’اسٹیٹ بینک کو خودمختار ہونا چاہیے مگر آزاد نہیں‘
قائدِاعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر زاہد حسین نے اسٹیٹ بینک کی بنیاد رکھی اور پہلے گورنر مقرر ہوئے۔ قائدِاعظم نے اسٹیٹ بینک کے قیام کو نومولود ریاست کی مالیاتی خودمختاری کے لیے اہم قرار دیا تھا۔
اپنے قیام سے اب تک اسٹیٹ بینک کا ملکی معیشت میں کلیدی کردار رہا ہے اور تمام تر ملکی خزانے چاہے وہ سونے کی صورت میں ہوں یا پھر زرِمبادلہ ذخائر، کرنسی نوٹ ہوں یا سکے یا پھر پرائز بانڈ ہوں، یہ سب کے سب اسٹیٹ بینک کی ملکیت میں رہتے ہیں۔
گزشتہ 15 سال سے اسٹیٹ بینک کی رپورٹنگ کرتے ہوئے یہ بات میرے سامنے آئی ہے کہ جو بھی قانونی مسودہ پارلیمنٹ کے لیے تیار کیا جائے یا پھر وہ اسٹیٹ بینک کے قواعد میں تبدیلی کے حوالے سے ہو، اس مسودے کو اسٹیٹ بینک پہلے عوام اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے کے لیے ناصرف اپنی ویب سائٹ پر سامنے لاتا ہے بلکہ اس کا اعلامیہ بھی جاری کرتا ہے۔
مگر 9 مارچ کو کابینہ میں پیش کیے جانے والے قانونی مسودے کو ابھی تک عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے جب اسٹیٹ بینک سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مسودہ ابھی تک پبلک نہیں کیا گیا ہے اور جب تک اسے پبلک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک مسودے کو کسی کو بھی نہیں دکھایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے وزارتِ خزانہ نے ایک وضاحت جاری کی ہے۔
لیکن جو مسودہ کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس کی کاپی مختلف وزرا کے ذریعے مجھ سمیت دیگر صحافیوں ہاتھ لگ گئی ہے۔ اہم ترین بات یہ کہ اس مسودے پر جن معاملات پر بات کی گئی ہے، مسودہ فراہم کرنے والے وزرا بھی ان معاملات سے متعلق شکوک کا شکار نظر آئے۔ تو چلیے آئیے ہم آپ کے سامنے اس مسودے کے چند نکات پر بات کرتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کو غیر ملکی اداروں سے معلومات کی فراہمی کا معاہدہ کرنے کی اجازت
اسٹیٹ بینک کے نئے قانونی مسودے کی شق 46 بی 7 میں مرکزی بینک کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مقامی یا غیر ملکی ریگولیٹری ادارے سے معلومات کے تبادلے کے معاہدے کرسکتا ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی مالیاتی اور غیر مالیاتی معلومات چاہے وہ عوامی سطح پر دستیاب ہوں یا خفیہ رکھی گئی ہوں، انہیں افشاں کیا جاسکے گا۔
اس حوالے سے قانونی مسودے میں یہ بات درج نہیں ہے کہ ملکی سلامتی، دفاع اور ایسی معلومات جس کو حکومت نے خفیہ قرار دیا ہو، اس کو جاری نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ملکی دفاع کے حوالے سے بیرونِ ملک ہونے والی تمام تر ادائیگیاں اسٹیٹ بینک کے ذریعے ہی کی جاتی ہیں۔
اس شق کا دفاع کرتے ہوئے وزارتِ خزانہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ معلومات اسٹیٹ بینک پہلے ہی کیے گئے متعدد باہمی معاہدوں میں فراہم میں کررہا ہے۔ تاہم یہ معلومات اسٹیٹ بینک براہِ راست فراہم کرنے کے بجائے وزارتِ خارجہ کے ذریعے فراہم کرتا ہے اور فراہم کردہ معلومات اسٹیٹ بینک کے علاوہ حکومت کے علم میں بھی ہوتی ہے۔
عالمی سطح پر جب بھی کسی قسم کی مشترکہ کارروائی کے لیے احکامات آئے انہیں اسٹیٹ بینک نے پورا کیا، جیسا کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے دہشتگرد قرار دیے جانے والے افراد کے بینک اکاؤنٹس کی فہرست وغیرہ۔ یہ تمام معلومات وزارتِ خارجہ کے توسط سے روبہ عمل لائی جاتی رہی ہے تو اب بھی اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔
اسٹیٹ بینک احتساب سے مبرا
اسٹیٹ بینک سے متعلق قانونی مسودے میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اہلکار اسٹیٹ بینک کے گورنر اور اعلی افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے وزارتِ خزانہ کے ترجمان نے جو وضاحت پیش کی ہے وہ خود ایک چارج شیٹ ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ نیک نیتی سے کیے گئے فیصلوں پر نقصان ہوجائے تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں ہوسکتی ہے۔
اگر اسٹیٹ بینک کا عملہ نیک نیتی سے کام کرتا ہے تو باقی افسران جو نیب اور ایف آئی اے کی تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں اور جیل میں ہیں انہیں اور سب سے بڑھ کر سیاستدانوں کو بھی یہی سہولت ملنی چاہیے۔
دنیا بھر میں احتساب کا نظام سب سے پہلے ان افراد کو گرفت میں لیتا ہے جو انتہائی طاقتور ہوتے ہیں مگر پاکستان میں کس نے اسٹیٹ بینک کے خلاف کوئی کارروائی کی؟ اسٹیٹ بینک، کہ جس کا نفع کئی سو ارب روپے ہوتا تھا وہ مالی سال 2019ء میں خسارے کا شکار ہوا اور اسٹیٹ بینک کو ایک ارب 40 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا۔
ترجمان وزارتِ خزانہ کہتے ہیں دنیا کے 14 مرکزی بینکوں میں یہ رعایت اور حق دیا گیا ہے کہ مرکزی بینک کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوسکتی۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ باقی 186 مرکزی بینکوں کو یہ سہولت کیوں حاصل نہیں ہے؟ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ گورنر اسٹیٹ بینک کا احتساب کرے گی مگر قانونی مسودے میں صرف یہ درج ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ کو پیش کریں گے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کے اختیارات
نئے قانونی مسودے میں گورنر اسٹیٹ بینک کے اختیارات کو بہت ہی لامحدود کردیا گیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت کو 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردیا گیا ہے جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ اور مراعات کو وفاقی حکومت کے بجائے بورڈ آف ڈائریکٹر مقرر کرے گا جس کا سربراہ بھی گورنر اسٹیٹ بینک کو ہی بنایا گیا ہے۔
عمومی طور پر مختلف شعبہ جات اور اداروں کے سربراہان کی مدت ملازمت 3 سال ہوتی ہے۔ اس میں مسلح افواج کے سربراہان بھی شامل ہیں۔ اگر ضرورت ہو تو اس مدت میں مزید توسیع کی جاسکتی ہے اور یہی سہولت اسٹیٹ بینک کے گورنر کے لیے رکھی گئی تھی کہ اگر چاہیں تو 3 سال بعد مزید ایک مدت کے لیے توسیع ہوسکتی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی اسامی پر کوئی سرکاری ملازم نہیں بھرتی کیا جاسکتا۔ اس مدت کو 5 سال کرنا کسی طور بھی درست نظر نہیں آتا ہے۔ اس حوالے سے وزارتِ خزانہ کے ترجمان نے کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔
اسٹیٹ بینک کے اہداف
مجوزہ قانون میں اسٹیٹ بینک کے امور اور ذمہ داریوں کی ترجیہی فہرست بھی مسودے کا حصہ ہے۔ اس میں افراط زر یا مہنگائی کو قابو کرنا، مانیٹری پالیسی مرتب کرنا، شرح تبادلہ کا تعین کرنا اور معاشی شرح نمو کو پروان چڑھانا شامل ہے۔
اسٹیٹ بینک کی اوّلین ذمہ داری افراطِ زر کو قابو کرنے کی ہے۔ گزشتہ 15 سال میں اسٹیٹ بینک کے سیکڑوں مانیٹری پالیسی بیان کو پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ ہر مانیٹری پالیسی میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ معیشت میں طلب کا دباؤ موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت میں اشیا، مصنوعات اور اجناس کی رسد یا فراہمی طلب سے کم ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر گندم کی فصل خراب ہوجائے یا گنے کی قلت ہو یا پھر عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوجائیں تو پھر کیسے اسٹیٹ بینک مہنگائی کو کنٹرول کر پائے گا؟
قانون میں یہ بات طے نہیں کی گئی کہ اس حوالے سے اہداف کون طے کرے گا۔ کیا یہ اہداف حکومت یا وزارتِ خزانہ طے کرے گی یا پھر اس کا تعین اسٹیٹ بینک کو کرنے کا اختیار ہوگا۔ یعنی اہداف بھی اسٹیٹ بینک خود طے کرے گا اور پھر اس پر عمل بھی خود ہی کرے گا۔
رعایتی قرضوں کا خاتمہ
اس وقت اسٹیٹ بینک مختلف ری فنانس اسکیموں کے ذریعے برآمد کنند گان، مقامی صنعت کاروں، کاشت کاروں، خواتین، معذور افراد اور متبادل توانائی کے لیے رعایتی قرضے فراہم کررہا ہے۔ کورونا میں اسپتالوں کی ضرورت میں اضافے پر اسٹیٹ بینک نے خصوصی اسکیم دی جس سے اسپتالوں نے وینٹی لیٹر اور دیگر آلات خریدے اور لوگوں کی جان بچ سکی تاہم اس قسم کے قرضوں کے خاتمے سے معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان میں زیادہ تر گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیرِ خزانہ کی اسامی پر ایسے افراد کو براجمان کیا گیا ہے جو پاکستان آئے تو جھنڈے والی گاڑی پر اور جیسے ہی ان سے جھنڈے والی گاڑی واپس لی گئی وہ پاکستان سے باہر چلے گئے۔ موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر بھی انہی میں شامل ہیں جبکہ ان کے ڈپٹی گورنر مرتضیٰ سید بھی آئی ایم ایف سے لائے گئے ہیں اور متوقع طور پر وہ رضا باقر کے جانشین ہوں گے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر شمشاد اختر، یٰسین انور اور محمود اشرف وتھرا بھی اسی فہرست کا حصہ ہیں۔ جبکہ نگران وزیرِاعظم معین قریشی اور پہلے وزیرِ خزانہ اور پھر وزیرِاعظم بننے والے شوکت عزیز تو سب کو یاد ہی ہوں گے۔
اگر ایسے افراد جن کا پاکستان میں کوئی اسٹیک نہ ہو، ان کے اہلِ خانہ ملک میں نہ ہوں اور وہ صرف مخصوص عرصے کے لیے ایک اسائنمنٹ کو پورا کرنے پاکستان آئے ہوں تو انہیں بغیر کسی احتساب کے ملکی خزانوں کا مالک بنا دینا کسی طور پر بھی درست معلوم نہیں ہوتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو خودمختار ہونا چاہیے مگر اس کو آزاد نہیں ہونا چاہیے۔
تبصرے (3) بند ہیں