امریکا نے روس پر نئی پابندیاں عائد کردیں، 10 سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم
امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ برس ہونے والے صدارتی انتخاب میں مداخلت اور وفاقی ایجنسیز کی ہیکنگ کے الزام میں روس پر نئی پابندیاں عائد کرتے ہوئے امریکا سے 10 سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کردیے۔
امریکی خبررساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق ان پابندیوں میں ماسکو کی رقم قرض لینے کی صلاحیت کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے اور اب امریکی مالیاتی اداروں کو روسی اداروں سے براہ راست بانڈز خریدنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے کئی ہفتوں تک محیط یہ اقدامات، ہیکنگ کے الزام میں کریملین کے خلاف پہلے مزاحمتی ردعمل کی نشاندہی کرتے ہیں، جسے سولر ونڈز بریچ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا کا چین اور روس پر وائرس کی سازشوں میں ’ہم آہنگی‘ کا الزام
اس مداخلت کے حوالے سے مانا جاتا ہے کہ روسی ہیکرز نے وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے سافٹ ویئر کو وائرس پر مبنی کوڈ سے متاثر کیا تھا جس کے نتیجے میں انہوں نے امریکی ایجنسیز کے نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کی۔
امریکی حکام مانتے ہیں کہ یہ انٹیلی جنس معلومات اکٹھا کرنے کا آپریشن تھا جس کا مقصد حکومتی رازوں کا پتا لگانا تھا۔
اس ہیک کے علاوہ گزشتہ ماہ امریکی حکام نے الزام لگایا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بطور صدر دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی ناکامی پر ان کی مدد کے لیے اثر و رسوخ پر مبنی آپریشنز کی اجازت دی تھی تاہم اس کے کوئی شواہد نہیں کہ روس یا کسی اور نے ووٹوں کو تبدیل کیا یا نتائج میں کوئی رد و بدل کیا۔
تاہم روس نے ان تمام کارروائیوں کے الزامات کو مسترد کیا تھا اور جوابی کارروائی سے خبردار کیا تھا۔
آج (15 اپریل کو) کیے گئے اعلان میں 6 روسی کمپنیوں پر پابندیاں بھی شامل ہیں جو ملک کی سائبر سرگرمیوں میں تعاون کرتی ہیں۔
ان پابندیوں کے ساتھ ساتھ 32 افراد اور اداروں پر پابندی عائد کی گئی ہے جن پر گزشتہ برس کے صدارتی انتخاب میں مداخلت سمیت گمراہ کن معلومات پھیلانے کا الزام شامل تھا۔
امریکا نے کریمیا پر روس کے قبضے سے وابستہ 8 افراد اور اداروں پر بھی پابندی لگادی ہے۔
علاوہ ازیں بائیڈن انتظامیہ نے کہا کہ ملک بدر کیے جانے والے 10 سفارتکاروں میں روسی انٹیلی جنس سروسز کے نمائندے شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام، روس کے 4 شہریوں پر پابندی
امریکی انتظامیہ کی جانب سے دیگر اقدامات بھی متوقع ہیں تاہم انتظامیہ کی جانب سے ان کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔
حکام کی جانب سے یہ ہدایت کی جارہی ہے روس کے لیے ان کا ردعمل، دیکھا اور ان دیکھا دونوں طریقوں سے ہوگا۔
امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ انتونی بلنکن نے کہا کہ 'ان اقدامات کا مقصد روس کے لاپروا اقدامات کا محاسبہ کرنا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم روسی کارروائیوں کا سخت ردعمل دیں گے جو ہمیں یا ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کو نقصان پہنچاتی ہیں'۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'جہاں ممکن ہوا، امریکا ، روس کے ساتھ تعاون کے مواقع بھی حاصل کرے گا، جس کا مقصد امریکی مفادات کے مطابق مستحکم تعلقات استوار کرنا ہے'۔
مزید پڑھیں: امریکی انتخابی مہم میں دوبارہ روسی مداخلت کے الزامات
وائٹ ہاؤس نے یہ بھی کہا کہ جو بائیڈن ان رپورٹس کے جواب میں سفارتی، فوجی اور انٹیلی جنس چینلز کا استعمال کر رہے تھے کہ 'روس نے انٹیلی جنس کمیونٹی کے 'بہترین اندازوں' کی بنیاد پر افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملہ کرنے کے لیے طالبان کی حوصلہ افزائی کی تھی'۔
مذکورہ پابندیوں کے اعلان کے بعد، روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا نے تنبیہ کی ہے کہ 'اس طرح کا جارحانہ سلوک بلا شبہ انتقام کے عزم کو متحرک کردے گا'۔
انہوں نے کہا کہ ' واشنگٹن کو احساس ہونا چاہیے کہ اسے دوطرفہ خاتمے کی قیمت ادا کرنی ہوگی'۔
وزارت خارجہ کی ترجمان نے مزید کہا کہ 'اس کی ذمہ داری مکمل طور پر امریکا پر عائد ہوگی'۔
انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ نے 'سخت بات چیت' کے لیے امریکی سفیر کو طلب کیا ہے لیکن یہ فوری طور پر نہیں بتائیں گے کہ روس کیا کارروائی کرے گا۔