بغیر علامات والے متعدد مریضوں کو بھی کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا
ایسے افراد جن کو کورونا وائرس کی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوتا ہے، ان میں سے بیشتر کو کووڈ کی ابتدا میں بیماری کا احساس بھی نہیں ہوتا۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی، جس سے ان شواہد میں اضافہ ہوا ہے جو کووڈ 19 کے طویل المعیاد اثرات کے مسئلے کی جانب نشاندہی کرتے ہیں۔
امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ایسے افراد پر خصوصی توجہ دی گئی تھی جن کو کووڈ 19 کے نتیجے میں کبھی ہسپتال داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔
تحقیق کے دوران کیلیفورنیا سے تعل رکھنے والے 1407 افراد کے الیکٹرونک میڈیکل ریکارڈز کا تجزیہ کیا گیا، جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔
بیماری کے 60 دن بعد 27 فیصد یا 382 افراد کو تاحال لانگ کووڈ کی علامات جیسے سانس لینے میں مشکلات، سینے میں تکلیف، کھانسی یا پیٹ درد کا سامنا تھا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ایک تہائی مریضوں کو بیماری کے آغاز سے 10 دن بعد تک کسی قسم کی علامات کا سامنا نہیں ہوا تھا۔
کووڈ کی طویل المعیاد علامات سے آگاہی کے لیے حالیہ مہینوں میں طبی ماہرین نے کافی کام کیا ہے، کیونکہ زیادہ سے زیادہ افراد کو کووڈ کو شکست دینے کے کئی ماہ بعد بھی مختلف علامات کا سامنا ہورہا ہے۔
اس نئی تحقیق کو ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ آن لائن پری پرنٹ سرور MedRxiv پر جاری کیا گیا اور اس پر اب بھی کام جاری ہے۔
مگر اس تحقیق کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کیلیفورنیا یونیورسٹی سسٹم کے الیکٹرونک ریکارڈز کو استعمال کیا گیا اور محققین کو مریضوں کی موجودہ حالت اور صحت کے بارے میں مسلسل تفصیلات حاصل ہوئیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لانگ کووڈ کا مسئلہ ہر عمر کے افراد بشمول بچوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور تحقیق میں 32 بچے بھی شامل تھے، جن میں سے 11 کو کووڈ کے نتیجے میں طویل المعیاد مسائل کا سامنا ہوا۔
تحقیق کے دوران لانگ کووڈ کی 30 سے زیادہ علامات کو دریافت کیا گیا جن میں ذہنی بے چینی، کمر کے نچلے حصے میں درد، تھکاوٹ، بے خوابی، معدے کے مسائل اور دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھ جانا وغیرہ شامل تھیں۔
محققین نے علامات کے 5 مجموعوں کی شناخت کی جو بظاہر اکٹھی ہوتی ہیں جیسے سینے میں درد اور کھانسی یا پیٹ درد اور سردرد۔
لانگ کووڈ کی علامات کے حوالے سے حالیہ تحقیقی رپورٹس میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو بیماری کے آغاز میں اتنے بیمار ہوگئے تھے کہ انہیں ہسپتال میں داخل کرانا پڑا تھا۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ چین کے شہر ووہان میں ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے تین چوتھائی افراد کو 6 ماہ بعد بھی کم از کم ایک علامت کا سامنا تھا۔
مگر حالیہ عرصے میں ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی مگر انہیں کبھی ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، مگر کئی ماہ بعد انہیں طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا۔
گزشتہ ماہ واشنگٹن یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں 177 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی، ان میں سے بیشتر میں بیماری کی شدت اتنی زیادہ نہیں تھی کہ ہسپتال میں داخل کرانا پڑتا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہسپتال میں داخل ہونے والے اور معمولی بیماری کا سامنا کرنے والے ایک تہائی افراد کو 6 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا تھا۔
واشنگٹن یونیورسٹی کی تحقیق ٹیم میں شامل ڈاکٹر ہیلن چو نے بتایا کہ کئی ماہ تک علامات کا تسلسل ان مریضوں میں تو عام ہوتا ہے جو بیمار ہونے کے باعث ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں، مگر ایسا ان افراد میں بھی کافی عام ہوتا ہے جن میں بیماری کی شدت کھ خاص نہیں ہوتی، یہاں تک کہ انہیں کسی کلینک میں جانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ ایسا ہوتا کیوں ہے؟ یہ کسی قسم کا مدافعتی ردعمل کا نتیجہ یے، کسی ورم یا آٹو امیونٹی اس کا سبب ہے۔
اس نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد میں 59 فیصد خواتین تھیں۔
اب محققین زیادہ بڑی اور منظم تحقیق کے لیے فنڈنگ جمع کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ میڈیکل ریکارڈز، ڈاکٹروں کے نوٹس اور مریضوں کی رپورٹس کو اکٹھا کریں گے۔
محققین کا کہنا تھا کہ قابل اعتبار نتائج کے لیے قومی سطح پر زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے۔