بحرین: افغان امن عمل سے متعلق اجلاس میں آرمی چیف، آئی ایس آئی کے سربراہ کی شرکت
اسلام آباد: آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بحرین میں افغان امن عمل سے متعلق اجلاس میں شرکت کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ افغان امن عمل میں پیشرفت، سرحدی تحفظ اور افغان زیرقیادت میں امن عمل کو آسان بنانے کے لیے ضروری اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
مزید پڑھیں: آرمی چیف ایک روزہ دورے پر کویت پہنچ گئے، سیاسی و فوجی قیادت سے ملاقات
افغان امن عمل کو تیز کرنے کی بین الاقوامی کوششیں بھی جارہی ہیں جو اس وقت عملی طور پر تعطل کا شکار ہیں اور اس عمل میں اہم فریقین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکا نے اقوام متحدہ سے روس، چین، پاکستان، ایران، بھارت اور امریکا کے وزرائے خارجہ اور سفیروں کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکا کی جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے افغان حکومت اور طالبان کے مابین ایک ’پاور شیئرنگ معاہدہ‘ تجویز کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف سے زلمے خلیل زاد کی ملاقات، افغان امن عمل پر تبادلہ خیال
اس دورے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمانڈر بحرین نیشن گارڈ فیلڈ مارشل محمد بن عیسیٰ آل خلیفہ اور بحرینی قومی سلامتی کے مشیر میجر جنرل شیخ ناصر بن حماد آل خلیفہ سے ملاقاتیں کیں۔
ملاقاتوں کے دوران باہمی دلچسپی کے امور اور علاقائی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دوطرفہ سیکیورٹی تعاون میں مشترکہ مفادات کے حصول میں پاکستان کی مکمل حمایت کی پیش کش کی جس میں تربیت اور صلاحیتوں کو بڑھانا شامل ہے۔
مزیدپڑھیں: آرمی چیف سے زلمے خلیل زاد اور ریزولوٹ سپورٹ مشن کے کمانڈر کی ملاقات
8 مارچ کو جنرل قمر جاوید سے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان مفاہمت زلمے خلیل زاد کی ملاقات میں افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
آرمی چیف سے زلمے خلیل زاد اور کمانڈر ریزولیٹ سپورٹ مشن افغانستان جنرل آسٹن اسکاٹ ملر نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملاقات کی تھی۔
یاد رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان امن عمل کا آغاز گزشتہ برس ستمبر میں ہوا تھا لیکن امریکا میں جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد معاملات کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے اس عمل کو روک دیا گیا تھا، اس میں امریکی فوجیوں کا انخلا بھی شامل تھا۔