افغانستان: فائرنگ کے واقعات میں 3 خواتین میڈیا ورکرز ہلاک
افغانستان کے مشرقی حصے میں مختلف حملوں میں مقامی ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن سے منسلک 3 خواتین ہلاک ہوگئیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے پی' کے مطابق جلال آباد میں عینیکاس ریڈیو اینڈ ٹی وی کے شکراللہ پسون نے کہا کہ عینی شاہدین کے مطابق ایک خاتون مُرسل واحدی گھر واپس جارہی تھیں جب ان پر مسلح افراد نے فائرنگ کی۔
انہوں نے کہا کہ دیگر دو خواتین شہناز اور سعدیہ کو فائرنگ کے دوسرے واقعے میں نشانہ بنایا گیا۔
فائرنگ کے اس واقعے میں قریب سے گزرنے والے 2 راہگیر زخمی بھی ہوئے۔
شکراللہ پسون کا کہنا تھا کہ تینوں خواتین نے ترکی اور بھارت کے متعدد ڈراموں کی افغانستان کی مقامی زبانوں دری اور پشتو میں ڈبنگ کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: قاتلانہ حملے میں خاتون صحافی اور ان کا ڈرائیور ہلاک
کسی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم دسمبر میں داعش سے منسلک دہشت گرد گروپ نے عینیکاس کی ہی ایک ملازمہ ملالا میوند کے قتل کہ ذمہ اری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔
دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے اپنے بیان میں حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ معصوم لوگوں بالخصوص خواتین پر حملے اسلامی تعلیمات، ملک کی ثقافت اور امن کی روح کے خلاف ہیں۔
افغانستان کا شمار میڈیا ورکرز کے لیے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے، جہاں گزشتہ چھ ماہ میں 15 میڈیا ورکرز ہلاک ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ فروری 2020 میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد سے افغانستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان: 2 ماہ میں پانچواں صحافی قتل
طالبان نے بیشتر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے، تاہم افغان حکومت اور طالبان دونوں امن معاہدے کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک دوسرے پر حملوں کا الزام عائد کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ بائیڈن انتظامیہ امن معاہدے پر نظرثانی کر رہی ہے جس کے تحت رواں سال یکم مئی تک افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا مکمل ہونا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ معاہدے کے حوالے سے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔