنان کو ذاتی مچلکوں پر فوری طور پر رہا کیا جائے اور تمام جعلی ایف آئی آرز واپس لی جائیں، اس کے بغیر مسئلے کے پُرامن حل کی توقع رکھنا خوش فہمی ہوگا'۔
دوسری جانب ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی نے بھی ایک ٹوئٹر پیغام میں 'لاہور میں حکومت کی جانب سے خونریزی' کی مذمت کی۔
پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ چند افراد نے پولیس پر جو حملے کیے وہ بھی یقیناً غلط تھے لیکن ان سے آج کی گئی سفاکی اور درندگی کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا حکومت ہوش میں آئے اور دانشمندی سے کام لے۔
لاہور کے یتیم خانہ چوک پر کیا ہوا تھا؟
خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور کے یتیم خانہ چوک پر موجود احتجاجی مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدیدجھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور 15 پولیس اہلکاروں سمیت سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام نے پورا دن اس تصادم، بشمول پولیس تھانے پر حملے، اہلکاروں کے اغوا، ہلاکتوں اور زخمیوں سے متعلق کسی قسم کی خبر نشر کرنے پر پابندی عائد کررکھی۔
تاہم شام میں حکومتی عہدیداروں نے نجی چیلننز پر آ کر بیانات دیے کہ گڑ بڑ اس وقت شروع ہوئی جب ٹی ایل پی مظاہرین نے تھانے پر حملہ کر کے ڈی ایس پی اور اہلکاروں کو یرغمال بنایا۔
دوسری جانب ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی ترجمان شفیق امینی کا کہنا تھا کہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز نے لاہور میں ان کے مرکز پر صبح 8 بجے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 'متعدد کارکنان جاں بحق اور بڑی تعداد میں زخمی ہوگئے'۔
یہ بھی پڑھیں:حکومت کے پاس اپنی رٹ قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا، شیخ رشید
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یرغمال بنائے گئے پولیس اہلکاروں نے ان کے مرکز پر حملہ کیا تھا اور وہ ان کے کارکنان کی ہلاکت میں ملوث ہیں۔
پیغام ان کا مزید کہنا تھا کہ اہلکاروں کو ہجوم سے چھڑانے کے بعد ابتدائی طبی امداد دی گئی، وہ ہماری تحویل میں ہیں اور صورتحال بہتر ہونے پر انہیں رہا کیا جائے گا کیوں کہ ٹی ایل پی مرکز کے باہر ہجوم کی موجودگی کے باعث اس وقت انہیں رہا کرنا خطرناک ہوسکا ہے۔
پنجاب پولیس نے ایک بیان جاری کر کے دعویٰ کیا تھا کہ اتوار کی صبح شرپسندوں نے تھانہ نواں کوٹ پر حملہ کیا جس سے وہاں موجود رینجرز اور پولیس افسران پھنس گئے، بعدازاں وہ ڈی ایس پی نواں کوٹ کو اغوا کر کے اپنے مرکز لے گئے جبہ 50 ہزار لیٹر پیٹرول کے ایک آئل ٹینکر کو بھی ساتھ لے گئے۔
بیان کے مطابق پولیس اور رینجرز نے شر پسندوں کو پیچھے دھکیل کر تھانے کا قبضہ واپس لے لیا، پولیس نے مسجد یا مدرسے کے خلاف کوئی منصوبہ بندی یا آپریشن نہیں کیا بلکہ اپنے دفاع اور عوامی املاک کے تحفظ کے لیے کارروائی کی۔
احتجاج کیوں؟
ٹی ایل پی نے فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر رواں سال فروری میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا تھا۔
حکومت نے 16 نومبر کو ٹی ایل پی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا اور جب 16 فروری کی ڈیڈ لائن آئی تو حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت مانگا۔
جس پر ٹی ایل پی نے مزید ڈھائی ماہ یعنی 20 اپریل تک اپنے احتجاج کو مؤخر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔
اس حوالے سے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز سعد رضوی نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کارکنان کو کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو احتجاج کے لیے تیار رہیں، جس کے باعث حکومت نے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔
واضح رہے کہ سعد رضوی ٹی ایل پی کے مرحوم قائد خادم حسین رضوی کے بیٹے ہیں۔
ٹی ایل پی سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع ہوگئے جنہوں نے بعض مقامات پر پر تشدد صورتحال اختیار کرلی تھی جس کے بعد حکومت ٹی ایل پی پر پابندی عائد کردی تھی۔