امریکا نے افغانستان کے متحارب فریقین کو ’امن معاہدہ‘ پیش کردیا
امریکا نے تعطل کا شکار افغان امن عمل اور بڑھتے ہوئے پرتشدد حملوں سے مایوس ہوکر افغانستان کے متحارب فریقین کو 8 صفحات پر مشتمل امن معاہدے کا جائزہ لینے کی پیشکش کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات کی میز پر موجود دونوں اطراف کے افغان باشندوں کے مطابق امریکا نے تمام فریقین کو آئندہ ہفتوں میں ترکی مدعو کیا ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے متعلق فیصلے کیلئے تمام آپشنز زیر غور ہیں، امریکا
غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے پی‘ کی جانب سے حاصل کردہ امن معاہدے کے مسودے میں جنگ بندی سمیت خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا اور سچائی پر مبنی مفاہمتی کمیشن کا تصور پیش کیا گیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کی جانب سے مسودے کی تصدیق کرنی باقی ہے۔
تاہم انہوں کہا کہ یہ ہماری سفارتی کوششوں کے لیے اکثر اہم ہوتا ہے کہ نجی طور پر امور کو کامیابی کے ساتھ چلائے جائیں۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے بتایا کہ طالبان کو مسودہ موصول ہوا ہے اور وہ اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیٹو نے افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کے فیصلے کو مؤخر کردیا
اس ضمن میں افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔
اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے اشرف غنی کو سخت الفاظ میں مراسلہ ملا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ واشنگٹن امن مذاکرات میں پیشرفت دیکھنا چاہتا ہے اور اس امن معاہدے کے مسودے کا ذکر کیا جس میں ایک نئی اور جامع حکومت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مراسلے کے جواب میں اشرف غنی نے کہا تھا کہ ’جب تک میں زندہ ہوں کوئی عبوری حکومت نہیں بنے گی‘۔
خط میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ امریکی معاہدے کی رو سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے لیے یکم مئی کی آخری تاریخ زیر غور ہے۔
اشرف غنی کے پہلے نائب صدر امر اللہ صالح نے تصدیق کی کہ صدر کو امریکی مراسلہ موصول ہوا تھا اور اس کے مندرجات سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ اشرف غنی کسی بھی تصفیہ کی جانب سیکریٹری آف اسٹیٹ کی پھرتی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
امر اللہ صالح نے کہا کہ ہمیں نہ تو اس خط کی فکر ہے اور نہ ہی اس سے ہمارا مؤقف بدلا ہے۔
انہوں نے گزشتہ 20 برس میں امریکی قربانیوں اور مالی اعانت کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ افغان حکومت ڈکٹیشن نہیں لے گی۔
دوسری جانب دوحہ میں مذاکرات کی میز پر 4 خواتین میں سے ایک خاتون فوزیہ کوفی نے یکم مئی کو امریکی فوجیوں کے انخلا کو تباہ کن قرار دیا۔
مزید پڑھیں: امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کا جائزہ لیں گے، جوبائیڈن انتظامیہ
انہوں نے کہا کہ اس سے انتشار پھیل جائے گا۔
فوزیہ کوفی نے بھی تصدیق کی کہ تمام فریقین کو امریکی مسودہ ملا ہے۔
انہوں نے دوحہ سے فون پر انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 'ایک چیز جو اہم ہے وہ یہ کہ افغان ملکیت اور افغان قیادت کا احترام کیا جانا چاہیے'، 'اس عمل کو جلدی نہیں کیا جانا چاہیے'۔
یاد رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان امن عمل کا آغاز گزشتہ برس ستمبر میں ہوا تھا لیکن امریکا میں جو بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد معاملات کا دوبارہ جائزہ لینے کے لیے اس عمل کو روک دیا گیا تھا، اس میں امریکی فوجیوں کا انخلا بھی شامل تھا۔
افغانستان میں طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے عمل میں تعطل کے بعد کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور دونوں فریقین کا کہنا ہے کہ وہ سخت حالات کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔