پاکستانی صحافت: آگ کا دریا
برِصغیر پر ڈھائی ہزار برس کی حکمرانی، فتوحات، پرانی تہذیبوں کا اجڑنا، نئی تہذیبوں کا جنم لینا، اسکول کے دنوں میں قرۃ العین حیدر کے مشہور ناول ’آگ کا دریا‘ میں یہ سب پڑھنے کا موقع ملا۔ انگریزوں کا قبضہ، برطانوی راج میں آزادی کی جنگ کو ظالمانہ انداز میں کچلا جانا، پھر بٹوارہ اور خون خرابہ۔
نئے ملک پاکستان پر مذہب کی آڑ میں تنگ نظری کا پردہ کیسے اڑھایا گیا، قرۃ العین حیدر کی تحریر نوعمری میں ہی ذہن پر اثرات چھوڑ گئی تھی۔ لیکن اس تخیلاتی تحریر کی تلخ حقیقت کو معاشرے پر مسلط ہوتے ہوئے جوانی میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ معاشرے کے وجود پر ایک حاشیہ کھنیچا گیا۔ ایک طرف جنرل ضیا الحق اور مذہبی جماعتیں جو ملک میں امام خمینی کی طرز کے ’اسلامی انقلاب‘ کے خمار میں فوجی آمر کے حصار میں تھیں، تو دوسری طرف مزاحمتی سیاسی، سماجی قوتیں اور روشن خیال عناصر۔
ملک کی صحافت بھی اسی تقسیم کا نشانہ بنی۔ جہاں جمہوریت کی بحالی اور آزادئ اظہار کے لیے صحافی گرفتاریاں دے رہے تھے وہیں لکیر کے پار ساتھی صحافیوں کا ٹولہ جنرل ضیا کی مذہبی پالیسیوں اور جہادی کلچر کے پرچار میں مصروف تھا۔
پڑھیے: صحافت سے دم توڑتی مزاحمت دیکھ کر ڈر لگتا ہے
اس صحافتی صف کی امامت مرحوم مولانا صلاح الدین کر رہے تھے جو 90ء کی دہائی میں کراچی میں دہشتگردوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ وہ جماعتِ اسلامی کے اخبار جسارت کے مدیر اور جنرل ضیا کے دانشور مشیر تھے، جنہوں نے بعدازاں تکبیر میگزین کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
ان کی مخصوص سوچ نے جہاں صحافت میں سیکڑوں کو متاثر کیا وہیں ان کی وفات کے بعد نظریاتی صحافت اور اساس کی جانشینی داماد رفیق افغان صاحب نے سنبھالی۔ اخبار ’اُمّت‘ جس کا آج کل منفی انداز میں چرچا ہے، اس کا جنم اسی نظریاتی صحافت کے بطن سے ہوا ہے۔
اُمَت اخبار میں سندھ کے معروف دانشور اور لکھاری امر جلیل کو خطرناک القابات سے گردانا گیا جن کے خلاف انتہا پسندوں نے ’توہینِ رسالت‘ کے الزامات لگائے ہوئے ہیں۔ ملک بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں، دانشور رہنما، صحافی سراپا احتجاج ہیں۔ الزامات کو دروغ گوئی پر مبنی قرار دیا گیا ہے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ ملک اور سندھ میں انتہا پسند اپنی سیاسی اور سماجی گرفت مضبوط کرنے کی سازش بُن رہے ہیں۔ ایسے میں جب اخبار کی اس خطرناک روش کے خلاف مذمتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک اور تنازع کھڑا ہوگیا۔
اسی اخبار کی شہ سرخی پر نظر ڈالی تو یقین نہ آیا کہ کیا صحافت تنزلی کی اس سطح کو بھی چُھو سکتی ہے؟ ایک خبر تراشی گئی کہ ’دنیا کے 14 ممالک میں عورتوں سے سب سے زیادہ زیادتی ہوتی ہے۔ عورت مارچ کی رنڈیوں کو یہ غیر مسلم ملک نظر نہیں آتے'۔
اس طرح خبر کی اشاعت اور الفاظ کا استعمال کیا غلطی میں شمار کیا جانا چاہیے؟ وہ بھی اخبار کے پہلے صفحہ پر، شہ سرخی اور ذیلی سرخیوں کے ساتھ اشاعت؟ ادارتی عدسہ اور کئی ادارتی نگاہوں سے گزر کر ہی ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ تو صحافتی ذہن اس خبر کی اشاعت کو دانستہ کوشش سمجھے گا۔
یہ صحافتی عمل ان انتہاپسندوں کی سازش کو آکسیجن فراہم کرنے کے مترادف ہے جو عورت مارچ پر پابندی لگوانا چاہتے ہیں اور اس سے جڑی خواتین کو ایک منظم مہم کے ساتھ بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ عمل صرف بدتہذیبی یا پھر صحافتی اقدار کے خلاف قرار دیا جانا چاہیے؟
اس عمل نے حقیقتاً عورت مارچ سے جڑی ہر عورت کے لیے خطرات کھڑے کردیے ہیں۔
سوچنا تو پڑے گا اور صحافت کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہوگا کہ ان کے اعمال سے ملک میں انتہاپسندی کی گرفت مضبوط ہوئی ہے یا پھر کمزور؟ اگر ہماری یادداشت کمزور نہ ہو تو جواب کے لیے ذہن پر زور بھی شاید نہ دینا پڑے۔
پڑھیے: وبا و حکومتوں کی سختیاں آزادی صحافت پر 'قدغن'
صرف اُمَت اخبار کو ہی دوش دینا کیا حقیقت پسندی ہوگی؟ نائن الیون کے بعد جب سماج کی تہہ در تہہ لپٹی انتہا پسندی نے دہشتگردی کا جان لیوا روپ دھارا تو صحافت نے اسے بھگتا بھی اور کچھ نے اسے بھڑکانے میں دانستگی یا نادانستگی میں خطرناک کردار بھی ادا کیا۔
نجی ٹی وی چینلوں کے دور کا آغاز تھا۔ جیو ہو یا اے آر وائے یا پھر ایکسپریس، سماء یا پھر آج ٹی وی، بیشتر ٹاک شوز میں عراق اور افغانستان میں امریکا کے کردار کے خلاف بحث کو دھواں دار بنانے کے لیے مولوی حضرات یا مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی شرکت لازم اور فرض سمجھی جاتی تھی۔
یہ شخصیات جہاں امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتی تھیں وہیں لوگوں میں موجود جذبات کو اکساتی تھیں۔ ایک انتہاپسندی کی فضا بنتی چلی گئی۔ اسلام آباد میں جب لال مسجد اور مدرسے کے طلبا نے ایک چینی پارلر پر فحاشی کا الزام لگا کر دھاوا بولا تو ٹی وی اینکرز آگ بگولہ ہوگئے کہ ریاست کی رٹ قائم ہونی چاہیے لیکن جب جنرل (ر) مشرف نے لال مسجد کے انتہاپسندوں کے خلاف آپریشن کیا تو وہی اینکر مخالف سمت میں پائے گئے۔ انتظامیہ سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔
آپ کو سلمان تاثیر صاحب کا وہ ٹی وی انٹرویو تو یاد ہوگا جس میں وہ سوالات کی بوچھاڑ کی زد میں نظر آئے۔ سلمان تاثیر ان دنوں مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی ہمدردی کرتے کرتے خود انتہاپسندوں کے الزامات کے گرداب میں تھے۔ انٹرویو ریکارڈ شدہ تھا، کیا حساسیت کے تناظر میں اسے ایڈٹ کرکے نشر کیا جانا چاہیے تھا یا نہیں؟
پڑھیے: برائلر صحافت سے بچنا ہے تو اٹھنا ہوگا
لال مسجد کے واقعے کے بعد ملک بھر میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور مدرسے کے بہت سے طالبِ علم خودکش حملوں میں ملوث پائے گئے۔ اسی طرح سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد اب تحریک لبیک ایک منظم انتہاپسند جماعت اور سیاسی قوت کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ماضی میں معاشرے میں جہادی کلچر کے فروغ کی ذمہ داری جہاں اسٹیبلشمنٹ پر عائد کی جاتی ہے وہیں صحافت کے کردار پر بھی سوال اٹھتے ہیں بالخصوص ٹی وی چینلوں پر۔
مخصوص سوچ کے پرچار کے ساتھ صحافت کا رواج صحافتی اقدار کے منافی ہی سہی برداشت ہوسکتا ہے۔ لیکن کیا انتہا پسندی کے فروغ کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ کیا کسی فرد یا گروہ کے خلاف انتہاپسندوں کو اکسایا جاسکتا ہے جس سے کسی کی جان کو خطرہ لاحق ہو؟
نئی سوچ کی تلاش اور ریاست سے انتہاپسند سوچ کا خاتمہ کیا پابندیوں سے ممکن ہوسکتا ہے؟ تعلیمی اداروں میں طلبا یونین پر پابندی، زندگی تماشا جیسی فلم پر پابندی، محمد حنیف کے 10 برس پرانے جنرل ضیا دور پر شائع کردہ فکشن ناول کے اردو ترجمے پر پابندی، پاکستان کے لیے نئی سوچ کی تلاش تنقیدی سوچ، تعمیری تنقید میں پنہاں ہے۔
پڑھیے: سندھی صحافت کی جدوجہد
انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے متبادل سوچ اور معاشرے میں رائے ہموار کرنے کے لیے عوامی سطح کی تحریکیں مطلوب ہیں۔ عورت مارچ کی تحریک سماج میں قدامت پسند روایتوں کے خلاف مزاحمت کی عکاس ہے۔
انتہاپسند ہر ایسی سوچ کو قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحافت معاشرے میں نئی سوچ کی تلاش میں کردار ادا کرے نا کہ انتہاپسندوں کی آگ بھڑکانے کی کوشش کو ایندھن فراہم کرے۔ دریا میں آگ لگی تو ہماری ساری کشتیاں بھی شعلوں کی لپیٹ میں ہی ہوں گیں۔
تبصرے (4) بند ہیں