مصنوعی دانتوں کا استعمال ماضی کا قصہ بننے کے قریب
دنیا بھر میں مصنوعی دانتوں کا استعمال بہت عام ہے جس کی وجہ درمیانی عمر یا بڑھاپے میں دانتوں سے محرومی ہوتی ہے۔
تاہم سائنسدانوں نے ایک ایسی اینٹی باڈی دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو ٹوٹ جانے والے دانت کی جگہ نئے دانت اگانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بچپن میں ایک بار دانت ٹوٹنے کے بعد جب نئے دانت اگتے ہیں، اگر وہ ٹوٹ جائیں تو پھر ان کی جگہ لینے کے لیے مزید دانت نہیں اگتے۔
یو ایس اے جی 1 نامی جین میں اس اینٹی باڈی کو شامل کرنے سے نشوونما کے مخصوص عناصر کی دستیابی بڑھ جاتی ہے، جس سے بتدریج نئے دانتوں کے اگنے لگتے ہیں۔
طبی جریدے جرنل سائنس ایڈوانسز میں شائع تحقیق میں سائنسدانوں نے چوہوں پر کامیاب تجربے بھی کیے۔
تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے یو ایس اے جی 1 جین کو ہدف بنایا، جہاں 2 ایسے سگنلنگ مالیکیولز ہوتے ہیں جو دانتوں کی نشوونما میں کردار ادا کرتے ہیں۔
تاہم یہ مرکبات دیگر اعضا کی نشوونما کو کنٹرول کرنے مین بھی کردار ادا کرتے ہیں تو ان کے بننے کے عمل میں مداخلت کرنے سے سنگین مضر اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
تجربے کے دوران سائنسدانوں نے مختلف مونوکلونل اینٹی باڈیز کو استعمال کرکے یو ایس اے جی 1 کی دونوں مالیکیولز سے رابطے کی اہلیت کو بدلنے کی کوشش کی۔
متعدد ناکام تجربات کے بعد وہ ایک مخصوص اینٹی باڈی کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے جو اس جین کو مالیکولز سے جوڑنے میں کامیاب رہا اور کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
اس سے سائنسدان مضر اثرات کے بغیر دانتوں کو اگانے میں کا عمل متحرک کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ یو ایس ے جی 1 یو ایس جی 1 جب ایک مالیکیول بی ایم پی سے منسلک ہوجاتا ہے تو نئے دانت اگنے کا عمل رک جت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم پہلے سے جانتے تھے کہ یو ایس اے جی 1 کو دبانا دانتوں کی نشوونما کے لیے مفید ہے، مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسا کرنا نئے دانتوں کو اگانے کے لیے کافی ہے یا نہیں۔
تحقیق کے نتائج سے عدیہ ملتا ہے کہ جین کی سرگرمیوں کی روک تھام سے نئے دانتوں کو اگانے کے لیے مالیکیول کی مقدار کو بڑھایا جاسکتا ہے۔
اس تکینیک کی انسانوں پر آزمائش ہونے میں کافی عرصہ لگ سکتا ہے، اس سے پہلے اس کی آزمائش مختلف ممالیہ جاندار جیسے کتوں پر کی جائے گی۔
اب تک کے تجربات تو کامیاب رہے ہیں اور ممکنہ طور پر یہ تیکنیک انسانوں پر بھی کارآمد ہوسکتی ہے، تاہم ابھی اس کی آزمائش کے لیے کافی کام ہونا باقی ہے۔