چار مختصر کہانیاں
مختصر کہانی-1: امداد
‘یہاں سے آگے ٹریفک سگنل لال ہے، رُکو، رُکو!’
‘نہیں نہیں نہیں، میں گاڑی اور تیز چلاؤں گا!’
‘رُک جاؤ ورنہ کسی کو کچل دو گے۔’
‘ہاہاہا۔ روند دیا۔’
‘کتنے آدمی کچل دیے؟’
‘چار، یہ غریب سارا دن سڑکوں پر کرتے کیا رہتے ہیں؟’
‘وہ منتظر رہتے ہیں کہ کب کوئی اچھی گاڑی اُنہیں روند دے تاکہ پچھلوں کا گزارا ہوسکے، ویسے یہ تیسری دفعہ ہے کہ تم نے گاڑی تلے آدمی روند دیے۔’
خبرنامہ: ‘ناظرین یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ آج ایک رئیس صاحب اپنی گاڑی پر بالکل آرام سے جارہے تھے کہ چند شرارتی نوجوان خود اُن کی گاڑی تلے آکر کچلے گئے۔ رئیس صاحب نے لواحقین کو 10، 10 لاکھ روپے ادا کیے، جس پر انہوں نے رئیس صاحب کا شکریہ ادا کیا۔’
ختم شُد
مختصر کہانی نمبر-2: سودا
‘یہ تصویر دیکھیں، اچھی ہے نا؟’
‘نہیں میڈم۔ یہ لڑکی تو کچھ کالی ہے، مجھے گوری لڑکیاں پسند ہیں۔’
‘اچھا یہ دیکھیں۔’
‘ارے ارے، اس کا قد دیکھیے، کتنا چھوٹا ہے۔’
‘ویسے آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟’
‘50 ہزار روپے کما لیتا ہوں’، نوجوان نے ٹائی کی ناٹ درست کرتے ہوئے کہا۔
‘بس 50 ہزار؟’
‘جی یہ کچھ ایسی کم تنخواہ بھی نہیں۔’
‘کیا آپ کے پاس گاڑی ہے؟’
‘نہیں مگر موٹرسائیکل ہے۔ ابھی پچھلے ماہ ہی نئی خریدی ہے۔’
‘اچھا، میڈم یہ چند تصویریں جو آپ کے دائیں طرف البم میں موجود ہیں، یہ ذرا دکھائیے۔’
‘معاف کیجیے گا، یہ البم دیکھنے کے لیے آپ کی تنخواہ ناکافی ہے۔ ان لڑکیوں کی ڈیمانڈ ہے کہ شوہر کی تنخواہ ایک لاکھ سے زائد اور گاڑی بھی ہو۔’
ختم شد
مختصر کہانی-3: خشک سالی
وہ صحرا میں گاڑیوں کی ریس میں حصہ لے رہا تھا، اس ریس کے لیے اس نے خاص گاڑی بیرونِ ملک سے امپورٹ کی تھی، مگر کچھ فنی خرابی کے باعث اب وہ ایک ویران جگہ پر پھنس کر رہ گیا تھا۔ اب جب تک انتظامیہ اس تک نہیں پہنچتی اسے انتظار کرنا تھا۔ اسی دوران ایک 12 سے 13 سال کا لڑکا ہاتھوں میں ٹین کا بڑا برتن لیے اس کے پاس آیا۔
‘گاڑی خراب ہوگئی ہے؟’
‘ہاں کچھ گڑبڑ ہوگئی ہے۔ ابھی لوگ آجائیں گے، ٹھیک ہوجائے گی۔’
‘یہ بہت تیز چلتی ہے؟’، لڑکے نے گاڑی کے بڑے بڑے ٹائروں کو ہاتھ سے چُھو کر دیکھا۔
‘ہاں بہت تیز، اور یہ تم کہاں جارہے ہو؟’
‘میں تو پانی لینے جارہا تھا’، لڑکے نے جواب دیا۔
‘ہمارے ہاں خشک سالی ہے، ہم دُور ایک کنویں سے پانی بھر کر لاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ پانی پیتا رہوں مگر ایک گلاس سے زیادہ دن میں پانی پینا ممکن نہیں۔ ہم سب گھر والے جب ایک ایک گلاس پی لیتے ہیں تو ہمارے برتنوں کی گیلی تہوں میں بکریاں منہ مار مار کر اپنی خشک زبانوں کو تر کرتی ہیں، اس طرح ہم ایک قطرہ بھی ضائع ہونے سے بچا لیتے ہیں، مگر ہمارے پاس پانی نہیں ہے اور کنواں بھی سوکھتا جارہا ہے’، بچے کی یہ ساری باتیں سُن کر گاڑی میں بیٹھے آدمی کو بے تحاشا پیاس کا احساس ہوا۔
اس نے پاس پڑی پانی کی بوتل کا ڈھکن کھولا اور غٹاغٹ ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گیا۔
‘آپ کے پاس تو پانی ختم ہوگیا ہے؟'، لڑکے نے خالی بوتل کو دیکھا۔
‘نہیں میرے پاس ڈگی میں کافی بوتلیں موجود ہیں’، آدمی نے کہا اور بوتل باہر پھینک دی۔
لڑنے نے لپک کر بوتل اٹھائی، ڈھکن کھولا اور اس میں سے آخری قطرہ تک نچوڑ لیا۔
‘آپ نے پھینک کیوں دی تھی؟ اس میں تو ابھی پانی موجود تھا’۔
ختم شُد
مختصر کہانی-4: ناک
شادی کو 10 سال ہوچکے تھے مگر اس کی کوئی اولاد نہیں تھی، اپنے ملنے والوں کے سوالات سے وہ دونوں میاں بیوی بے حد پریشان رہا کرتے تھے۔ پھر ایک صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے ایک وہم نے گھیر لیا تھا۔
اس کی ناک بے حد چھوٹی ہوگئی تھی، حالانکہ اس دن سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، حتیٰ کہ زندگی کے پہلے 35 سال تک اس کی ناک بالکل مناسب سائز کی رہی تھی، تاہم اس صبح جب اس نے شیشے میں اپنی ناک دیکھی تو وہ اسے کچھ چھوٹی دکھائی دی۔ بھلا اس عمر تک ناک نے جتنا بڑھنا تھا بڑھ لیا ہے، اب اور تو فرق نہیں آسکتا اور جب اس کی بیگم نے اس کے چہرے کو بغور دیکھا تو وہ چلانے لگا۔
‘تم میری ناک دیکھ کر حیران ہوگئی ہو نا؟’
‘نہیں تو، میں کون سا پہلی بار تمہیں دیکھ رہی ہوں۔’
‘میں تمہاری آنکھوں میں چھپے اس طنز کو صاف دیکھ سکتا ہوں۔’
اس نے پھر شیشہ دیکھا۔ ناک کو چُھو کر دیکھا۔
‘ہاں واقعی یہ کچھ چھوٹی ہوگئی ہے، مگر مجھے دفتر جانا ہے۔’
بس میں بیٹھ کر بھی وہ شیشے میں اپنا چہرہ دیکھتا رہا اور بار بار گھبرا کر ایک ہاتھ اپنی ناک کے آگے رکھ لیتا تھا۔
‘آہ! اتنی چھوٹی ناک سے تو آدمی چھینک بھی نہیں سکتا۔ حتیٰ کہ سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔’
وہ بہت پریشان ہوا کہ یوں بیٹھے بٹھائے یہ کیا مصیبت آگئی ہے، آدمی کی ناک کیسے تبدیل ہوسکتی ہے، مگر ایسا ہوگیا تھا جس کے باعث اس کی راتوں کی نیند اُڑ گئی تھی، وہ جاگتا رہتا اور اپنی چھوٹی سی ناک کو بار بار شیشے میں دیکھتا کہ شاید اپنی اصل حالت میں لوٹ آئی ہو۔
اس کی بیوی اسے سمجھاتی کہ ایسا کچھ نہیں ہے، یہ بس اس کا وہم ہے، مگر اسے یقین نہ آتا اور آئے روز کسی نہ کسی سے اس کا جھگڑا ہوجاتا۔
ایک رات جب وہ جاگ رہا تھا کہ اسے باہر کتوں کا بے تحاشا شور سنائی دیا اور پھر چند دوڑتے قدموں کی آواز۔ وہ فوراً باہر گلی میں آگیا۔ دُور بلب کی روشنی میں کوئی آدمی گلی کا موڑ مڑ رہا تھا۔ 3 کتے سامنے کے خالی پلاٹ میں بھونک رہے تھے۔ اس کے گھر کی بیرونی دیوار میں نصب بلب کی روشنی پلاٹ کے اندھیرے کو بھی کچھ کم کررہی تھی۔
‘بچے کی آواز؟ یہ پلاٹ تو خالی ہے، اس ڈھیر پر بچے کی آواز؟‘
وہ دوڑ کر خالی پلاٹ میں داخل ہوا، کتے اسے دیکھ کر پیچھے ہٹے۔ سامنے ایک کپڑے میں لپٹا بچہ روئے چلا جارہا تھا۔ اس نے بچے کو اٹھایا اور دوڑ کر گھر آگیا۔
‘زرینہ، زرینہ۔ یہ دیکھو’، اس نے بیوی کو جگایا اور بچے کو اس کی گود میں رکھ کر خود بھی رونے لگا۔
اگلے روز جب اس نے بچے کو اٹھا کر خود کو شیشے میں دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کی ناک بالکل ٹھیک ہوگئی ہے۔
ختم شُد
تبصرے (2) بند ہیں