• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

جہاز بانڈہ میں گزری ایک رات اور برفیلی کٹورا جھیل کی سیر

برف سے ڈھکے پہاڑوں کے دامن میں برف کی سفید چادر اوڑھے کٹورا جھیل کا حسن دیکھ کر رب کائنات کی کبریائی کا خیال بارہا دل میں آیا۔
شائع March 12, 2021

دوپہر کے 4 بج چکے تھے اور ہم مسلسل چڑھائی چڑھ رہے تھے، وقاص، سیار اور بلال کا بُرا حال ہوچکا تھا جبکہ مقامی دوست عقل خان اور زمین خان ہم سفر دوستوں کی ہمت بڑھانے میں مصروف تھے۔

جندری سے جہاز بانڈہ کا پیدل سفر 3 سے 4 گھنٹے پر محیط ہوتا ہے لیکن دوستوں کی تھکاوٹ اور جگہ جگہ آرام کی وجہ سے ہمیں تاخیر ہوئی۔ تھوڑی دیر مزید چلنے کے بعد ہم ایک کھلے میدان میں داخل ہوچکے تھے۔ گمسیر (گمشیر) گاؤں سے اب تک ہم 3 گھنٹے کا سفر کرچکے تھے۔

مسلسل چڑھائی چڑھنے کے بعد اب ہم قدرے سکون سے چلنے لگے تھے۔ ہمارے سامنے اردگرد گھنے جنگل کے درمیان کھلا اور وسیع میدان تھا۔ اس کے ایک کونے میں کچے مکانوں پر مشتمل آبادی اور دوسری طرف ایک وسیع چراگاہ (بانال یا بانڈہ) تھی۔ اس میں خوبصورت گائے اور گھوڑے گھاس کے مزے لے رہے تھے۔

عقل خان کے مطابق اس خوبصورت چراگاہ کو کنڈیل شئی بانال کہا جاتا ہے۔ کنڈیل شئی بانال کے اس خوبصورت میدان کو اگر سویٹزرلینڈ کے کسی ہرے بھرے میدانی علاقے سے تشبیہہ دی جائے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ میدان میں داخل ہوتے ہی کچھ دیر آرام کرنے کی میری خواہش پر سب نے لبیک کہا۔ ایسا لگا جیسے ان کی دل کی بات میرے لبوں سے ادا ہوئی ہو۔

دوستوں کی تھکاوٹ کی وجہ سے ہم ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچے—تصویر: عظمت اکبر
دوستوں کی تھکاوٹ کی وجہ سے ہم ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچے—تصویر: عظمت اکبر

کنڈیل شئی بانال کا منظر — تصویر: عظمت اکبر
کنڈیل شئی بانال کا منظر — تصویر: عظمت اکبر

یہاں گائے اور گھوڑے گھاس کے مزے لے رہے تھے — تصویر: عظمت اکبر
یہاں گائے اور گھوڑے گھاس کے مزے لے رہے تھے — تصویر: عظمت اکبر

جہاز بانڈہ کے لیے یہ میرا دوسرا سفر تھا۔ 2016ء میں پہلی دفعہ وادی جندری کے اس خوبصورت میڈو جہاز بانڈہ کے حسین نظاروں سے اپنی آنکھوں کو خیرہ کرچکا تھا۔ دیر اپر کے کوہستان کا سفر ہو اور کمراٹ کی حسین وادی اور تقریباً 10 ہزار فٹ بلندی پر واقع خوبصورت جہاز بانڈہ کا دیدار نہ ہو تو سفر ہمیشہ ادھورا ہی رہتا ہے۔

جہاز بانڈہ کا وسیع و عریض میدان سطح سمندر سے 9800 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ یہ دیر کوہستان کی ناصرف مشہور چراہ گاہ ہے بلکہ یہ وادی کمراٹ کا سفر کرنے والے سیاحوں کے لیے مشہور سیاحتی مقام بھی ہے۔

سیاح تھل کی مشہور جامع مسجد کے قریب فور بائی فور جیپ کے ذریعے لاموتی گاؤں کی طرف 2 گھنٹے کا سفر کرتے ہیں۔ وہاں پر شرینگل یونیورسٹی کے میوزیم سے ہوتے ہوئے براستہ گمشیر ٹکی ٹاپ تک پہنچتے ہیں۔ شرینگل یونیورسٹی کے میوزیم سے ایک اور راستہ بھی ٹکی ٹاپ تک پہنچتا ہے لیکن اس راستے پر چڑھائی ہونے کی وجہ سے سیاح اس کو استعمال نہیں کرتے جبکہ مقامی افراد اسی راستے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ہم نے بھی گمشیر گاؤں سے نیچے دریا پر بنے پل کو پار کرکے ٹکی ٹاپ والے ٹریک پر سفر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ٹکی ٹاپ جہاز بانڈہ کا بیس کیمپ بھی کہلاتا ہے۔ آپ جس راستے سے بھی جہاز بانڈہ کا سفر کریں گے آپ کو ٹکی ٹاپ سے ہی گزرنا ہوگا۔ یہاں پر سیاحوں کے قیام و طعام کے لیے ایک دو ہوٹل بھی موجود ہیں جبکہ ٹریک کے لیے مقامی گائیڈ اور گھوڑے بھی موجود ہوتے ہیں۔ گمشیر سے ٹکی ٹاپ تک ہمیں ایک گھنٹہ اور 45 منٹ کا سفر کرنا پڑا تھا، اور یہاں سے مزید 2 سے 3 گھنٹے کا ٹریک کرکے جہاز بانڈہ پہنچا جاسکتا ہے۔

جہاز بانڈہ کا میدان — تصویر: عظمت اکبر
جہاز بانڈہ کا میدان — تصویر: عظمت اکبر

تھل کی تاریخی مسجد کا ایک منظر — تصویر: عظمت اکبر
تھل کی تاریخی مسجد کا ایک منظر — تصویر: عظمت اکبر

گمشیر سے ٹکی ٹاپ جانے والا راستہ — تصویر: عظمت اکبر
گمشیر سے ٹکی ٹاپ جانے والا راستہ — تصویر: عظمت اکبر

ٹکی ٹاپ کو جہاز بانڈہ کا بیس کیمپ بھی کہا جاتا ہے — تصویر: عظمت اکبر
ٹکی ٹاپ کو جہاز بانڈہ کا بیس کیمپ بھی کہا جاتا ہے — تصویر: عظمت اکبر

ٹکی ٹاپ کے ابتدا میں ایک مشکل چڑھائی کے بعد ہم کنڈیل شئی کے خوبصورت میدان میں داخل ہوئے تھے۔ یہاں کچھ دیر سستانے اور منظر کشی کرنے کے بعد ہم ایک دفعہ پھر جہاز بانڈہ کے ٹریک پر آگئے۔

گروپ کے تمام افراد 4 گھنٹے کے مسلسل سفر سے ہلکان ہوچکے تھے لیکن جہاز بانڈہ کا حسن اور اس کی دلکشی ان کو یہ آخری چڑھائی چڑھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ 15 منٹ کے مزید سفر کے بعد ہم جہاز بانڈہ کے کھلے سر سبز میدان میں داخل ہوچکے تھے۔ اس سے پہلے جب میں یہاں آیا تھا تو رہائش کے لیے صرف ایک ہوٹل تھا اور وہ بھی جہاز بانڈہ میں نہیں بلکہ اس کے سامنے دوسرے سرسبز میدان، بینڑ بانال میں تھا۔ وہ ہوٹل راجہ تاج محمد کی زیرِ نگرانی چل رہا تھا، لیکن اب تو اس خوبصورت میدان میں بھی 5، 6 ہوٹل بن چکے ہیں اور کچھ پر تعمیراتی کام تیزی سے جاری تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہمارا سارا گروپ جہاز بانڈہ کے عین وسط میں موجود پنجاب ہوٹل کے صحن میں گرما گرم چائے سے لطف اندوز ہورہا تھا۔

جہاز بانڈہ کا پہلا ہوٹل نظر آنے لگا تھا — تصویر: عظمت اکبر
جہاز بانڈہ کا پہلا ہوٹل نظر آنے لگا تھا — تصویر: عظمت اکبر

یہاں اب کئی ہوٹل بن چکے ہیں — تصویر: عظمت اکبر
یہاں اب کئی ہوٹل بن چکے ہیں — تصویر: عظمت اکبر

گرما گرم چائے نے ساری تھکن اتاردی — تصویر: بلال احمد
گرما گرم چائے نے ساری تھکن اتاردی — تصویر: بلال احمد

ہوٹل میں کچھ دیر قیام کے بعد گروپ کے کچھ دوستوں کے ساتھ باہر سفر کے لیے نکلنے کو ترجیح دی۔ ہمارا ہدف غروبِ آفتاب سے پہلے جہاز بانڈہ کی مشہور آبشار ’کونڑ آبشار‘ کی زیارت تھا۔ جہاز بانڈہ سے ڈھلان کی طرف اور راجہ تاج محمد کے ریسٹ ہاؤس سے بالکل نیچے نشیب کی طرف خوبصورت اور چھوٹے میدان کو مقامی لوگ کونڑ بانال کہتے ہیں جس میں ایک چھوٹی ندی بہتی نظر آتی ہے۔

اس کونڑ بانال کے خوبصورت میدان کی دائیں طرف بلندی سے کٹورا جھیل کا پانی آبشار کی صورت میں گرتا ہے۔ اس آبشار کو کونڑ آبشار کہتے ہیں۔ کونڑ بانال اور کونڑ آبشار کے علاوہ بینڑ بانڈہ، چمرین آبشار اور دنو شکر آبشار جہاز بانڈہ کے قریب خوبصورت مقامات ہیں۔ چونکہ یہ سارے مقامات ڈھلوان کی طرف ہیں اس لیے بہت سارے سیاح وقت کی کمی اور معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ان مقامات کو دیکھے بغیر ہی کٹورا جھیل کی طرف نکل جاتے ہیں۔

جہاز بانڈہ کا سرسبز میدان — تصویر: بلال احمد
جہاز بانڈہ کا سرسبز میدان — تصویر: بلال احمد

ڈھلتی شام کا منظر — تصویر: عظمت اکبر
ڈھلتی شام کا منظر — تصویر: عظمت اکبر

سورج غروب ہونے کو تھا اور ہمارے پاس کونڑ آبشار تک پہنچنے کے لیے صرف ایک گھنٹہ تھا۔ وقاص اور بلال مجھ سے آگے آگے اور عقل خان میرا ہاتھ پکڑے مسلسل اترائی کی طرف روانہ تھے۔ یہ واقعی ایک مشکل اور دشوار گزار راستہ تھا۔ کونڑ آبشار تک پہنچنے کے لیے جہاز بانڈہ سے 2 راستے ہیں۔ ایک سیدھا میدان سے اترائی کی طرف جو قدرے مشکل تو ہے لیکن فاصلہ کم ہے اور سیاح جلدی پہنچ سکتے ہے۔ ہم نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔

تقریباً آدھے گھنٹے کی ایک مشکل اترائی کے بعد ہمارے سامنے بلندی سے گرنے والی ایک خوبصورت آبشار تھی۔ پانی کا شور اردگرد کی خاموشی کو تقریباً ختم کرچکا تھا اور آبشار کے نظارے مدہوش کن تھے۔

بینڑ بانال — تصویر: عظمت اکبر
بینڑ بانال — تصویر: عظمت اکبر

کونڑ بانال — تصویر: عظمت اکبر
کونڑ بانال — تصویر: عظمت اکبر

کونڑ آبشار — تصویر: عظمت اکبر
کونڑ آبشار — تصویر: عظمت اکبر

اس آبشار کی اونچائی تقریباً 100 سے 150 فٹ تک تھی۔ اس آبشار کو بھی خیبرپختونخوا کی خوبصورت آبشاروں میں بلند مقام حاصل ہے۔ کچھ دیر یہاں قیام کے بعد ہم نے واپسی دوسرے راستے سے کی جو بینڑ بانڈہ سے ہوتے ہوئے جہاز بانڈہ کی رہائش گاہوں کی طرف نکلتا ہے۔ یہ راستہ ذرا طویل تو تھا لیکن پہلے والے راستے سے قدرے آسان تھا۔

رات کے اندھیرے نے اب پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ہم ٹارچ کی روشنی میں منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ پورے گروپ میں ہر ایک تھکاوٹ کا بوجھ لیے آہستہ آہستہ اپنے سفر کو کم کرنے میں مگن تھا۔ تقریباً رات 9 بجے کے قریب جب دُور سے جہاز بانڈہ کے کھلے میدان میں اپنے ہوٹل کی بتیاں نظر آنے لگیں تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ہوٹل پہنچتے ہی ہم کھانے کے دسترخوان پر بیٹھ گئے۔

گرما گرم روٹی اور چکن کڑاہی نوش کرکے ساتھیوں کے ساتھ اگلے دن کی منصوبہ بندی پر بات کی تو جواب میں میرے گروپ کے تینوں ساتھیوں نے ہاتھ کھڑے کردیے کہ کٹورا جھیل کی ٹریکنگ اب ان کے بس کی بات نہیں رہی۔

چارسدہ سے آئے ہوئے گروپ میں بھی صرف 2 دوست کٹورا جھیل کے ٹریک کے لیے تیار ہوئے۔ اس لیے 2 مقامی دوستوں عقل خان اور اس کے بہنوئی زمین خان سمیت 5 افراد پر مشتمل گروپ کے ساتھ علی الصبح روانگی کے لیے پروگرام ترتیب دے کر ہم نے جلدی سونے کا فیصلہ کیا۔ باقی دوست دیر تک تاروں سے بھرے آسمان کے نیچے جہاز بانڈہ کے کھلے میدان میں آگ کے گرد محفل سجائے بیٹھے رہے۔

دشوار راستے کے سبب سیاح یہاں جانے سے کتراتے ہیں — تصویر: عظمت اکبر
دشوار راستے کے سبب سیاح یہاں جانے سے کتراتے ہیں — تصویر: عظمت اکبر

آبشار تک پہنچنے کے لیے آدھے گھنٹے تک ایک مشکل اترائی کا سامنا رہا — تصویر: عظمت اکبر
آبشار تک پہنچنے کے لیے آدھے گھنٹے تک ایک مشکل اترائی کا سامنا رہا — تصویر: عظمت اکبر

قدرتی نظاروں اور کوہ نوردی کا جنون کی حد تک شوق رکھنے والوں میں یہ بات مشہور ہے کہ پہاڑ اور خوبصورت وادیوں میں موجود برفیلی جھیلیں، ان میں بہتی، شور کرتی ندیاں اور سنگلاخ چٹانیں جب کسی کو یاد کرتی ہیں تو ان کو اپنے پاس آ بیٹھنے اور دیدار کرنے کا بلاوا بھیجتی ہیں۔ پہاڑوں کے ساتھ دلی تعلق، ان کی اجازت اور بلاوے کے بغیر کوئی وہاں نہیں جاتا۔ شاید جا بھی نہیں سکتا، جو بغیر دلی تعلق اور نیت کے بھٹک کر پہنچ بھی جائے وہ ان سب سے ایسی تسکین اور کشش حاصل نہیں کرپاتا، جو ایک سیاح، ایک جہاں گرد اور قدرتی رعنایوں سے پیار کرنے والا حاصل کرتا ہے۔

صبح 5 بجے میری آنکھ کھل گئی۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد میں تیار ہوکر باہر دوسرے کمرے میں سوئے ہوئے مقامی دوستوں کو جگانے کے لیے ان کے دروازے کو کھٹکھٹانے لگا تو اندر سے عقل خان کی آواز آئی کہ عظمت بھائی اندر آجائیں چائے اور پراٹھے تیار ہورہے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے مجھے حیرت ہوئی کہ یہ لوگ جلدی کیسے اٹھ گئے اور پھر ناشتہ بھی تیار کرنے لگے۔ خیر اندر کمرے میں جانے کے بجائے میں گروپ کے باقی دوستوں کو جگانے کے لیے آگے چل پڑا جو چارسدہ کے گروپ کے ساتھ کمرے میں ابھی تک خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔

تقریباً 5 منٹ مسلسل آوازیں دینے کے بعد دونوں دوست اٹھ گئے اور 10 منٹ کے بعد ناشتے کے لیے عقل خان کے کمرے میں پہنچ گئے۔ بھرپور ناشتے اور ہوٹل میں موجود ایک چھوٹے اسٹور سے بسکٹ، پانی اور خشک میوہ لے کر ہم 5 افراد پر مشتمل گروپ عقل خان کی قیادت میں صبح 6 بجے کے قریب اپنی منزل کٹورا جھیل کی طرف روانہ ہوگیا۔

ناشتہ بننے کا منظر — تصویر: عظمت اکبر
ناشتہ بننے کا منظر — تصویر: عظمت اکبر

5 افراد پر مشتمل قافلہ صبح 6 بجے روانہ ہوا — تصویر: عظمت اکبر
5 افراد پر مشتمل قافلہ صبح 6 بجے روانہ ہوا — تصویر: عظمت اکبر

جہاز بانڈہ سے بینڑ بانال یعنی ریسٹ ہاؤس کی طرف جاتے ہوئے آگے راستہ 2 حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ایک راستہ سامنے میدان جہاں ریسٹ ہاؤس ہے وہاں جاتا ہے اور ایک راستہ کٹورا جھیل کی طرف نکلتا ہے۔ جہاز بانڈہ سے کٹورا جھیل کا ٹریک ابتدا سے ہی انتہائی خوبصورت تھا۔

ٹریک ہموار اور مسلسل ڈھلان کی طرف تھا جو کہ تقریباً آدھا گھنٹے مسلسل چلنے کے بعد ختم ہوچکا تھا۔ اب ہم ایک کھلے میدان میں داخل ہوچکے تھے۔ اب ہم کھلے میدان سے بلندی کی طرف چلنے لگے۔ تھوڑی دیر مزید چلنے کے بعد ہمارا استقبال 2 خوبصورت مگر چھوٹی جھیلوں نے کیا۔

کٹورا جھیل جانے والا ٹریک — تصویر: عظمت اکبر
کٹورا جھیل جانے والا ٹریک — تصویر: عظمت اکبر

کچھ جگہوں پر برف کی تہہ اب بھی موجود تھی — تصویر: عظمت اکبر
کچھ جگہوں پر برف کی تہہ اب بھی موجود تھی — تصویر: عظمت اکبر

ہم سب سے پہلے آنے والی جھیل کے قریب گئے۔ یہ لمبائی میں چھوٹی تھی۔ لیکن اس کا نظارا مسحور کن تھا۔ یہاں تھوڑی دیر رکنے کے بعد ہم آگے بڑھے تو چند قدم پر دوسری جھیل بڑے پتھروں کی آغوش میں نیلگوں پانی کے دلکش نظارے پیش کررہی تھی۔ یہ لمبائی میں پہلی والی جھیل سے بڑی تھی۔

ان جھیلوں کو دیکھنے کے بعد اب ہمارے سامنے ایک مشکل مرحلہ شروع ہوچکا تھا۔ پتھروں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ وہ پتھر جو دُور سے چھوٹے معلوم ہورہے تھے لیکن درحقیقت وہ چھوٹی چٹانیں تھیں۔ عقل خان اور زمین خان میرے آگے اور باقی دوست میرے پیچھے ان پتھر نما چٹانوں کو عبور کرنے لگے۔

لوک سر کی پہلی جھیل — تصویر: عظمت اکبر
لوک سر کی پہلی جھیل — تصویر: عظمت اکبر

لوک سر کی دوسری جھیل — تصویر: عظمت اکبر
لوک سر کی دوسری جھیل — تصویر: عظمت اکبر

یقیناً یہ سلسلہ میری توقعات سے کہیں زیادہ مشکل اور کٹھن تھا۔ کچھ جگہوں پر تو ایسا لگا کہ ہمیں یہاں آنے سے پہلے راک کلائمبنگ کی ٹریننگ لینی چاہیے تھی۔ خیر اللہ اللہ کرکے تقریباً ایک گھنٹے اور 30 منٹ کی مسلسل محنت کے بعد ہم اس مشکل مرحلے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب ہم ایک بار پھر ایک وسیع میدان میں داخل ہوئے۔

خوبصورت پھول، ہری گھاس کا خوبصورت میدان اور نیچے بہتی ہوئی کٹورا جھیل کی ندی کے شور نے ہماری تھکن کو کچھ کم کردیا تھا۔ کافی دیر تک دوست یہاں پر بیٹھ کر اپنی تھکاوٹ ختم کرنے میں مگن رہے۔ عقل خان نے ہم سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لیے سامنے درّے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سامنے جو گلی نظر آرہی ہے وہاں پر کٹورا جھیل ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے ہمیں وہ سامنے گلیشیئر سے گزرنا ہوگا۔

پتھروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ — تصویر: عظمت اکبر
پتھروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ — تصویر: عظمت اکبر

جھیل تک پہنچنے کے لیے گلیشیئر سے گزرنا تھا — تصویر: عظمت اکبر
جھیل تک پہنچنے کے لیے گلیشیئر سے گزرنا تھا — تصویر: عظمت اکبر

سب دوست کچھ دیر آرام کرنے کے بعد تازہ دم ہوگئے تھے لیکن عقل خان کی گلیشیئر کو عبور کرنے کی بات پر سب ایک بار پھر سہم گئے۔ خیر اللہ کا نام لے کر ہم آگے بڑھ گئے۔ بلندی پر چڑھنے کے بعد ہم ایک بار پھر چٹانی علاقے میں داخل ہوگئے۔ یہ چٹانی سلسلہ قدرے آسان تھا جس کو باآسانی کراس کرکے ہم گلیشیئر پر پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر برف پر چلنے کے بعد احساس ہوا کہ میرے جوتے کسی پہاڑ پر چلنے کے تو قابل تھے لیکن ہموار برف پر اس میں چلنا محال تھا۔ بس پھر جیسے تیسے کوشش کی کہ معاملہ کسی طرح بن جائے۔

اگرچہ ہموار برف پر چڑھائی گو بہت آسان تھی مگر ہم بہت آہستہ چل رہے تھے۔ پھر یہاں ہمیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ گلیشیئر کے آخری کونے پر ہمیں اندازہ ہوا کہ زیادہ برف کی وجہ سے جھیل تک پہنچنے کا راستہ ختم ہوچکا ہے اور ہمارے برف پر چلنے کا رسک خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، اس لیے جھیل تک پہنچنے کے لیے عقل خان نے ایک عمودی راستے کا انتخاب کیا۔

یہ چٹانی راستہ نسبتاً آسان تھا — تصویر: عظمت اکبر
یہ چٹانی راستہ نسبتاً آسان تھا — تصویر: عظمت اکبر

ہموار سطح پر چڑھائی کچھ آسان تھی — تصویر: عظمت اکبر
ہموار سطح پر چڑھائی کچھ آسان تھی — تصویر: عظمت اکبر

یقیناً یہ ایک بار پھر ہمارے لیے مشکل مرحلہ تھا لیکن جھیل تک پہنچنے کی آس نے ہمارے لیے یہ مشکل بھی آسان کردی۔ تقریباً 15 منٹ کی مسلسل بلندی پر چڑھ کر ہم چوٹی پر پہنچے تو سامنے منظر کو دیکھ کر اس بات پر مزید یقین محکم ہوگیا کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، ہر تکلیف کے بعد راحت ہے۔ کٹھن راہ گزر، سخت بلند پتھر، جسم کی تھکاوٹ اور اس سب کے بعد ایک خوبصورت نظارہ۔

جی بالکل ہمارے سامنے دیر کوہستان کی سب سے خوبصورت اور دلفریب مناظر سے بھرپور سمندر سے 11 ہزار 500 فٹ بلندی پر واقع کٹورا جھیل تھی۔ گلیشیئر کے خوبصورت فیروزی مائل رنگ کے پانی والی اس جھیل کے اردگرد پہاڑ وادی نیلم کی رتی گلی جھیل کے پہاڑوں سے مشابہت رکھتے تھے۔

کٹورا جھیل — تصویر: عظمت اکبر
کٹورا جھیل — تصویر: عظمت اکبر

گرمیوں میں کٹورا جھیل کا حسین منظر —تصویر: عظمت اکبر
گرمیوں میں کٹورا جھیل کا حسین منظر —تصویر: عظمت اکبر

کٹورا جھیل کو مقامی گاوری زبان میں گھان سر کہتے ہے، گھان کا مطلب بڑا اور سر مطلب جھیل۔ 1.25 کلومیٹر لمبی اور 763 میٹر چوڑی برفیلی کٹورا جھیل کو کٹورا کا نام لاموتی سے تعلق رکھنے والے مقامی باشندے راجہ تاج محمد نے دیا ہے۔ جس کے بعد گھان سر کا کٹورا جھیل کے نام سے پاکستان کی خوبصورت جھیلوں میں شمار ہونے لگا۔

جہاز بانڈہ سے کٹورا جھیل کا پیدل سفر اور ٹریکنگ کل 4.7 کلومیٹر طویل ہے۔ ہم نے اس فاصلے کو تقریباً ساڑھے 4 گھنٹے میں مکمل کیا۔ کٹورا جھیل کے پورے ٹریک پر فطرت نے ہمیں نئے رنگوں سے متعارف کروایا۔ کٹورا جھیل کے سامنے بلند پہاڑوں کے ساتھ گلیشیئر سے ہوکر ٹریکرز حضرات سوات کی خوبصورت وادی میں داخل ہوتے ہیں۔ اس ٹریک پر بھی کئی خوبصورت جھیلیں آتی ہیں۔

کٹورا جھیل — تصویر: عظمت اکبر
کٹورا جھیل — تصویر: عظمت اکبر

اس منجمد جھیل نے ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا — تصویر: عظمت اکبر
اس منجمد جھیل نے ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا — تصویر: عظمت اکبر

ہم اس منظر سے خوب لطف اندوز ہوئے — تصویر: عظمت اکبر
ہم اس منظر سے خوب لطف اندوز ہوئے — تصویر: عظمت اکبر

تقریباً 2 گھنٹے اور 45 منٹ کے مسلسل سفر کے بعد دوپہر 2 بجے ہم جہاز بانڈہ کے خوبصورت میدان میں داخل ہوئے۔ بلال، وقاص اور سیار ہوٹل کے باہر چٹائی پر گرم دھوپ میں سو رہے تھے۔ ہمارے آنے کی خبر ان کو چارسدہ کے دوستوں نے دی تو ان کے چہروں پر ہماری واپسی کی خوشی دیدنی تھی۔

دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم نے ہوٹل کا بل جو 6 ہزار کے قریب بنتا تھا ادا کیا اور اپنا سامان اٹھا کر جہاز بانڈہ کے خوبصورت میدان پر الوداعی نظر ڈال کر واپس جندری گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں سے رات گئے اپنی جیپ کے ذریعے کمراٹ میں عقل خان کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔

جہاز بانڈہ پر آخری نظر — تصویر: عظمت اکبر
جہاز بانڈہ پر آخری نظر — تصویر: عظمت اکبر

جہاز بانڈہ اور کٹورا جھیل کو دیکھنے کے خواہش مند سیاحوں کے لیے چند ہدایات

  • یہاں کا سفر کرنے سے پہلے اپنے ساتھ ٹریکنگ کا ضروری سامان (جوتے، ٹریکنگ اسٹک، چتھری یا رین کوٹ، ٹارچ، ریک سیک) اور کھانے پینے کا سامان ضرور رکھیں۔

  • جہاز بانڈہ اور کٹورا ٹریک تقریباً 7 گھنٹے کا ہے۔ اس لیے پیدل چلنے کے لیے ذہن بنا کر آئیں۔

  • جہاز بانڈہ میں اس وقت بڑی تعداد میں ہوٹل بن چکے ہیں لیکن اگر کوئی کیمپنگ کرنا چاہتا ہے تو بھی آسانی سے کیپمنگ کے لیے جگہ دستیاب ہوسکتی ہے۔

  • کٹورا جھیل تک جانے والے سیاحوں کو صبح سویرے نکلنا چاہیے تاکہ بروقت واپسی ممکن ہوسکے۔

  • یہاں آنے والے سیاحوں کو چاہیے کہ وادی کی خوبصورتی اور حسن کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کریں اور گند پھینکنے سے گریز کریں تاکہ ان دلکش مقامات کا حسن تادیر برقرار رہ سکے۔

  • مقامی روایات اور ثقافت کا خصوصی خیال رکھیں۔

  • یہاں آنے سے پہلے جہاز بانڈہ اور کٹورا جھیل کے موسم کے بارے میں پوری طرح آگاہی حاصل کرلیں کیونکہ ان مقامات پر موسم بدلتے دیر نہیں لگتی۔

عظمت اکبر

عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔