قومی ٹیم کے لیے یہ جیت ناگزیر کیوں تھی؟
پاکستان نے بالآخر جنوبی افریقہ کے خلاف ون ڈے سیریز میں کامیابی حاصل کر ہی لی۔ یہ فتح قومی ٹیم کے لیے کیوں اہم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان اب تک کھیلی جانے والی 10 ایک روزہ سیریز میں یہ پاکستان کی صرف دوسری سیریز فتح ہے۔
اس سے پہلے قومی ٹیم نے 2013ء میں جنوبی افریقہ کو اسی کے میدان پر تین ایک روزہ میچوں کی سیریز میں 1-2 سے شکست دی تھی۔ اس کے علاوہ ان دونوں ٹیموں کے درمیان 5 میچوں پر مشتمل 8 ایک روزہ سیریز منعقد ہوئیں اور تمام میں جنوبی افریقہ کو کامیابی نصیب ہوئی۔ 2013ء اور موجودہ کامیابی میں ایک بات اہم ضرور ہے کہ اس وقت مصباح الحق قومی ٹیم کے کپتان تھے اور اس بار وہ بطور کوچ ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ کہ گزشتہ 10 سالوں میں قومی ٹیم سرِفہرست 5 ٹیموں کے خلاف صرف 2 مرتبہ ایک روزہ سیریز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔ جن میں سے ایک جنوبی افریقہ کے خلاف تھی جس کا اوپر ذکر ہوچکا اور دوسری بھارت کے خلاف تھی۔ بھارت کے خلاف یہ سیریز 2012ء کے اختتام پر شروع ہوئی تھی۔ 3 میچوں کی سیریز میں قومی ٹیم نے ابتدائی دونوں میچ جیت کر سیریز اپنے نام کرلی تھی، جبکہ تیسرے میچ میں بھارتی ٹیم کامیاب رہی۔
اگرچہ اس پورے عرصے میں قومی ٹیم سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور دیگر ٹیموں کو پچھارتی رہی ہے، مگر بڑی ٹیموں کے خلاف نہ ان کے گھر پر کوئی کامیابی ملی اور نہ میزبانی کرتے ہوئے۔
جنوبی افریقہ کے خلاف اس سیریز سے قبل کرکٹ شائقین کا یہ خیال تھا کہ یہ ایک کمزور جنوبی افریقہ ٹیم ہوگی جو تیسرے ون ڈے میں 5 کھلاڑیوں کی انڈین پریمئر لیگ (آئی پی ایل) کے لیے رخصتی کے بعد مزید کمزور ہوجائے گی۔ اگرچہ یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی تھی لیکن یہ ٹیم اپنے گھر پر کتنی خطرناک ہے، اس سے متعلق اعداد و شمار کچھ اور ہی کہہ رہے تھے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ورلڈکپ 2019ء میں جنوبی افریقہ کی کارکردگی کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی، لیکن جنوبی افریقہ اپنے گھر میں ہمیشہ ہی ایک مختلف ٹیم رہی ہے، خاص طور پر باہمی سیریز کے دوران۔ پچھلے سال اسی کمزور جنوبی افریقی ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف ایک روزہ سیریز 1-1 سے برابر کی تھی اور آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کو 0-3 سے شکست دی تھی۔
کامیابی کی وجوہات
اگر ہم اس سیریز میں قومی ٹیم کی کامیابی کی وجوہات کو ڈھونڈیں تو سب سے خاص بات فخر زمان کی فارم میں واپسی رہی ہے۔ فخر زمان 2017ء میں کھیلی جانے والی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں روایتی حریف بھارت کے خلاف اہم ترین سنچری اسکور کرکے ہیرو بنے تھے۔ پھر اگلے سال زمبابوے کے خلاف پاکستان کی جانب سے ڈبل سنچری بنانے والے پہلے بیٹسمین بھی بنے۔ اس کے بعد ایک روزہ کرکٹ میں تیز ترین ایک ہزار مکمل کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا لیکن اس کے بعد جیسے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
ورلڈکپ 2019ء میں وہ بُری طرح ناکام ہوئے اور تب سے اب تک قومی ٹیم نے ایک روزہ کرکٹ بھی زیادہ نہیں کھیلی۔ پھر جب موجودہ سیریز کے پہلے میچ میں فخر ایک بار پھر ناکام ہوئے تو دوبارہ انہیں باہر کرنے کی آوازیں آنے لگیں، لیکن دوسرے میچ میں 342 رنز کے تعاقب میں 120 رنز پر آدھی ٹیم پویلین لوٹ گئی اور ہر کسی نے میچ جیتنے کی امیدیں دل سے نکال دیں، تب فخر زمان نے 193 رنز پر مشتمل ایک جادوئی اننگ کھیلی۔
اگرچہ فخر اپنی اس یادگار اننگ کی بدولت پاکستان کو میچ تو نہ جتوا سکے لیکن ہدف کے تعاقب میں کھیلی گئی سب سے بڑی اننگ کھیلنے کا اعزاز ضرور حاصل کرلیا۔ اس دن کوئی ایک بھی بیٹسمین فخر کا ساتھ دیتا تو شاید یہ میچ پاکستان کے نام رہتا۔ فخر نے اسی اننگ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تیسرے ون ڈے میں ایک اور سنچری بنا کر واضح کردیا کہ دوسرے ون ڈے میں سنچری محض ’فلوک‘ نہیں تھی۔ اس بار فخر کا ساتھ کپتان بابر اعظم اور پھر پاکستانی باؤلرز نے دیا اور یوں فتح پاکستان کے نام رہی۔
امام الحق کے لیے مشورے
فخر زمان کے ساتھی امام الحق اگرچہ ایک روزہ کرکٹ میں تسلسل سے اسکور کر رہے ہیں لیکن انہیں اپنے اسٹرائیک ریٹ اور اسٹرائیک روٹیشن پر کچھ کام کرنا ہوگا۔ فخر جیسا بیٹسمین اگر سست روی سے آغاز کرتا ہے تو اس کے پاس پاور گیم موجود ہے اور وہ اپنی اس سستی کا ازالہ بعد میں کرسکتا ہے لیکن امام کے پاس یہ پاور گیم نہیں ہے۔ اسی لیے امام کو اسٹرائیک روٹیشن پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔
مڈل آرڈر کی ناکامی پریشان کن
پاکستان کی اس کامیابی کے باوجود مڈل آرڈر کی ناکامی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی طرف سے اس سیریز میں تمام تر اسکور ٹاپ آرڈر، یعنی ابتدائی 3 کھلاڑیوں نے بنایا جبکہ باقی تمام بیٹسمین ناکام رہے۔
آصف علی پاکستان کپ اور پاکستان سپر لیگ میں عمدہ فارم میں نظر آرہے تھے لیکن پاکستانی یونیفارم میں وہ ایک بار پھر ناکام رہے۔ شاید آصف کا شمار بھی انہی کھلاڑیوں میں کیا جائے گا جو ڈومیسٹک میں تو عمدہ کارکردگی دکھاتے ہیں لیکن انٹرنیشنل کرکٹ میں اس کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے۔
دانش عزیز کو جنوبی افریقہ میں موقع دینا شاید اس ٹیلنٹڈ نوجوان کے ساتھ کچھ زیادتی ہوگئی۔
آل راؤنڈرز کی کمی کا احساس
پچھلے چند ماہ میں تسلسل سے اسکور بنانے والے محمد رضوان کی ناکامیوں کو تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن آل راؤنڈر فہیم اشرف اور شاداب خان بھی اس سیریز میں بیٹنگ میں کچھ نہیں کر پائے۔ فہیم اشرف نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں بہترین بیٹنگ کرچکے ہیں اور ٹی20 میں بھی چند عمدہ اننگز کھیل چکے ہیں لیکن ون ڈے کرکٹ میں فہیم مواقع ملنے کے باوجود بیٹنگ میں ناکام ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب شاداب خان کی باؤلنگ میں بھی اب وہ جادو نظر نہیں آرہا جو شروعات میں ان کی باؤلنگ کا خاصہ تھا۔
ون ڈے کرکٹ میں نمبر 7 اور 8 نمبر پر کھیلنے والے کھلاڑیوں کو ضرورت پڑنے پر لمبی اننگ بھی کھیلنی پڑسکتی ہے اور کم اوورز باقی رہ جانے کی صورت میں تیزی سے اسکور بھی بنانا پڑتا ہے۔ لیکن فہیم اشرف کی بیٹنگ میں ابھی تک یہ دونوں صلاحیتیں نظر نہیں آئیں، تو کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ انہیں صرف ان فارمیٹس میں کھلایا جائے جہاں وہ کامیاب رہے ہیں۔
باؤلرز کی ملی جلی کارکردگی
اگر باؤلنگ کا ذکر کریں تو بیٹنگ کے لیے سازگار وکٹوں پر پاکستانی باؤلرز کی کارکردگی کو بُرا نہیں کہا جاسکے گا۔ ہاں، پہلے میچ میں جنوبی افریقہ کی ابتدائی 4 وکٹیں جب محض 55 رنز پر گر گئیں تو لگا کہ اب ان کو جلدی روک لیا جائے گا، مگر ایسا نہیں ہوسکا اور میزبان 273 رنز تک پہنچ گئے۔
حسن علی جو چیمپئنز ٹرافی اور اس کے بعد ایک روزہ کرکٹ کے درمیانی اوورز میں قومی ٹیم کے لیے اہم وکٹیں حاصل کرتے رہے تھے، کافی عرصے سے آؤٹ آف فارم تھے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز میں ٹیسٹ اور ٹی20 سیریز میں تو عمدہ واپسی کرچکے ہیں، لیکن تیسرے ون ڈے میں واپسی کچھ خاص نہ رہی۔ امید ہے کہ حسن علی ون ڈے کرکٹ میں ایک بار پھر اپنے ماضی کے کردار کو نبھا پائیں گے کیونکہ درمیانے اوورز میں وکٹیں حاصل کیے بغیر ون ڈے میں فتح کافی مشکل ہوجاتی ہے۔
حسن علی کی فارم میں واپسی کے ساتھ ساتھ شاداب کی فارم میں واپسی بھی اب ضروری ہوچکی ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر یقینی طور پر قومی ٹیم کو دیگر آپشنز کا ہی سہارا لینا ہوگا جیسے تیسرے ایک روزہ میچ میں عثمان قادر اور محمد نواز کو استعمال کیا گیا۔
سرفراز احمد کی واپسی
اس سیریز کی ایک اور خاص بات سرفراز احمد کی ایک روزہ ٹیم میں واپسی تھی۔ سرفراز احمد 2019ء میں سری لنکا کے خلاف سیریز کے بعد پہلی بار اس فارمیٹ میں قومی ٹیم کی نمائندگی کررہے تھے۔
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں اچھی فارم کے بعد امید تھی کہ وہ اسی فارم کو جاری رکھیں گے لیکن بدقسمتی سے وہ زیادہ رنز تو نہ بنا سکے لیکن فیلڈ میں سرفراز کی موجودگی واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی۔ اچھی کیپنگ کے ساتھ ساتھ سرفراز احمد نے بابر اعظم کے لیے مشوروں اور باؤلرز کے لیے حوصلہ افزائی میں کمی نہ آنے دی۔
اس سیریز میں بابر اعظم ایک بار پھر بہترین فارم میں نظر آئے جو پاکستان کی کامیابیوں کے لیے ضروری بھی ہے۔ بابر اعظم جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز میں ٹی20 اور ٹیسٹ میچوں میں اپنے معمول کے ردھم سے بہت دُور نظر آئے تھے لیکن جنوبی افریقہ میں پہلے ہی ون ڈے میں ایک خوبصورت سنچری نے بابر کی واپسی کا اعلان کردیا۔
بابر اعظم کو جب کپتان بنانے کی باتیں شروع ہوئیں تو کرکٹ شائقین کو ایک ہی خدشہ تھا کہیں کپتانی کا بوجھ بابر اعظم کی بیٹنگ پر اثر انداز نہ ہوجائے۔ سرفراز احمد جیسے فائٹر کرکٹر کی بیٹنگ کپتانی کی وجہ سے بہت کمزور ہوگئی تھی اور بابر اعظم کے بارے میں بھی شائقین کو یہی خدشہ تھا، لیکن کپتان بننے کے بعد بابر کی اب تک کی کارکردگی ایسے تمام خدشات کو دُور کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔
اب دونوں ٹیموں کے درمیان 4 ٹی20 میچوں پر مشتمل سیریز کھیلی جائے گی جس میں امید یہی ہے کہ اسی طرح بہترین کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔ پہلا ٹی20 10 اپریل بروز ہفتہ کھیلا جائے گا۔
تبصرے (1) بند ہیں