پاکستان بھاری ہتھیاروں کے بڑے درآمد کنندگان میں شامل
سال 2016 سے 2020 تک پاکستان ایشیا اور اوقیانوسیہ میں بھاری ہتھیاروں کے بڑے درآمد کنندگان میں شامل تھا، یہ بات اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سِپری) کی شائع کردہ ایک رپورٹ میں سامنے آئی۔
برطانوی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے علاوہ بھارت، آسٹریلیا، چین اور جنوبی کوریا خطے میں بھاری ہتھیاروں کے بڑے درآمدکنندگان میں شامل ہیں۔
ان میں سعودی عرب کا ہتھیاروں کی عالمی برآمد میں حصہ 11 فیصد، بھارت کا 9.5 فیصد، مصر کا 5.8 فیصد، آسٹریلیا کا 5.1 فیصد اور چین کا 4.7 فیصد رہا۔
پاکستان کا 2016 سے 2020 تک پانچ سالوں میں ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں حصہ 2.7 فیصد رہا۔
پاکستان اور بھارت
بھارت نے اس عرصے میں سب سے زیادہ ہتھیار چین سے درآمد کیے جن کی شرح ملک کی مجموعی درآمد کا 74 فیصد رہی، اس کے بعد روس سے 6.6 فیصد اور اٹلی سے 5.9 فیصد ہتھیار حاصل کیے۔ گزشتہ پانچ سالوں کی نسبت پاکستان کی ہتھیاروں کی درآمد میں 23 فیصد کمی آئی۔
اس کے مقابلے میں بھارت کا ہتھیاروں کا سب سے بڑا سپلائر روس تھا جس سے اس نے 49 فیصد ہتھیار حاصل کیے، فرانس سے 18 فیصد اور اسرائیل کا 13 فیصد حصہ رہا۔ ان پانچ سالوں میں پڑوسی ملک میں بھی ہتھیاروں کی درآمد میں گزشتہ پانچ سالوں کی نسبت 33 فیصد کمی آئی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان، چینی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار
بھارت کی درآمد کے حوالے سے ایک اور تبدیلی امریکا کے حوالے سے آئی جو اس دہائی کے پہلے پانچ سالوں میں بھارت کو ہتھیار سپلائی کرنے والا دوسرا بڑا ملک تھا، لیکن دوسرے پانچ سالوں میں اس کی برآمد میں 46 فیصد کمی آئی اور وہ چوتھی پوزیشن پر آگیا۔
اس عرصے میں بھارت کی فرانس سے ہتھیاروں کی درآمد میں 709 فیصد جبکہ اسرائیل سے درآمد میں 82 فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کی مجموعی درآمد میں کمی کی بڑی وجوہات میں ہتھیاروں کے حصول کا طویل عمل، روس سے درآمد پر انحصار میں کمی کوششیں اور اپنی پیداوار کا منصوبہ شامل ہے۔
تاہم چونکہ اس کے اپنے پیداواری پروگرام میں تاخیر ہورہی ہے، بھارت بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کے آرڈرز کا منصوبہ بنا رہا ہے جس سے اگلے پانچ سالوں میں اس کی درآمد میں اضافے کا امکان ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے ہتھیاروں کے کئی بڑے آرڈرز پائپ لائن میں ہیں جو 2028 تک مکمل ہوں گے۔
ان آرڈرز میں چین سے 50 جنگی طیارے، 8 آبدوزیں اور 4 بحری جہاز جبکہ ترکی سے بحری جہاز کا حصول شامل ہے۔
ایشیا اور اوقیانوسیہ سال 2016 سے 2020 کے درمیان بھاری ہتھیار درآمد کرنے والا سب سے بڑا خطہ تھا جس نے عالمی اسلحے کے تقریباً 42 فیصد ہتھیار برآمد کیے۔
سپری کے سینیئر محقق سیمن ویزامین نے کہا کہ 'ایشیا اور اوقیانوسیہ کے کئی ممالک میں چین کو خطرہ سمجھنے کا بڑھتا ہوا تاثر ہتھیاروں کی درآمد کی بڑی وجہ ہے'۔
ہتھیاروں کی عالمی برآمدات
رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2016 سے 2020 کے درمیان بھاری ہتھیاروں کی فراہمی ایک دہائی سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے اضافے کے سلسلے کو ختم کرتے ہوئے ہموار رہی۔
امریکا، فرانس اور جرمنی دنیا میں بھاری ہتھیاروں کے 3 سب سے بڑے برآمد کنندگان ہیں جن کی ڈلیوریز میں اضافہ ہوا لیکن روس اور چین روسی اور چین کی برآمدات میں کمی نے اس کی شرح کو بڑھاوا دیا۔
چین، جو سال 20-2016 کے درمیان دنیا میں بھاری ہتھیاروں کا پانچواں سب سے بڑا برآمد کنندہ تھا، اس کی برآمدات سال 15-2011 اور 21-2016 کے درمیان 7.8 فیصد کم رہیں۔
سال 20-2016 میں ہتھیاروں کی مجموعی برآمدات میں چین کی برآمدات 5.2 فیصد تھی، پاکستان، بنگلہ دیش اور الجیریا چین سے سب سے زیادہ ہتھیار لینے والے ممالک ہیں۔
مزید پڑھیں: اسلحہ درآمد کرنے والے ممالک میں پاکستان کا 10واں نمبر
سپری کا کہنا تھا کہ سال 05-2001 کے بعد سے پہلا موقع ہے کہ ممالک کے درمیان بھاری ہتھیاروں کی ڈلیوریز کا حجم جو طلب میں اضافے کا اشارہ ہے وہ گزشتہ 5 سال کے عرصے میں نہیں بڑھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ عالمی وبا نے دنیا بھر کی معیشتوں کو سست کیا ہے اور کئی ممالک کساد بازاری کا سامنا کر رہے ہیں، ایسے میں یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کیا بھاری ہتھیاروں کی ڈلیوریز میں آنے والی سست روی جاری رہے گی۔
ہم اس صورتحال میں بھی یہاں تک کہ 2020 میں وبا کے عروج پر بھی کئی ممالک نے بھاری ہتھیاروں کے بڑے معاہدوں پر دستخط کیے۔
مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں امریکا سے 23 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا جس میں وہ 50 'ایف 35' طیارے اور 18 مسلح ڈرونز خریدے گا۔
ہتھیاروں کی درآمد میں مشرق وسطیٰ کے ممالک سب سے آگے رہے اور ان کی درآمد میں 2016 سے 2020 کے دوران 25 فیصد اضافہ ہوا۔
ہتھیاروں کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک سعودی عرب کی درآمد میں 61 فیصد اور قطر کی درآمد میں 361 فیصد اضافہ ہوا۔