رز احمد: آسکر کے لیے نامزد پہلے مسلمان فنکار کا پاکستان سے کیا تعلق ہے؟
کیا کسی ایوارڈ کے لیے نامزدگی آپ کو یکدم مختلف ملکوں میں بسنے والے کروڑوں اجنبیوں سے جوڑ سکتی ہے؟ اور وہ بھی یوں کہ وہ آپ کے کام سے ناواقف ہونے کے باوجود آپ کی جیت کی امید باندھ لیں؟
رضوان احمد، المعروف رز احمد کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ مگر ان صاحب کے قصہ کو کچھ دیر کے لیے یہیں چھوڑتے ہوئے میں آپ سے ایک سادہ سا سوال کرتا ہوں۔
آپ کے اور میرے اردگرد یومیہ کتنے واقعات رونما ہوتے ہیں؟
شاید آپ کو علم ہو کہ سیارہ زمین پر 195ممالک ہیں، جن پر لگ بھگ 8 ارب افراد بستے ہیں اور ہر فرد ایک واقعہ، ایک کہانی ہے۔ گویا ہر بیتتے لمحے ہمارے اردگرد اربوں واقعات رونما ہوتے ہیں، مگر ان میں سے کتنے واقعات آپ کے لیے حقیقی معنوں میں اہم ہوتے ہیں۔ فقط وہی، جن سے آپ سماجی، سیاسی، مذہبی یا لسانی جڑت محسوس کرتے ہیں۔
تو اگر فنون لطیفہ سے وابستہ کسی ایسے شخص کی آسکر کے لیے نامزدگی کی خبر آپ تک پہنچے، جو آپ کے لیے اجنبی ہو، تو شاید آپ یہ خبر سنتے ہی بھول جائیں، لیکن اگر آپ کو بتایا جائے کہ یہ صاحب آپ ہی کے ہم وطن، ہم عقیدہ ہیں، وہی زبان بولتے ہیں، جو آپ بولتے ہیں، تو اچانک آپ کی دلچسپی آسمان پر پہنچ جائے گی، اور اس کی فنی صلاحیتوں سے یکسر ناواقف ہونے کے باوجود آپ یہ امید باندھ لیں گے کہ اس بار تو یہ ایوارڈ اسی شریف النفس آدمی کو ملے گا۔
اور رز احمد کا معاملہ لگ بھگ ایسا ہی ہے۔ جب مارچ کے وسط میں اکیڈمی ایوارڈز کی جانب سے بہترین اداکاری کی کیٹیگری میں نامزدگیوں کا اعلان ہوا، تو رز پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئے اور کیوں نہ بنتے۔ آخر وہ اس ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والے پہلے مسلمان اداکار تھے۔
رز نے کیا کہا؟
اس خبر میں 22 کروڑ پاکستانیوں کی دلچسپی کا خاصا سامان تھا۔ پاکستانیوں کے پاس رز سے جڑت کے 2 اسباب ہیں۔ پہلا ان کا مسلمان ہونا اور دوسرا پاکستانی نژاد ہونا۔
رز کے اجداد نے بٹوارے کے بعد ہجرت کی، تو کراچی کو مسکن بنایا۔ 70ء کی دہائی میں ان کا خاندان برطانیہ چلا گیا اور وہیں 1982ء میں رز کی پیدائش ہوئی۔ تو مذکورہ اسباب کے سبب (یہ جانے بغیر کہ رز احمد نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے کتنی جدوجہد کی) پاکستانیوں نے ایک جشن کی سی کیفیت محسوس کی۔
رز احمد کو بھی اس مذہبی، سماجی اور لسانی جڑت کا ادراک تھا، جس کا اظہار انہوں نے نامزدگی کے بعد اپنے ایک بیان میں کیا۔ کہتے ہیں ‘کئی افراد خود کو اس لمحے سے اس لیے جوڑیں گے کہ میں نامزد ہونے والا پہلا مسلمان اداکار ہوں۔ کچھ کا تعلق میرے پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہونے سے ہوگا، کچھ شاید لندن کے علاقے ویمبلی کے ساتھ میرے تعلق کی بات کریں۔ وہ جس طرح بھی خود کو اس لمحے سے جوڑنا چاہیں، میرے لیے یہ خوبصورت ہوگا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘اہم بات یہ ہے کہ لوگ اس نوع کے باہمی خوشی کے لمحوں میں خود کو بھی میری خوشی سے منسلک کرسکیں‘۔
مگر شبانہ اعظمی نے کس بات کا شکوہ کیا؟
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس خبر نے ڈھائی ارب نفوس پر مشتمل بھارت کی معروف ہستیوں کی دلچسپی کو بھی مہمیز کیا۔ ایک سبب تو یہی تھا کہ ان میں سے چند فنکار (جیسے شبانہ اعظمی) رز کے ساتھ کام کرچکے تھے۔
شبانہ اعظمی نے بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی نژاد فکشن نگار، محسن حامد کے ناول The Reluctant Fundamentalist میں چنگیز (رز) کی والدہ کا کردار نبھایا تھا۔ جہاں وہ خوش تھیں، وہیں اس بات پر تھوڑی شاکی بھی نظر آئیں کہ رز احمد جیسے باصلاحیت فنکار کے نام کا چرچا صرف اس کے مذہب کی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔
معروف ہندوستانی صحافی اور لکھاری، عصیم چھابرا سمیت ہندوستان کی کئی نام زور شخصیات نے انہیں ‘دیسی’ ٹھہراتے ہوئے اس نامزدگی کا جشن منایا۔ اچھا، ہندوستانیوں کی دلچسپی کی ایک وجہ رز کے اجداد کا الہٰ آباد سے تعلق بھی ٹھہرا۔ ان کے بزرگ، سر محمد سلیمان الہٰ آباد کے چیف جسٹس اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ تقسیم کے بعد ان کے خاندان کے کچھ افراد لاہور، تو کچھ کراچی آن بسے، اور پھر کہانی کا رخ برطانیہ کی سمت ہوگیا۔
اس نامزدگی کے پیچھے کون سی ‘فلم’ ہے؟
اگر آپ تحریر کے اس حصے تک پہنچ گئے ہیں، تو یہ سمجھ ہی چکے ہوں گے کہ رز احمد کو نہ تو ’ایوینجرز’ کے لیے نامزد کیا گیا ہے، نہ ہی انہوں نے ‘ڈی سی’ کی کسی سپر ہیرو فلم میں کوئی کردار نبھایا ہے۔ یہاں تک کہ وہ تو کرسٹوفر نولن کی بھی کسی فلم میں جلوہ گر نہیں ہوئے۔ قصہ مختصر، یہ بڑے بینر کی کوئی چمکتی دمکتی فلم نہیں تھی، جو انہیں آسکر تک لے گئی۔
ایسا نہیں کہ 2006ء میں ‘دی روڈ ٹو گوانتانامو’ سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے رز نے بڑے بینر کی فلمیں نہیں کیں۔ ہم نے انہیں اسٹار وارز سیریز کی Rogue One میں پائلٹ کے روپ میں دیکھا، جس کا بہت چرچا ہوا۔ وہ ‘وینم’ میں ایک نمایاں کردار میں نظر آئے۔ ‘جیسن بورن’ اور’ نائٹ کرالر’ میں جلوہ گر ہوئے۔ اور پھر ایچ بی او کی سیریز ’دی نائٹ آف’، جس نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے، اس سیریز کے لیے جب رز نے بہترین اداکار کا ’ایمی ایوارڈ’ اپنے نام کیا، تو وہ اس کیٹیگری میں فاتح قرار پانے والے نہ صرف پہلے مسلمان، بلکہ پہلے ایشیائی تھے۔ اور یہ بھی سن لیجیے کہ ان کے ساتھ رابرٹ ڈی نیرو، بینیڈکٹ کمبربیچ اور جیفری رش جیسے قدآور فنکار نام زد ہوئے تھے۔
اپنے کیریئر میں انہوں نے بافٹا ایوارڈز، ایمی اور گولڈ گلوب کی نامزدگی کا بھی لطف اٹھایا، مگر آسکر کی بات ہی کچھ اور ہے صاحب۔ اور یہ 93 برس میں پہلا موقع ہے، جب کوئی مسلمان اس اعزاز تک پہنچا۔
اس لمبی چوڑی تمہید کے بعد، جس میں ہم نے رز کے کیریئر پر بھی سرسری نظر ڈال لی، چلتے ہیں ‘ساؤنڈ آف میوزک‘ کی جانب۔ یعنی وہ فلم، جو ہمارا موضوع ہے۔ یہ ایک میوزیشن کی کہانی ہے (یاد رہے کہ رز کا ایک حوالہ میوزک بھی ہے، ان کا ایک البم ریلیز ہوچکا ہے) فلم کے مرکزی کردار کو سماعت سے محرومی کے المیے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذرا سوچیں، ایک ڈرمر جب ڈرم ہی نہ بجا سکے، تو اس کی زندگی کے کیا معنی رہ جائیں گے؟
تو یہ زندگی کے معنے کی تلاش کی کہانی ہے۔ فلم کا مرکزی کردار بے سماعت افراد کی ایک تنظیم سے جڑ کر خاموشی کا حقیقی مطلب سیکھتا ہے۔ Darius Marder کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم ایک دو نہیں، بلکہ 6 کیٹیگریز میں نامزد ہوئی ہے، جس میں بہترین اسکرپٹ اور بہترین معاون اداکار کی کیٹیگری بھی شامل۔ یعنی اگر رز کو ایوارڈ نہیں ملا، تب بھی قوی امکان ہے کہ تاریخ ’ساؤنڈ آف میوزک‘ کو ایک آسکر ایوارڈ یافتہ فلم کے طور پر ہی یاد رکھے گی۔ پہلے پہل یہ فلم ٹورنٹو فلم فیسٹول میں ریلیز ہوئی۔ گزشتہ برس نومبر میں سنیما گھروں کی زینت بنی اور اب او ٹی ٹی پلیٹ فورم پر دستیاب ہے۔
اچھا، یہ نکتہ اہم ہے کہ بیشتر فلموں میں مسلمان کا کردار نبھانے والے رز کو اسی فلم میں اپنی مذہبی شناخت نہیں، بلکہ اپنی سماعت کا مسئلہ درپیش ہے، جو انہیں شناخت کے مزید گہرے سفر کی سمت دھکیل دیتا ہے۔
یہ رز ٹیسٹ کیا بلا ہے؟
ایک جانب جہاں آسکر کی 93 سالہ تاریخ میں کسی مسلمان کی نامزدگی خوش آئند، وہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ تنوع اور روشن خیالی کی ترجمانی کے دعوے دار ہولی وڈ کو، جس کی ترقی میں مختلف نسلوں کے فنکاروں نے حصہ ڈالا، آخر اس مرحلے تک پہنچنے میں پوری ایک صدی کیوں لگ گئی؟ (شاید آپ کو یاد ہو، چند برس قبل آسکر کی نامزدگیوں میں کسی بھی سیاہ فام فنکار کی عدم موجودگی نے ایک بڑے تنازع کو جنم دیا تھا)
اس تاخیر کا جواب سادہ ہے۔ کوئی بھی قوم، گروہ، تنظیم یا فرد مکمل طور پر اپنے تفاخر اور تعصبات سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ یہ عمل ارتقا کا متقاضی، اور ہولی وڈ میں ارتقا آیا ہے۔ ہم 1915ء میں ریلیز ہونے والے ڈی ڈبلیو گریفنتھ کی Birth of a Nation جیسی متعصبانہ فلم سے آگے نکل چکے ہیں۔ گو اب بھی ایک طویل سفر باقی ہے۔ بالخصوص 9/11 کے بعد جنم لینے والے اسلاموفوبیا سے نمٹانا ترقی یافتہ مغرب کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
رز کو بھی ایسے مسائل درپیش رہے۔ چند برس قبل ‘دی گارجین’ میں انہوں نے شناخت کے بحران اور ایئر پورٹس پر اپنے ساتھ برتے جانے والے سلوک پر یوں اظہار خیال کیا ’میرے زیرِ جامہ کی تلاشی لیتے وقت اکثر مجھے میری ہی فلموں کے بارے میں بتایا جاتا تھا، اور میرے جسم پر کسی بھی قسم کے دھماکا خیز مواد کی تلاشی کے دوران میرے ساتھ سیلفی بنوانے کی درخواست بھی کی جاتی تھی‘۔
2017ء میں برطانیہ کے ‘ہاؤس آف کومن’ میں تقریر کرتے ہوئے جب رز نے شوبز انڈسٹری میں تنوع کے فقدان اور مسلمانوں کو پیش کرتے ہوئے روایتی تصورات کی تقلید پر روشنی ڈالی، تو برطانیہ میں مقیم 2 صاحبان کو اس مسئلے کو جانچنے کے لیے 5 سوالات پر مبنی ‘رز ٹیسٹ‘ بنانے کی سوجھی، جس کے ذریعے کسی بھی شخص کے، فلم اور ٹی وی پر مسلم شناخت سے متعلق خیالات کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ یوں رز کی مقبولیت اور فہم نے ایک اہم امتیازی مسئلے کو نمایاں کیا۔
حرف آخر
ممکن ہے کہ چند ہفتوں بعد ہمیں ایک بڑی خوش خبری ملے اور ہم وہی مسرت محسوس کریں، جو ہم نے نجیب محفوظ اور اورحان پامک کو ادب کا نوبیل پرائز ملنے پر کی تھی کہ وہ مسلمان تھے۔ یا پھر وہ مسرت، جو ہمیں ملالہ اور شرمین عبید چنائے کے ایوارڈز پر ہوئی کہ ان کا تعلق پاکستان سے تھا۔ ممکن ہے، رز احمد بہترین اداکار کا ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے مسلمان، پہلے پاکستانی نژاد آرٹسٹ بن جائے اور فن کی تاریخ میں امر ہوجائے۔
لیکن اگر ایسا نہ ہوا، اگر وہ نہ جیت سکا، تب بھی کوئی غم نہیں۔ میرے لیے تو وہ یہ مقابلہ پہلے ہی جیت چکا ہے!
تبصرے (1) بند ہیں