• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

عدالت عظمیٰ نے کوئٹہ ڈی ایچ اے سے متعلق بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا

شائع March 17, 2021
بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا تھا کہ ڈی ایچ اے کے ذریعے جائیداد کا حصول جائیداد کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوگی۔   - فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا تھا کہ ڈی ایچ اے کے ذریعے جائیداد کا حصول جائیداد کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوگی۔ - فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بلوچستان ہائی کورٹ کے دسمبر 2020 کے حکم کو معطل کردیا جس میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کوئٹہ ایکٹ 2015 کی متعدد دفعات کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی امین احمد اور جسٹس مظہر حسین نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کوئٹہ ڈی ایچ اے کو گرانٹ آف لیو کی بھی اجازت دے دی۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے 5 ججز کے فل کورٹ نے کہا تھا کہ ڈی ایچ اے ایک غیر سرکاری ایجنسی کی طرح ہے لہذا اس کے ذریعے جائیداد کا حصول جائیداد کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہوگی۔

ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ ڈی ایچ اے کو اپنا ماسٹر پلان تیار کرنے یا میونسپل کے دیگر کام انجام دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ ڈی ایچ اے ایکٹ کی کچھ شقیں غیرآئینی قرار

ہائی کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں کوئٹہ ڈی ایچ اے میں تمام ترقیاتی کام مفلوج ہوگئے تھے۔

درخواست گزار کوئٹہ ڈی ایچ اے کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 24 میں عوامی مقاصد کے لیے جائیداد کے حصول کی اجازت ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈی ایچ اے عوامی مفاد میں کام کر رہا ہے اور عوام کو بیلٹ کے ذریعے تمام الاٹمنٹ دیئے گئے تھے۔

وکیل نے استدلال کیا کہ ہائیکورٹ نے خود ہی تسلیم کیا ہے کہ ڈی ایچ اے لوگوں کے مفاد میں کام کررہا ہے جبکہ بہت سے دیگر رہائشی سوسائٹیز ناقص معیار کا کام کررہے ہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اس قانون نے ڈی ایچ اے کو میونسپل فنکشنز کا استعمال کرنے اور ان علاقوں کے لیے ماسٹر پلان تیار کرنے کا اختیار دیا ہے جو اس نے خریدا یا لیز پر دیا ہے لیکن ہائی کورٹ نے اس معاملے کے اس پہلو کی تعریف نہیں کی۔

وکیل نے استدلال کیا کہ ڈی ایچ اے کی ملکیت اراضی میں میونسپل فنکشنز کے لیے ماسٹر پلانز کی تیاری یا کارکردگی کرنا مناسب ہے اور اس میں کچھ بھی غیر آئینی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی سمیت 20 شہروں میں جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کی سب سے بڑی بنیاد یہ تھی کہ ڈی ایچ اے کوئٹہ ایکٹ 2015 لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 سے متصادم ہے۔

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ نے غلط طریقے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اراضی ایکٹ ایک وفاقی قانون ہے اور یہ ڈی ایچ اے کوئٹہ ایکٹ کے ساتھ متصادم ہے جس کی وجہ سے آئین کے آرٹیکل 141 سے 143 کے مطابق غیر آئینی ہے۔

سپریم کورٹ نے ان سفارشات کو نوٹ کیا اور مشاہدہ کیا کہ گرانٹ آف لیو کے لیے مقدمہ پیش کیا گیا ہے کیونکہ یہ قانون کے اہم سوالات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

جیسا کہ وکیل نے کہا کہ ڈی ایچ اے کا سارا آپریشن مفلوج ہوچکا ہے اور اس کا کام رک گیا ہے جس کی وجہ سے اسے اور اس کے تمام الاٹیز کو پریشانیوں کا سامنا ہے لہذا عدالت نے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024