ایف آئی اے کی تحویل میں ایک شخص کی ہلاکت، تحقیقاتی ٹیم ملتان پہنچ گئی
ملتان: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کی ہدایت پر ایک تحقیقاتی ٹیم ملتان پہنچ گئی ہے جو ایف آئی اے کے دفتر میں دوران حراست ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) کے لائن سپرنٹنڈنٹ کی مبینہ طور پر ہلاک کی تفتیش کرے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متوفی ضیا الحق کی تدفین ان کے آبائی علاقے ویہاڑی میں کردی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: پولیس حراست میں ملزم کی پراسرار ہلاکت، تھانہ ایس ایچ او معطل
متوفی کی ٹیسٹ رپورٹ میں تصدیق ہوئی ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر تھا جبکہ محکمہ صحت کی جانب سے ایف آئی کے تمام عملے کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور انہیں ایف آئی اے کے لاک اپ میں رکھا گیا ہے۔
نشتر میڈیکل یونیورسٹی اور ہسپتال کی لیبارٹری کی ٹیسٹ رپورٹ کے مطابق متوفی کے نمونے حاصل کرکے 16 اپریل کو لیب بھیجے گئے تھے۔
اسی روز ٹیسٹ کی رپورٹ جاری کردی گئی تھی، جس میں متوفی کا کورونا ٹیست مثبت آیا تھا۔
ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ انکوئری ٹیم، جس میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (شمالی) ساجد اکرام اور ڈپٹی ڈائریکٹر عدیل عباس شامل ہیں، معاملے کی تحقیقات کرنے اور ایف آئی اے ملتان کے عملے کے ابتدائی بیانات لینے کے لیے پہنچ گئے ہیں، جن میں ڈپٹی ڈائریکٹر خواجہ حماد بھی شامل ہیں جو مبینہ شریک ملزم اور مذکورہ مقام پر تفتیشی ٹیم کے انچارج ہیں۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ واقعے کی عدالتی تحقیقات کا آغاز بھی ہو چکا ہے اور مجسٹریٹ نے ہسپتال کا دورہ بھی کیا تھا، مزید بتایا گیا کہ جس وقت لاک اپ میں ملزمان کے ٹیسٹ کیے گئے تھے اس وقت اسے اور ایف آئی کے دفتر کو ڈس انفیکٹڈ کیا گیا تھا تاہم ٹیسٹ کٹس کی کمی کی وجہ سے عملے کے آدھے افراد کا ٹیسٹ نہیں ہوسکے۔
یہ بھی پڑھیں: حراست کے دوران لڑکے کی موت پر جووینائل جسٹس ایکٹ کے نفاذ کا مطالبہ
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے لیے پولیس کو درخواست دے دی گئی ہے تاہم مذکورہ ایف آئی آر میں ایک بااثر خاندان سے تعلق رکھنے والے افسر کا نام نکالنے کے حوالے سے کوششیں کی جارہی ہیں۔
ایف آئی اے ملتان آفس کے انچارج خواجہ حماد نے مذکورہ معاملے پر رد عمل دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سرکاری طور پر مؤقف دینے کا اختیار نہیں ہے اور صرف وزارت داخلہ ہی مذکورہ معاملے پر کوئی بیان جاری کرسکتی ہے۔
یہ رپورٹ 18 اپریل 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی