فلم دی گرل آن دی ٹرین: جسے دیکھ کر آپ کو خود پر افسوس ہوگا
کسی مقبول ناول کو فیچر فلم میں ڈھالنے میں ایک آسانی یہ ہوتی ہے کہ اگر فلم کی تیاری میں کوئی جھول رہ بھی جائے تو آپ کے پاس ایک اچھی کہانی کی صورت مضبوط بنیاد موجود رہتی ہے۔
لیکن ’اے سوٹ ایبل بوائے‘ اور ’دی وائٹ ٹائیگر‘ جیسے منصوبوں نے اس دعوے کو غلط ثابت کیا ہے۔ اب ربھو داس گپتا کی نیٹ فلکس فلم ’دی گرل آن دی ٹرین‘ جو اسی نام سے پالا ہاکنس کے لکھے گئے ناول پر مبنی ہے، اس نے تو ناولوں پر مبنی فلموں کے معیار کو شرمندگی کی حد تک گرا دیا ہے۔
یہ تھرلر فلم ایک نوجوان وکیل میرا (پرینیتی چوپڑا) کے گرد گھومتی ہے جس کی زندگی درہم برہم ہوچکی ہے۔ اس کا حمل گر جاتا ہے، نوکری چلی جاتی ہے اور اسے طلاق بھی ہوجاتی ہے۔ ان حادثات کے سبب وہ شراب کی لت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ کبھی وہ سڑک پر شراب پیتی نظر آتی ہے اور کبھی وہ براہِ راست بوتل سے ہی پیتی ہوئی دکھتی ہے۔ وہ تب تک پیتی ہے جب تک وہ اپنے حواسوں میں نہ رہے۔ وہ روز ٹرین سے سفر کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وہ بہت اکیلی ہے۔
خبردار شراب صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے اور پرینیتی اوور ایکٹنگ کرسکتی ہیں۔
میرا کو روز اپنے اس سفر میں ایک عورت نظر آتی ہے، نصرت (ادتی راؤ حیدری)، جو ایک بہترین زندگی گزارتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کے پاس ایک پیار کرنے والا شوہر ہے اور اچھا گھر بھی ہے۔ یہ دیکھ کر میرا اپنے ماضی میں کھو جاتی ہے۔ اگر آپ اسے پہلی مرتبہ میں نہیں سمجھ پائے تو پریشان نہ ہوں، میرا اسے ایک بار نہیں بار بار دہرائے گی۔
ایک دن نصرت منظر سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ میرا کو یہ بالکل پسند نہیں آتا اور اس کیفیت میں وہ مزید شراب پیتی ہے۔ چونکہ فلم میں لندن شہر دکھایا گیا ہے اس وجہ سے ظاہر ہے کہ تقریباً ہر فرد ہی جنوبی ایشیائی ہے اور ہندی سمجھتا ہے۔ نصرت، اس کا شوہر، نصرت کا تھیریپسٹ، میرا کا تھیریپسٹ، پولیس کا تفتیشی افسر، اس کا نائب، ڈانس انسٹرکٹر، ایک وکیل اور کچھ دیگر لوگ سب ہی ہندی بولتے ہیں۔
ایک مقام پر دکھایا جاتا ہے جیسے میرا نے ایک گمنام سی ملاقات کی ہے جس میں وہ اپنی دکھ بھری کہانی بیان کر رہی ہے (ہندی میں)۔ ایک معمر سفید فام شخص درد اور ہمدردی کے ملے جلے تاثرات لیے اس کے ساتھ بیٹھا ہے۔ اب آپ یہ سوال مت کیجیے گا کہ اسے میرا کی کہانی سمجھ آرہی تھی یا نہیں اور نہ ہی یہ پوچھیے گا کہ لندن می ہونے والی ملاقات میں میرا ہندی میں کیوں بات کر رہی تھی۔ جو ہے سو ہے۔
اس طرح کی نااہلی ایک بہترین ماخذ کو برباد کردیتی ہے۔ ہاکنس کے تھرلر ناول میں کئی نشیب و فراز تھے۔ انہوں نے کہانی کے مرکزی کردار کو شراب کی لت، کمزور ہوتی ہوئی یادداشت اور شکوک و شبہات سے لڑتے ہوئے دکھایا ہے۔ وہ خود کو سنبھالتی ہے لیکن پھر بکھر جاتی ہے، وہ کئی ٹکڑے جوڑ کر پہیلی حل کرتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہیلی ہی بدل چکی ہے۔ ہاکنس نے قاری کو اس کے ذہن میں بٹھا دیا ہے، قاری اس کے درد کو محسوس کرتا ہے، اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اس کی یادوں کو کھنگالتا ہے۔
داس گپتا اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے گھریلو تشدد اور پاگل پن، ذہنی صحت اور نشے کی لت پر مبنی ایک متبادل کہانی بیان کرسکتے تھے لیکن اس کے لیے بہترین فلم سازی اور اداکاری کی ضرورت پڑتی۔
پرینیتی چوپڑا نے بھی غیر ضروری خود کلامی سے بہت مایوس کیا۔ انہیں اتنا بے ترتیب دکھایا گیا ہے کہ اس پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ باتھ روم کے آئینے پر نصرت کو مخاطب کرتے ہوئے ’bitch‘ تحریر کردیتی ہیں تو کبھی نشے اور انتہائی غصے کی حالت میں اس کے گھر پہنچ جاتی ہیں۔ وہ اپنے فون پر یہ ویڈیو ریکارڈ کرتی ہے جس میں وہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ وہ نصرت کا سر پھاڑ دے گی اور پھر یہ جانتے ہوئے بھی کہ پولیس اس کے تعاقب میں ہے اس ویڈیو کو ڈیلیٹ نہیں کرتی۔ ہمیں اس سب کی وجہ نہ ہی معلوم ہے اور نہ ہی معلوم ہوسکتی ہے۔ ہمیں بس خود پر افسوس ہی ہوسکتا ہے۔
اس فلم نے ناول کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ہاکنس نے اپنی کہانی کو 3 تناظر سے بیان کیا تھا جس میں ہر کردار کے لیے ایک الگ باب مختص تھا جس سے کہانی میں بے پناہ غیر یقینی شامل ہوگئی تھی۔ یہ فلم بدلتے ہوئے تناظر سے بالکل بے نیاز ہے۔ ہم کچھ وقت کے لیے میرا کے ذہن میں ہوتے ہیں اور پھر اچانک ہم نصرت کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔
فلم میں گمراہ کن اشاروں کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جب نصرت اپنے شوہر سے لڑ رہی ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ ’ایک دن میں تمہیں مار ڈالوں گا‘۔ دوسری جانب میرا کا کردار بھی مشکوک ہے اور اگر آپ کئی تھرلر فلمیں دیکھ چکے ہیں تو آپ جان جائیں گے کہ اس فلم میں صرف وقت ضائع کیا گیا ہے۔ کچھ سین تو بہت ہی مضحکہ خیز ہیں، مثال کے طور پر اس مکالمے کو دیکھیے:
ٹھیریپسٹ: ’فرض کرو تم اُڑ سکتی ہو، تو تم اُڑ کر کہاں جاؤ گی؟‘
نصرت: ’جنگل‘۔
آپ اسکرین پر کچھ مار بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ نیٹ فلکس ہے اور آپ کو پھر دوسرا لیپ ٹاپ خریدنا پڑے گا۔
فلم میں ایک سب پلاٹ ٹوئسٹ بھی شامل ہے جو اصل ناول میں نہیں ہے۔ اس سے یہ کہانی اپنی خاصیت چھوڑ دیتی ہے اور ایک عمومی ڈرامہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس اضافے میں دکھائے جانے والے محرکات سے کہانی کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔ ناول میں اصل سسپینس تو مرکزی کردار کی اندرونی کشمکش سے پیدا ہوا تھا تاہم فلم میں پولیس کی تفتیش پر بہت زیادہ وقت صرف کیا گیا ہے جس سے کہانی کا مزہ خراب ہوگیا ہے۔
اپنے ربع آخر میں آکر فلم اپنی دلچسپی کھو دیتی ہے۔
جب میرا اپنے شناسا افراد سے بات کرکے اپنے ماضی کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک متوازی دنیا میں رہ رہی تھی اور تبھی یہ احساس ایک گانے کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ یہ اتنا اچانک ہوتا ہے کہ آپ کو لگتا ہے جیسے آپ اچانک کسی دوسری فلم میں داخل ہوگئے ہوں۔
یہ انتہائی درمیانی درجے کی ایسی فلم ہے جس کا کوئی اختتام ہی نہیں ہے۔
یہ مضمون 7 مارچ 2021ء کو ڈان آئی کن میں شائع ہوا۔