پائیدار امن کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ضروری یا مسئلہ کشمیر کا حل؟
میں کراچی ایئر پورٹ کے ایک قریبی ہینگر میں ایک اسٹوری شوٹ کررہا تھا۔ ایک فلائنگ کلب کی جانب سے ایک چھوٹے طیارے کو ناصرف پاکستانی ٹرک آرٹ سے مزین کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے اپنے جہاز پر 27 فروری کے معرکے کی عکاسی بھی کی تھی۔
اس تربیتی ہوائی جہاز پر پاکستان کا قیدی بننے والے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کے علاوہ اس کے مگ 21 طیارے کو مار گرانے والے اسکوارڈن لیڈر حسن صدیقی اور ایک وقت میں سب سے زیادہ طیارے مار گرانے والے ایم ایم عالم کی تصاویر بھی رنگی گئی تھیں۔
طیاروں کے مالک عمران اسلم سے ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو جاری تھی۔ اس دوران انہوں نے جہاز پر ابھی نندن کا مشہور جملہ مزید ایک جملے کے اضافے سے لکھا تھا Tea was fantastic need another cup۔
عمران اسلم کا کہنا تھا کہ اضافی جملے کا مطلب ہے کہ اگر چائے پینے کا دل کررہا ہے تو پھر اس کے بدلے ایک جہاز گروانا ہوگا۔ عمران اسلم یہ تمام باتیں انتہائی سادہ انداز میں کررہے تھے مگر ان جملوں کے پیچھے موجود جنگ ہونے کا خدشہ حد درجہ محسوس کیا جاسکتا تھا۔
ابھی اس حوالے سے شوٹ جاری تھا کہ دفتر سے فون آیا کہ پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان بات چیت ہوئی ہے اور کنٹرول لائن پر سال 2003ء کے سیز فائر معاہدے کی پاسداری کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دفتر کا کہنا تھا کہ جلد از جلد ماہرین کو لائن اپ کیا جائے تاکہ اس بڑی پیشرفت پر تجزیہ حاصل کیا جاسکے۔
لیکن میرے ذہن میں صدرِ مملکت عارف علوی کی جانب سے میری ٹائم کانفرنس سے کیے جانے والے خطاب کے الفاظ گونجنے لگے۔ صدرِ مملکت کا کہنا تھا کہ ’جب تک کشمیر جیسے تنازعات حل نہیں ہوں گے، سمندر میں بھی امن قائم نہیں ہوگا۔ خلیج فارس، بحیرہ جنوبی چین اور بحیرہ ہند پُرامن نہ ہوسکیں گے اور خطے میں اعتماد کی فضا کے بغیر تعاون محدود رہے گا‘۔
اگر صدرِ مملکت کے الفاظ کو سادہ طور پر بیان کیا جائے تو بات کچھ یوں بنتی ہے کہ کشمیر کا تنازعہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان نہیں ہے بلکہ چین بھی اس کا ایک فریق ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے وہ علاقے جو بھارت کے قبضے میں ہیں ان میں سے لداخ پر چین کا دعویٰ ہے۔ دونوں ملکوں میں جنگ کے بعد متنازعہ علاقے کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ذریعے تقسیم کیا ہوا ہے۔ گزشتہ سال مئی میں شروع ہونے والے تنازع میں بھارت کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دنیا کے بلند ترین محاذ پر ہونے والی کشیدگی کس طرح سمندروں میں کشیدگی پیدا کرسکتی ہے؟ اس کے لیے ہمیں 27 فروری 2019ء کے واقعے کے بعد کے حالات کا جائزہ لینا ہوگا۔
جب بھارتی فضائیہ کو پاک فضائیہ کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس شرمندگی کا بدلہ لینے کے لیے اس نے اپنی بحریہ کو متحرک کیا اور پاکستان کی جانب ایک آبدوز بھیجی جو پاکستان نیوی ایوی ایشن کے نگرانی پر معمور طیاروں نے پکڑ لی اور یوں بھارت کا سمندر کے ذریعے بھی پاکستان پر حملہ کرکے بدلہ لینے کا خواب چکنا چُور ہوگیا۔ اگر پاکستان نیوی بھارتی آبدوز کی نشاندہی نہ کرتی تو خطہ بدترین جنگ کا شکار ہوجاتا اور یہ تنازعہ ایٹمی جنگ تک پہنچ سکتا تھا۔
سینیٹر شیریں رحمٰن کا اسی کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ’چین دنیا کے اقتصادی قائد کے طور پر ابھر رہا ہے جبکہ اس سے پہلے امریکا معاشی اور فوجی قائد تھا۔ شیریں رحمٰن نے بیلٹ اینڈ روڈ اور سی پیک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یورپ چین کو حریف نہیں حلیف کے طور پر دیکھ رہا ہے مگر امریکا کو چین کا ابھرنا پسند نہیں‘۔
شیریں رحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکا میں قیادت کی تبدیلی کے باوجود صدر جو بائیڈن بھی چین سے متعلق صدر ٹرمپ کے ہی راستے پر گامزن رہیں گے۔ امریکا کو چین کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کو روکنے کے لیے بھارت کی ضرورت ہے۔ امریکا چین کے مقابلے کے لیے بھارت کے ساتھ دفاعی اور اسٹریٹجک معاہدے کررہا ہے‘۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جس طرح سے بھارت نے 27 فروری کے معرکے میں ہزمیت اٹھانے کے بعد سمندر سے حملے کی کوشش کی تھی، اسی طرح چین کے ساتھ تنازع پر بھی بھارت ناصرف بحیرہ عرب، بحیرہ ہند اور بحیرہ جنوبی چین میں چینی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ وہ سمندری تجارت اور امن کو تباہ کرکے چین اور پاکستان کو مشترکہ طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کی خبر پر بھارتی اور پاکستانی صحافیوں کے ایک مشترکہ گروپ میں بھارتی حکومت کی پریس ریلیز شیئر کی گئی جس پر ممبئی سے تعلق رکھنے والے بھارتی صحافی جیتن ڈیسائی کا کہنا تھا کہ ’یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کوشش نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے کی گئی ہے‘۔
بھارتی صحافی کی اس رائے پر میں نے لکھا کہ ’ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ بائیڈن نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس دلایا ہو کہ بھارت کو پاکستان اور چین کے ساتھ ایک وقت میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیے اور بھارت کو اپنی لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر توجہ دینی چاہیے تاکہ وہاں ہونے والی پسپائی کو روک سکے‘۔
جیتن کی جانب سے ’اتفاق‘ کے میسج کے بعد اب وٹس ایپ گروپ میں بھی ایسی ہی خاموشی چھا گئی ہے جیسا کہ کشمیر پر لائن آف کنٹرول پر ڈی جی ایم او کے مذاکرات کے بعد چھائی ہوئی ہے۔
مگر کیا اس جنگ بندی کے معاہدے سے خطے میں امن قائم ہوگیا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جس کا پورے تجزیے کے بعد جواب تلاش کرنا ہوگا۔ اس جنگ بندی کے معاہدے کے بعد صدر پرویز مشرف کے ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں بھارت کی جانب سے یہ بیانیہ اختیار کیا گیا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈالیں اور تجارت کریں مگر اس وقت کے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر چوہدری سعید کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا اس لیے وہ حکومت کے اس بیانیے سے متفق نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کشمیر کا ایک واقع دوبارہ سے حالات کو کشیدگی کی جانب لے جائے گا، اس لیے پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ناگزیر ہے‘۔
آج بھی جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کے باوجود اس کی دوبارہ خلاف ورزی کے امکانات موجود ہیں اور یہ تنازعہ کشمیر کے پہاڑوں سے لے کر سمندروں تک پھیل سکتا ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں