جسٹس عیسیٰ کیس پر نظرثانی کیلئے 10 رکنی بینچ تشکیل
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کے فیصلے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 10 رکنی بینچ آئندہ ماہ سے باضابطہ طور پر سماعت کرے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیر کو ایک 6 رکنی نظرثانی بینچ نے نظرثانی درخواستوں پر اسی بینچ یا لارجر بینچ کے تعین کا معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا تھا، جس کے بعد چیف جسٹس نے اس پر فیصلہ کیا۔
جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی جنہیں اسے سے قبل بننے والے نظرثانی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا وہ اب نئے بینچ کا حصہ ہیں، جس کی سربراہی جسٹس عمر عطا بندیال ہی کریں گے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ یہ تینوں ججز جسٹس عیسیٰ کیس کا فیصلہ سنانے والے بینچ کا حصہ تھے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس عیسیٰ نظرثانی کیس میں بینچ تشکیل کے معاملے پر فیصلہ سنا دیا
اس کے علاوہ جسٹس امین الدین خان جو قانونی چارہ جوئی کے پہلے حصے میں اصلی بینچ میں شامل نہیں تھے انہیں بھی اس مرتبہ بینچ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل تشکیل دیے گئے 6 رکنی نظرثانی بینچ کی تشکیل کو درخواست گزاروں کی جانب سے چیلنج کردیا گیا تھا اور یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف کیس میں اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے تینوں ججز کو نظرثانی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا اور قرار دیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے جاری کردہ اظہار وجوہ کے نوٹس کے ساتھ ہی کارروائی ختم ہوگئی۔
علاوہ ازیں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی نظرثانی بینچ کی تشکیل کو چیلنج کرنے کے بعد مذکورہ بینچ نے 10 دسمبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا کہ آیا یہی بینچ یا ایک لارجر بینچ جسٹس عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں کا تعین کرے گا۔
بالآخر 22 فروری کو جاری کردہ 28 صفحات پر مشتمل فیصلے میں مذکورہ معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلقہ فیصلہ کریں اور وہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے سکتے ہیں۔
چنانچہ عدالتی دفتر کو ہدایت جاری کی گئی کہ وہ بینچ کی تشکیل سے متعلق ہدایات جاری کرنے کے لیے نظرثانی درخواستوں کو چیف جسٹس کے سامنے رکھے۔
بعد ازاں منگل کو چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ایک 10 رکنی بینچ تشکیل دے دیا، اس بینچ میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔
نظرثانی درخواست کے مطابق عدالت عظمیٰ کی جانب سے انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) کی مخصوص شقوں کی موجودگی میں 19 جون 2020 کے مختصر فیصلے کے پیرا گراف 4 سے 11 میں ٹیکس حکام کو دی گئی ہدایات قانونی سازی کی نوعیت میں تھیں اور وہ بھی ’مخصوص شخص‘ اور دائرہ اختیار کے بغیر تھی۔
درخواست میں اعتراض کیا گیا کہ مزید یہ جب ٹیکس حکام کو ہدایات جاری کی گئی تھیں تو تفتیش کے لیے لوگوں کو معلومات فراہم کی گئیں جس کی مناسب منظوری نہیں دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: نظرثانی کیس: اہلیہ جسٹس عیسیٰ کی چیف جسٹس سے متعلق بات پر عدالت برہم
مزید یہ کہ 19 جون کے فیصلے کے پیراگراف 9 میں سپریم جوڈیشل کونسل کے لیے ہدایات سے جسٹس عیسیٰ کی ساکھ متاثر ہوئی۔
ایف بی آر کو جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے خلاف تحقیقات سے متعلق رپورٹ کرنے کی ہدایت اور سپریم جوڈیشل کونسل کو اس پر غور کرنے کا اختیار دینے سے ایک 'اضافی میکانزم بن گیا ہے جس کے ذریعے ایگزیکٹو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے معلومات رکھ سکتا ہے'۔
نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ سپریم جوڈیشل کا دائرہ اختیار صرف اعلیٰ عدالتوں کے ججز پر ہے اور درخواست گزار کے ’بیوی اور بچوں‘ سے متعلق ایف بی آر کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ کار سے باہر تھی۔
نظرثانی درخواست کے مطابق ایگزیکٹو صرف آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدارتی ریفرنس کے ذریعے کسی آئینی جج کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے اور یقیناً چیئرمین ایف بی آر ’اہلیہ کے ٹیکس گوشواروں میں تخفیف کے بارے‘ میں رپورٹس کو نہ بھیج سکتے ہیں نہ بھیجا چاہیے۔