کراچی میں اراضی کی بلند قیمتیں، صنعتکاروں کا پنجاب، خیبرپختونخوا کی طرف رجحان بڑھنے لگا
کراچی: دو بندرگاہوں کا حامل ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی مختلف صنعتی علاقوں میں ابتر انفرا اسٹرکچر کی صورتحال کے باوجود کاروبار کے لیے اراضی کی قیمتوں کے حساب سے سب سے زیادہ مطلوب شہر بن کر ابھرا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں صنعتی زمین کی بلند قیمتیں چھوٹے اور درمیانے درجے کے سرمایہ کاروں کے لیے تحفظ کا سبب بن رہی ہیں۔
کچھ برسوں کے دوران کراچی سے کچھ صنعتکار تیزی سے بڑھتی صنعت کاری، زمین کی کم قیمت اور بہتر انفرااسٹرکچر کی وجہ سے پنجاب منتقل ہوگئے یا وہاں تک صنعت کو وسعت دے دی۔
پنجاب کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا ایک متبادل جگہ کے طور پر سامنے آرہا ہے چونکہ حالیہ برسوں میں امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے۔
تمام صورتحال سے متعلق سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری (ایس اے آئی) کے صدر عبدالہادی نے ڈان سے گفتگو میں بتایا کہ سائٹ انڈسٹریل ایریا میں کوئی خالی زمین موجود نہیں، مزید یہ کہ چھوٹے سے بڑے یونٹس کی صنعتوں کی قیمتیں 20 سے 60 کروڑ روپے مالیت رکھتی ہیں۔
مزید پڑھیں: گیس کے کم پریشر سے کراچی کی صنعتیں متاثر
سائٹ ایریا میں 5 ہزار ایکڑ اراضی پر مشتمل 3 ہزار 500 سے زائد یونٹس میں ٹیکسٹائل یونٹس کا حصہ 60 فیصد، دوا سازی کا 20 فیصد اور فوڈ انڈسٹریز کا 10 سے 12 فیصد ہے جبکہ مزدور اور ورکرز عام طور پر بنارس، منگھوپیر، اورنگی، ناظم آباد اور شیرشاہ کے علاقوں سے آتے ہیں۔
اسی طرح کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر سلیم الزماں کا کہنا تھا کہ کورنگی انڈسٹریل ایریا 4 ہزار 500 سے زائد آپریٹنگ یونٹس پر موجود ہے، جہاں خالی پلاٹس کی محدود تعداد ہے اور زمین کی قیمت 25 کروڑ روپے فی ایکڑ ہے۔
کراچی اور پورٹ قاسم بندرگاہوں کے بعد ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے کورنگی میں زمین کی مالیت سب سے زیادہ ہے اور یہ گزشتہ ڈھائی سال میں تبدیل نہیں ہوئی ہے۔
فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (فباٹی) کے صدر محمد علی کہتے ہیں کہ محدود اراضی دستیاب ہونے کے باوجود قیمتیں ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے فی اسکوائر یارڈ کے درمیان ہیں جو ڈھائی سال قبل 60 سے 80 ہزار فی اسکوائر یارڈ کے درمیان تھیں۔
ادھر ڈان سے گفتگو میں بن قاسم ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (بقاٹی) کے سیکریٹری جنرل عبدالرحمٰن اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ وہاں 450 آپریٹنگ یونٹس ہیں لیکن ’اب بھی خالی پلاٹس موجود ہیں‘۔
شمال مغربی صنعتی زون میں اس وقت زمین کی قیمت 6 کروڑ روپے فی ایکڑ ہے جو ڈھائی سال قبل 4 کروڑ روپے تھی جبکہ مشرقی صنعتی زون میں زمین کی قیمت ڈھائی کروڑ روپے فی ایکڑ ہے جو کچھ سال قبل ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے تھیں۔
اسی حوالے سے نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر فیصل معیز خان کہتے ہیں کہ 725 ایکڑز کے حصے پر 3 ہزار 500 آپریٹنگ پلاٹس ہیں جس میں زیادہ تک چھوٹے اور درمیانے کاروباری افراد ہیں جبکہ 40 سے 50 پلاٹس خالی ہیں، وہاں پلاٹ کی موجودہ مالیت ایک لاکھ روپے فی اسکوائر یارڈ ہے جو کچھ ڈھائی سال قبل 40 ہزار روپے فی اسکوائر یارڈز تھی۔
ادھر کورنگی کریک انڈسٹریل پارک کے ایگزیکٹو رکن مشہود علی خان کا کہنا تھا کہ 26 سے زائد صنعتیں فعال ہیں، مزید یہ کہ ’کچھ 24 کمپنیاں زیر تعمیر ہیں اور کووڈ 19 کی وجہ سے مزید 50 کمپنیوں کا تعمیراتی کام تاخیر کا شکار ہوگیا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا تعمیراتی صنعت کی سرگرمیاں بحال کرنے کا فیصلہ
نیشنل انویسٹمنٹ پارک (این آئی پی) کے اقدام کے تحت زمین صرف ان صنعتوں کو فروخت کی جائے گی جو اسے سرمایہ کاروں کے لیے زمین کی قیمت پرکشش بنا کر اسے سرمایہ کاروں کو دوبارہ فروخت نہیں کریں گے تاہم فی ایکڑ زمین کی قیمتیں ڈھائی کروڑ روپے کے لگ بھگ ہیں جبکہ مکمل آپریشن کے بعد براہ راست اور بالواسطہ ملازمت کے بالترتیب 50 ہزار اور 5 لاکھ روزگار کے مواقع ہیں۔
ادھر ہائی ٹیک الائے وہیلز کے ڈائریکٹرز منیر بانا اور عبدالمجید شیخ کا کہنا تھا کہ وزارت صنعت اور پاکستان اسٹیل ملز کمیٹی عموماً اسپیشل اکنامل زون (ایس ای زیڈ) میں زمین کی قیمتوں کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن یہ قیمتیں ملک کے دیگر زونز کے مقابلے میں کافی حد تک زیادہ ہوتی ہیں۔
واضح رہے کہ ہائی ٹیک کا وہیل پلانٹ بن قاسم انڈسٹریل پارک (بی کیو آئی پی) میں واقع ہے جہاں اس وقت عارضی طور پر ایک ایکڑ کی قیمت ساڑھے 3 کروڑ روپے ہے۔
2009-2008 میں قائم ہونے والے بی کیو آئی پی کا مجموعی علاقہ 930 ایکڑز کا ہے جہاں 214 صنعتی پلاٹس ہیں، اب تک 16 پلاٹس کو لیز کیا گیا ہے جبکہ باقی 198 پلاٹس خریداروں کے منتظر ہیں۔
عبدالمجید شیخ نے دعویٰ کیا کہ ایس ای زیڈ 2012 اور ایس ای زیڈ ترمیمی ایکٹ 2016 کے تحت تمام پارکس کے لیے مراعات کی پیش کش عام ہے لیکن بی کیو آئی پی میں اس پر عملدرآمد میں بہت پیچھے ہے۔
علاوہ ازیں پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ منیجمنٹ کمپنی (پی آئی ای ڈی ایم سی) کے ترجمان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم انڈسٹریل اسٹیٹ لاہور، جو 1960 میں قائم کی گئی تھی، وہ مکمل طور پر فروخت ہوچکی ہے اور وہاں 509 یونٹس چل رہے ہیں۔
اسی طرح 2004 میں قائم کی گئی لاہور کی سندر انڈسٹریل اسٹیٹ بھی مکمل طور پر فروخت ہوچکی ہے جہاں 530 پلاٹس قابل استعمال ہیں، مزید یہ کہ 1980 اور 2006 میں قائم کیے گئے ملتان انڈسٹریل اسٹیٹ فیز ون اینڈ ٹو کے بھی تمام یونٹس مکمل طور پر فروخت ہوچکے ہیں اور وہاں 243 اور 120 یونٹس چل رہے ہیں، مذکورہ بالا چاروں اسٹیٹس میں کوئی خالی پلاٹ نہیں ہے۔
پی آئی ای ڈی ایم سی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ شیخوپورہ میں قائم اعظم بزنس پارک میں 602 پلاٹس دستیاب ہیں جہاں فی ایکڑ قیمت 2 کروڑ 40 لاکھ سے 2 کروڑ 80 لاکھ روپے کے درمیان ہے اور اب تک کوئی یونٹ وہاں قائم نہیں ہوا ہے۔
اس کے علاوہ 2012 میں قائم کیے گئے بھلوال انڈسٹریل اسٹیٹ میں 139 پلاٹس دستیاب ہیں اور وہاں صرف 3 یونٹس کام کر رہے ہیں جبکہ زمین کی قیمت ایک کروڑ 5 لاکھ روپے ہے۔
مزید یہ کہ رحیم یار خان انڈسٹریل اسٹیٹ، جو 2012 میں قائم کی گئی تھی، وہاں فی ایکڑ کی قیمت ایک کروڑ 15 لاکھ روپے ہے اور وہاں 3 یونٹس فعال ہیں جبکہ 77 پلاٹس دستیاب ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہاڑی انڈسٹریل اسٹیٹ میں 91 پلاٹس دستیاب ہیں جہاں فی ایکڑ زمین کی قیمت 75 لاکھ روپے ہے۔
مزید پڑھیں: ترک کمپنیز کی پاکستان میں صنعتی یونٹس کے قیام میں دلچسپی
ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ’کراچی سے اندازاً 20 فیصد کاروباری افراد پی آئی ای ڈی ایم سی کے مختلف انڈسٹریل اسٹیٹ میں یا تو منتقل ہوگئے یا (کاروبار کو) وسعت دے دی‘۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا اندسٹریل ایسوسی ایشن پشاور (کے پی کے اے پی) کے صدر زرک خان نے ڈان کو بتایا کہ صوبے میں 4 انڈسٹریل اسٹیٹ موجود ہیں، پشاور انڈسٹریل اسٹیٹ میں فی ایکڑ زمین کی سرکاری قیمت ایک کروڑ روپے ہے جبکہ اس کی مارکیٹ کی قیمت 3 کروڑ روپے فی ایکڑ ہے۔
اس کے علاوہ نوشہرہ، گدون اور حطار میں زمین کی سرکاری قیمتیں بالترتیب ایک کروڑ 20 لاکھ، 25 لاکھ اور ایک کروڑ روپے ہے۔
رشاکئی ایس ای زیڈ میں فی ایکڑ زمین کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالر ہے جبکہ حطار فیز 7 ایس ای زیڈ میں زمین کی قیمت 74 لاکھ روپے ہے اور اس کی مارکیٹ قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور، گدون اور حطار 100 فیصد فروخت ہوچکے ہیں کیونکہ یہ پرانی انڈسٹریل اسٹیٹ ہیں، مزید یہ کہ گزشتہ کچھ برسوں میں خیبرپختونخوا میں دہشت گردی میں کمی کی وجہ سے یہاں آپریشنل یونٹس کی تعداد بڑھی ہے۔
یہ خبر 28 فروری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی