آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے نیپرا بل پارلیمانی کمیٹی سے منظور
اسلام آباد: پارلیمانی کمیٹی نے اپوزیشن کی کئی مہینوں کی مزاحمت کے بعد بالآخر اکثریتی ووٹ کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی بحالی کے لیے ایک اور 'پیشگی کارروائی' کو پورا کرنے کے لیے بجلی کے صارفین پر سرچارجز لگانے کا اختیار دینے والے بل کی منظوری دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بل جو اب قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا، کے تحت حکومت کو صارفین پر بجلی کے اوسط نرخوں کا 10 فیصد تک بڑھانے کے اختیارات حاصل ہوں گے۔
موجودہ اوسط نرخوں پر حکومت فی الوقت نقصانات کو پورا کرنے کے لیے فی یونٹ تقریباً 1.5 روپے اضافی سرچارج لگا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: نیپرا نے بجلی کے نرخوں میں ایک روپے فی یونٹ اضافے کی اجازت دے دی
'ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور (ترمیمی) بل' جسے عام طور پر نیپرا ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بجلی میں 6 ماہ سے زیر التوا تھا اور یہ گزشتہ سال فروری سے رکے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط میں سے ایک ہے۔
کمیٹی کے اجلاس کی صدارت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے چوہدری سالک حسین نے کی۔
کمیٹی کے پانچ ممبران شیر اکبر، عامر ڈوگر، سیف الرحمٰن، لال چند انجینئر اور صابر حسین قائم خانی نے بل کے حق میں ووٹ دیے۔
بل کی مخالفت کرنے والوں میں شازیہ مری، سائرہ بانو، غلام مصطفی شاہ اور ریاض حسین پیرزادہ شامل تھے۔
اپوزیشن ممبران نے سرچارج کی تعریف پر شکوہ کیا اور اسے عوام پر بوجھ ڈالنے کے حوالے سے غیر موزوں قرار دیتے ہوئے کہا کہ بل کو منظور نہیں کیا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: نیپرا کا بجلی کے نرخوں میں ساڑھے 3 روپے فی یونٹ اضافے کا عندیہ
چیئرمین سالک حسین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ 'سرچارجز' صرف قومی اہمیت کے مخصوص ترقیاتی منصوبوں کی مالی اعانت کے لیے لگائی جانی چاہیے، مثال کے طور پر جاری دیامر بھاشا ڈیم یا مستقبل میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں اسٹریٹجک نوعیت کے دیگر منصوبے جس کے تحت انڈس واٹر ٹریٹی سے ملنے والے پانی کے حقوق کو محفوظ بنانا شامل ہے۔
بجلی کے سیکریٹری علی رضا بھٹہ نے کہا کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا ایکٹ میں ترمیم کرکے بجلی صارفین پر سرچارج لگانے کے اختیارات طلب کر رہا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کی سرچارجز لگانے کی نیت ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرچارج کو وزیر اعظم اور کابینہ سے منظور کرنا ہوگا اور صلاحیت کی خریداری کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مطلوبہ ریونیو کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سرچارجز 10 فیصد تک بجلی کی لاگت پر عائد کی جائے گی۔
شازیہ مری نے کہا کہ لوگوں کو پہلے ہی نظام کی خرابیوں اور حکومت کی جانب سے ان سے نمٹنے میں ناکامی کی وجہ سے مہنگی بجلی خریدنی پڑ رہی ہے۔
مزید پڑھیں: نیپرا کا واپڈا کے قرضوں پر سود کی ادائیگی سے انکار
انہوں نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ صارفین کو بجلی کے شعبے کی کمزوریوں کی سزا نہیں دی جانی چاہیے۔
وزیر توانائی عمر ایوب خان نے کہا کہ بجلی کے سرچارج سے حاصل ہونے والی رقم بجلی کے منصوبوں پر بھی خرچ کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ سرچارج صرف اس صورت میں عائد کیے جائیں گے جب وفاقی کابینہ سے منظور ہوں۔
سید غلام مصطفی شاہ نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب بجلی پہلے ہی بہت مہنگی تھی تو مزید معاوضوں کی ضرورت کیوں تھی؟
سائرہ بانو نے کہا کہ 'آپ براہ راست کیوں نہیں کہتے کہ سرچارج لگانا آئی ایم ایف کی شرط ہے'۔