• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

کراچی کے علاقے کلفٹن کی آئیکونک آغا سپرمارکیٹ ہمیشہ کے لیے بند

شائع February 21, 2021
یہ سپرمارکیٹ ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی ہے — فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
یہ سپرمارکیٹ ہمیشہ کے لیے بند ہوگئی ہے — فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

گزشتہ سال کراچی کے علاقے کلفٹن میں آغا سپرمارکیٹ میں آگ لگ گئی تھی، مگر وہاں جانے والے صارفین کو یقین تھا کہ وہ جلد کھل جائے گا اور وہ اکثر وہاں حالات دیکھنے بھی جاتے تھے۔

ایسا کہا جارہا تھا کہ یہ سپر مارکیٹ 2 ماہ میں دوبارہ کھل جائے گی، جبکہ صارفین کے لیے ہول ڈیلیوری بھی شروع کردی گئی تھی، جو کہ وبا کے زمانے کی ضرورت بھی تھی۔

اس وقت جب آتشزدگی سے متاثر جگہ کی مرمت کا کام جاری تھا، وہاں کی انتظامیہ نے کچھ سامان سروس روڈ پر رکھ کر بھی فروخت کرنا شروع کردیا۔

وہاں لوگوں کے بیٹھنے کا بھی انتظام کیا گیا تھا اور ان سے سپراسٹور کا ایک نمائندہ آکر آرڈر لیتا اور مطلوبہ سامان لاکر دیتا۔

مگر اب آغا سپر اسٹور کے وفادار صارفین کے دل ٹوٹ گئے ہیں، اسٹور کے فرنٹ شٹرز ہمیشہ بند رہتے ہیں۔

وہاں پھلوں کا ایک بیوپاری اور لوگ مسلسل آکر پوچھتے رہتے ہیں کہ سپرمارکیٹ کب دوبارہ کھل جائے گی، جس پر نمائندہ انہیں آگاہ کرتا ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا ہے۔

یہ وہ اطلاع ہے جو لوگ آسانی سے ہضم کرنے کے لیے تیار نہیں، بالخصوص کلفٹن اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے رہائشی، جو اس سپرمارکیٹ سے 1978 سے خریداری کررہے ہیں۔

صارفین کی یادیں

آغا سپر مارکیٹ کی ایک پرانی صارف جن کے لیے اس کی بندش کو قبول کرنا مشکل ہورہا ہے، نے بتایا 'اس زمانے میں کلفٹن میں ایک اور مقبول سپرمارکیٹ کیش این کیری بھی موجود تھی جو آغا سپرمارکیٹ کے ساتھ ہی تھی۔ مگر اس سپرمارکیٹ کے صارفین بتدریج آغا کا رخ کرنے لگے، اور ایک دن ان کا کاروبار ختم ہوگیا اور آغا سپرمارکیٹ ہی باقی رہ گئی'۔

انہوں نے بتایا 'میں اس وقت 9 یا 10 سال کی تھی اور میری والدہ نہیں چاہتی تھیں کہ میں مین روڈ پار کرکے کیش این کیری جاؤں، پھر ہم ڈی ایچ اے منتقل ہوگئے، ہمارے اپارٹمنٹ کی بالکونی کے سامنے خالی پلاٹ تھا جہاں سے آغا سپرمارکیٹ کو دیکھا جاسکتا تھا اور اب وہاں ایک عمارت تعمیر ہوچکی ہے، مگر ہم اب بھی خریداری کے لیے آغا کا ہی رخ کرتے تھے'۔

ان کا کہنا تھا 'ہم وہاں کی بہترین سروس کے عادی ہوگئے تھے، مجھے اب بھی یاد ہے کہ وہ کاؤنٹرز پر 2 بھائی ہوتے تھے، جن کا رویہ بہت اچھا ہوتا تھا۔ ایک دن میری والدہ نے مجھے ایک مقبول انگلش ہفتہ وار جریدہ دکھایا، جس میں وہ دونوں بھائی کپڑوں کے ایک مقبول برانڈ کی ماڈلنگ کررہے تھے، ہم انہیں پہچان کر بہت پرجوش ہوگئے'۔

انہوں نے مزید بتایا 'ہمیں معلوم ہوا کہ وہ بھائی فیروز اور فریڈ ویرانی تھے، جو سپرمارکیٹ کے مالک نور علی کے بیٹے ہیں، ان کے والد اور انکل انور پس منظر میں رہ کر سپرمارکیٹ کا انتظام سنبھالتے تھے، وقت گزرتا گیا اور ہم بڑے ہوگئے، مگر پھر بھی سودا سلف، ادویات اور دیگر کے لیے آغا کا ہی رخ کرتے۔ پھر فیروز اور فرید نے سپرمارکیٹ کا انتظام سنبھال لیا اور وہ پھیلنے لگی۔ انہوں نے وہاں گوشت کی دکان، منجمد پھل اور سبیوں کا شعبہ اور ایک کاسمیٹکس ڈیپارٹمنٹ کا بھی اضافہ کیا'۔

مالکان کا مؤقف

فرید ویرانی کے چہرے پر اداس مسکراہٹ پھیل گئی جب انہیں صارفین کی یادوں کے بارے میں بتایا گیا اور انہوں نے کہا 'میرے بڑے بھائی فیروز مجھ سے ڈیڑھ سال بڑے تھے، ہم اس وقت امریکا سے تعلیم مکمل کرکے آئے تھے، جب ہمارے والد اور انکل نے ہمیں کاؤنٹرز پر بٹھا دیا تاکہ کاروبار کو چلانا سیکھ سکیں۔ ہم نے گزشتہ 43 سال کے دوران صارفین کی 4 نسلوں کو آتے ہوئے دیکھا۔

انہوں نے وضاحت کی 'اب میرے انکل اور بھائی نہیں رہے، جبکہ آتشزدگی اور کووڈ 19 کے ساتھ ایک خاندانی تنازع کے باعث ہم سپرمارکیٹ کو دوبارہ کھولنے کے قابل نہیں رہے۔ میں نے آتشزدگی کے بعد دکان کی مرمت کی کوشش کی مگر میرے پاس پیسے ہی نہیں۔ یہاں تک کہ انشورنس کی رقم بھی ناکافی ثابت ہوئی کیونکہ آتشزدگی میں جلنے والے سامان کی مالیت انشورنس کی رقم سے 3 گنا زیادہ تھی'۔

چونکہ خاندانی تنازع عدالتی معاملہ ہے تو انہوں نے اس پر روشنی ڈالنے سے گریز کیا۔

سوشل میڈیا پر ایسی افواہیں بھی ہیں کہ آغا سپرمارکیٹ اب کسی اور علاقے میں منتقل ہورہی ہے مگر فرید ویرانی نے کہا کہ ایسا نہیں ہورہا۔

انہوں نے کہا 'جب میں نے کاروبار بند کرنے کا فیصلہ کیا تو میں اپنے پرانے ملازمین کے لیے سب سے زیادہ فکرمند تھا، میں نے ان کے تمام بقیہ جات ادا کیے اور یہ جان کر خوشگوار حیرانی ہوئی کہ ان کو آسانی سے کام مل گیا ہے کیونکہ آغا کے ملازمین ہونے کی وجہ سے انہیں مارکیٹ میں تیزی سے اپنایا گیا'۔

یہ مضمون 21 فروری کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Nk Feb 22, 2021 09:45am
Wow! What a sad day for a very special marketplace to close its door for ever. Though since last two decades I have lived in USA but on my visit to Pakistan I would always visit Agha's Super Market. Who can provide this service that you can ask them to get this thing from there and they will do it. I used to live in PECHS but would always like to go to Aghas for any imported item. I will never forget one of the owners generous gesture when I went to purchase the last edition of a foreign newspaper and they were out but the owner handed me his own copy. Incidentally I still have that copy of Newspaper.

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024