• KHI: Fajr 5:33am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:11am Sunrise 6:36am
  • ISB: Fajr 5:18am Sunrise 6:45am
  • KHI: Fajr 5:33am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:11am Sunrise 6:36am
  • ISB: Fajr 5:18am Sunrise 6:45am

’کے ٹو‘ حادثہ: وہ سوالات جن کے جواب کھوجنے ہوں گے!

شائع February 19, 2021

ایک بڑے آپریشن کے بعد سرکاری اور باضابطہ طور پر ’کے ٹو‘ تسخیر کی سرمائی مہم میں لاپتا ہونے والے محمد علی سدپارہ اور دیگر 2 کوہ پیماؤں جان اسنوری اور جے پی موہر کی موت کا اعلان کردیا گیا ہے۔ 5 فروری کو لاپتا ہونے والے ان کوہ پیماؤں پر کیا گزری اور وہ کس حادثے سے دوچار ہوئے، اس بارے میں یقیناً کوئی حتمی طور پر نہیں بتا سکتا۔

تاہم تجربہ کار کوہ پیما اپنے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اور دستیاب معلومات کی بنیاد پر جو رائے قائم کر رہے ہیں اس پر متعلقہ اداروں کو سنجیدگی سے تحقیق کی ضرورت ہے۔ آیا یہ کوئی حادثہ تھا یا اس کے پیچھے کوئی سازش یا غفلت تھی اس کا تعین بہت ضروری ہے۔

اس حادثے (اگر ہے تو) میں 3 انسانوں نے اپنی قیمتی جانیں گنوائیں اور ساتھ ہی پاکستان میں کوہ پیمائی یا سیاحت کے شعبے کو بھی ایک بڑا دھچکا لگا۔ ایسے واقعات کی شفاف انکوائری ہی پاکستان میں سیاحت کی صنعت کی بہتری اور اس قسم کے حادثات کی روک تھام کی ضمانت ہوسکتی ہے۔

اس حوالے سے ہماری کئی کوہ پیماؤں سے بات ہوئی، وہ سب اس پر متفق ہیں کہ اس ساری مہم میں بہت سے واقعات غیر معمولی، غیر متوقع یا مشکوک کہے جاسکتے ہیں جن کی تحقیقات بہت ضروری ہیں۔

مزید پڑھیے: کوہ پیمائی کے آسماں پر امر سدپارہ کے ستارے!

رسی کا تنازع کیا ہے؟

پاکستان کے ایک سینئر عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما نذیر صابر نے ‘کے ٹو‘ اور ماؤنٹ ایوریسٹ سمیت دنیا کی کئی بلند چوٹیاں کامیابی سے سر کی ہیں اور ان کے کارناموں پر حکومتِ پاکستان نے انہیں تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا ہے۔

نذیر سب سے پہلے نیپالیوں کی لگائی گئی رسی کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہیں۔ ایک ویڈیو میں وہ واضح طور پر کہتے نظر آتے ہیں کہ نیپالیوں نے جو رسی لگائی تھی وہ اس کا ایک ایک انچ اتار کر واپس لے گئے تھے۔ محمد علی سدپارہ کی ٹیم میں کون تھا جو یہ رسی لگاتا؟ جان اسنوری فراسٹ بائٹ کا شکار تھا، موہر اتنا تجربہ کار نہ تھا جو اتنی اونچائی پر رسی لگاتا، ساجد واپس آچکا تھا، اکیلا علی کیا کیا کرتا؟ نذیر صابر کے تجربے کو دیکھتے ہوئے یقیناً ان کی بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

ایک اور کوہ پیما اور محقق عمران حیدر تھہیم نے انتہائی تفصیل سے رسی کے حوالے سے تمام امکانات کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر نیپالی کوہ پیماؤں کے رسی نہ لگانے سے متعلق فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں تو رسی لگانے سے متعلق بھی تو کوئی ٹھوس ثبوت کسی کے پاس نہیں ہیں۔ ساجد سدپارہ کے پاس صرف 8200 میٹر تک کی معلومات ہیں اس سے آگے کیا ہوا ہوگا اس کا اسے بھی علم نہیں ہے‘۔

کیا نیپالیوں کے اس دعوے کو من و عن تسلیم کر لینا چاہیے کہ انہوں نے رسی لگائی تھی؟

یہ رسی کہاں لگتی ہے؟

عمران حیدر کہتے ہیں کہ ’جتنے بھی بڑے پہاڑ ہیں ان پر ساز و سامان کے استعمال کے بغیر کوہ پیمائی ناممکن ہوتی ہے۔ سب سے پہلے کوہ پیماؤں کی حفاظت کے لیے بیس کیمپ سے چوٹی تک مختلف ٹکڑوں میں مضبوط رسی لگائی جاتی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوہ پیما کی لائف لائن رسی لگا کر بنائی گئی ایک فکسڈ لائن ہوتی ہے۔ پہاڑ کی اونچائی کو مدنظر رکھ کر ایک کیمپ سائٹ سے دوسری کیمپ سائٹ تک نہایت مضبوطی سے ایک فکسڈ لائن لگائی جاتی ہے جس پر حفاظت کے ساتھ کوہ پیما چڑھائی کرتے ہیں۔ یہ فکسڈ لائن منجھے ہوئے کوہ پیما لگاتے ہیں جنہیں lead climber کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اس کام کے خصوصی کورسز کیے ہوتے ہیں۔

’کے ٹو‘ جیسے مشکل اور خونی پہاڑ کی مہم جوئی کرنے والے تقریباً تمام کوہ پیما لازمی طور پر اتنے تربیت یافتہ ہوتے ہیں کہ وہ ضرورت پڑنے پر فکسڈ لائن خود لگانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ ماؤنٹ ایوریسٹ پر کوئی اور غیر تربیت یافتہ کوہ پیما بھی محض فٹنس کے بل بوتے پر کلائمبنگ کرسکتا ہے لیکن ’کے 2‘ پر ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ صرف تربیت یافتہ کوہ پیما ہی یہاں کامیاب ہوسکتا ہے۔

اس سال ’کے ٹو‘ پر آئی ہوئی ٹیموں میں سب سے پہلے جان اسنوری اور علی سدپارہ کی ٹیم نے ABC (ایڈوانس بیس کیمپ) یعنی 5300 میٹر سے کیمپ 3 یعنی 7300 میٹر تک 5 دسمبر سے 13 جنوری کے درمیان رسی لگائی اور اسی دوران خود کو موسم اور اونچائی سے بھی ہم آہنگ کرتے رہے (اوپر جاتے رہے، نیچے آتے رہے)۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر جان اسنوری نے 14 جنوری کی پہلی ویدر ونڈو (بہتر موسم) کو استعمال نہیں کیا اور چوٹی کی جانب آگے نہیں بڑھے (جان سنوری کا ماضی میں نیپالی شرپاؤں سے جھگڑا ریکارڈ پر ہے)۔ جبکہ نیپالی ٹیم نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر 16 جنوری کو چوٹی سَر کرکے ریکارڈ بنالیا۔

فکسڈ لائن ایک مضبوط رسی ہوتی ہے جس کے سہارے کوہ پیما چڑھائی کرتے ہیں
فکسڈ لائن ایک مضبوط رسی ہوتی ہے جس کے سہارے کوہ پیما چڑھائی کرتے ہیں

اس سال علی سدپارہ اور جان اسنوری نے ABC سے 7300 میٹر تک خود فکسڈ لائن لگائی
اس سال علی سدپارہ اور جان اسنوری نے ABC سے 7300 میٹر تک خود فکسڈ لائن لگائی

فکسڈ لائن کی تنصیب کا جائزہ لیں تو دستیاب معلومات کے مطابق ABC سے کیمپ 3 تک علی سدپارہ کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن کو باقی تمام کوہ پیماؤں نے استعمال کیا جبکہ وہاں (7300 میٹر) سے آگے 8611 میٹر یعنی ’کے ٹو‘ کی چوٹی تک جتنی بھی فکسڈ لائن لگانی تھی اسے نیپالی شرپاؤں نے اپنے ذمے لیا تھا۔ تمام 10 شرپاؤں نے اپنے اپنے حصے تقسیم کرلیے تھی۔ اس ضمن میں یقیناً سب کوہ پیماؤں کی باہمی رضامندی شامل ہوگی۔

عمران حیدر کہتے ہیں کہ ’مجھے قوی یقین ہے کہ نیپالی شرپاؤں نے علی سدپارہ کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن جان اسنوری سے یہ کہہ کر استعمال کی ہوگی کہ کیمپ 3 سے آگے جو فکسڈ لائن ہم لگائیں گے وہ آپ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ لہٰذا فکسڈ لائن کے معاملے میں یہ باہمی تعاون زبانی طور پر طے کیا گیا ہوگا۔ جبھی تو جان اسنوری نے ایک مرتبہ بات چیت کے دوران بتایا تھا کہ ڈیتھ زون کے لیے مجھ سے نیپالی شرپا Nims Dai نے 700 میٹر رسی لی تھی اور ہم وہی فکسڈ لائن استعمال کریں گے۔ اب چونکہ جان اسنوری ٹیم ڈیتھ زون میں لاپتا ہوئی ہے لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ وہ نیپالیوں کی لگائی ہوئی فکسڈ لائن کے رحم و کرم پر ہی تھے۔

سردیوں میں پہلی مرتبہ ’کے 2‘ سر کرنے والے نیپالی کو پیما
سردیوں میں پہلی مرتبہ ’کے 2‘ سر کرنے والے نیپالی کو پیما

یہ بات تو طے ہے کہ کیمپ 3 سے بوٹل نیک تک لازمی فکسڈ لائن لگی ہوئی تھی کیونکہ اگر نہ لگی ہوتی تو ساجد سدپارہ بتا دیتے کہ رسی نہیں لگی تھی۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ کیمپ 3 سے 8200 میٹر تک جہاں پر وہ محمد علی سدپارہ ٹیم کو چھوڑ کے واپس آگئے تھے فکسڈ لائن موجود تھی۔

اس کے بعد 2 اہم سوال جنم لیتے ہیں۔

پہلا سوال یہ کہ کیا بوٹل نیک سے آگے فکسڈ لائن تھی یا نہیں؟ اور کہیں اس فکسڈ لائن یعنی رسی کو واپسی پر اتار تو نہیں لیا گیا تھا؟

محمد علی سدپارہ اور ساتھی اب دنیا میں نہیں ہیں لہٰذا ان دونوں سوالوں کے جواب اب صرف نیپالیوں کے پاس ہیں۔ ساجد سدپارہ کے پاس اس کا جواب ہرگز نہیں ہے کیونکہ وہ 8250 میٹر سے آگے نہیں گئے اور جہاں سے ساجد سدپارہ واپس ہوئے وہاں سے چوٹی تک کی فکسڈ لائن نظر نہیں آتی۔ یہ جاننے کے لیے وہیں جانا پڑتا ہے اور ظاہر ہے کہ وہاں تک وہ گئے نہیں۔

اب فرض کرتے ہیں کہ بوٹل نیک سے آگے فکسڈ لائن لگائی ہی نہیں گئی تھی اور نیپالیوں نے وہاں سے چوٹی تک فری کلائمب یعنی فکسڈ لائن کے بغیر چڑھائی کی، تو کیا یہ ممکن ہے؟

جی ہاں یہ ممکن ہے۔ بعض اوقات بوٹل نیک سے اوپر تازہ برف یا پاؤڈر اسنو موجود ہوتی ہے جس پر چڑھنا آسان ہوتا ہے۔ تجربہ کار کوہ پیما وہاں سے بغیر فکسڈ لائن کے نکل جاتے ہیں۔ لیکن یہ بہت کم ہوتا ہے کیونکہ عموماً اس مقام پر بِلو آئس یعنی پکی برف ہوتی ہے جس پر پاؤں مشکل سے ٹکتے ہیں لہٰذا پھسلنے سے بچنے کے لیے فکسڈ لائن ضروری ہوتی ہے۔

امکان یہ بھی ہے کہ 16 جنوری کو جب نیپالیوں نے چوٹی سَر کی تو انہیں وہاں نرم برف ملی چنانچہ انہوں نے فکسڈ لائن نہیں لگائی۔ اس ضمن میں نیپالیوں کی مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ روسی کوہ پیما اربکو ڈینس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’نیپالی اس وقت خوش قسمت ترین ہیں کہ انہیں بوٹل نیک سے آگے نرم برف ملی، مجھے تو ہمیشہ بِلو آئس ہی ملتی رہی ہے‘۔

ہوسکتا ہے کہ نیپالیوں کو بوٹل نیک پر پاؤڈر اسنو ملی ہو جس پر چڑھنا آسان ہوتا ہے
ہوسکتا ہے کہ نیپالیوں کو بوٹل نیک پر پاؤڈر اسنو ملی ہو جس پر چڑھنا آسان ہوتا ہے

اب ان 2 باتوں میں سے صرف ایک بات سچ ہوسکتی ہے کہ نیپالیوں نے بوٹل نیک سے آگے فکسڈ لائن لگائی ہی نہیں یا پھر پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما نذیر صابر صاحب کی یہ بات درست ہے کہ نیپالیوں نے عارضی طور پر رسی لگائی اور واپسی پر اتار لی اور یہ بات محمد علی سدپارہ کی ٹیم کو نہیں بتائی حالانکہ رسی ان ہی سے لی گئی تھی اور وہ کیمپ 4 تک محمد علی سدپارہ کی فکسڈ لائن استعمال کرچکے تھے۔ ان کی یہ بددیانتی اب ایک جرم بن چکی ہے جس میں 3 تجربہ کار کوہ پیما اپنی جان گنوا چکے ہیں لہٰذا اس حوالے سے نیپالیوں سے پوچھ گچھ ضروری ہے۔

مزید پڑھیے: جب ’کے 2‘ سرنگوں ہوا

اب اس صورتحال میں یہی لگتا ہے کہ جب سدپارہ اور جان اسنوری ٹیم وہاں پہنچی تو انہیں مجبوراً رسی کے بغیر فری کلائمب کرنا پڑی اور اس کے نتیجے میں امکان ہے کہ وہ پھسل کر گرگئے۔

اس امکان کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جب بوٹل نیک سیکشن پر ٹیم پہنچی تو یقیناً علی سدپارہ ٹیم کی قیادت کر رہے ہوں گے اور انہوں نے اس انتہائی خطرناک صورتحال کو بھانپ لیا اور دوسری جانب ساجد سدپارہ پہلے ہی آکسیجن کی کمی کے باعث ہذیانی کیفیت کے زیرِ اثر تھے اور ان کا آکسیجن سلینڈر بھی کام نہیں کررہا تھا تو محمد علی سدپارہ نے بیٹے کی حفاظت کے پیش نظر اسے واپس بھیج دیا۔ باپ کے حکم پر ساجد سدپارہ نے واپسی شروع کردی اور کیمپ 3 پر پہنچ کر جب ان کی طبیعت بہتر ہوئی تو انہوں نے نیچے بیس کیمپ پر رابطہ کیا۔

ان تمام مفروضات کے حق میں فی الحال کوئی ٹھوس ثبوت کسی کے پاس نہیں ہیں لیکن اگر اس حوالے سے باقاعدہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کی جائے تو حقائق سامنے آسکتے ہیں۔

نیپالی کمپنی کے ناقص انتظامات

نیپالی کمپنی سیون سمٹ ٹریکس پاکستان میں اتنی بڑی تعداد میں کلائنٹ لے تو آئی لیکن کیا اس حوالے سے انتظامات کا جائزہ لیا گیا تھا کہ کیا اس سال مہم جوئی پر آئی تمام ٹیموں کے کل 60 کے قریب کوہ پیماؤں کے لیے ایسے شدید ترین موسم میں انتظامات مکمل ہیں یا نہیں؟ کیونکہ ’کے ٹو‘ کی 2 کیمپ سائٹس یعنی C1 اور C2 پر زیادہ سے زیادہ 7 یا 8 خیمے نصب کرنے کی جگہ ہے جہاں اگر 60 کوہ پیما ایک ساتھ چڑھ جائیں گے تو ان کا وہاں قیام ناممکن ہوجائے گا لیکن اگر موسم بہتر ہوگا اور تمام کوہ پیما اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اوپر آجائیں گے تو ایسی صورت میں صرف حادثہ ہی ہوسکتا ہے جو ہوا۔

اب آتے ہیں محمد علی سدپارہ ٹیم کی جانب۔ 4 فروری کے دن ان کی مہم جوئی جاری رہی اور اسی شام اطلاع ملتی ہے کہ 3 مختلف ٹیموں کے 30 کے قریب کوہ پیما کیمپ 3 پر 7300 میٹر کی بلندی پر پہنچ چکے ہیں لیکن حیران کن طور پر وہاں نیپالی کمپنی سیون سمٹ ٹریکس کی جانب سے خیمے نصب نہیں تھے اور صرف 3 خیموں میں 25 کوہ پیماؤں کا ٹھہرنا ناممکن تھا۔ اتنی بلندی پر کھلے آسمان تلے بغیر خیمے کے اور بغیر آرام کیے رات کے وقت آخری مرحلے کے لیے نکلنا ایک ناممکن اور جان لیوا کام تھا۔

’کے ٹو‘ کی کیمپ سائٹس پر چند خیمے لگانے کی ہی جگہ موجود ہے
’کے ٹو‘ کی کیمپ سائٹس پر چند خیمے لگانے کی ہی جگہ موجود ہے

ادھر خیمے میں جان اسنوری، علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ آرام کررہے تھے جنہیں اسی رات 11 بجے یعنی 4 اور 5 فروری کی درمیانی رات چوٹی کی جانب پیش قدمی کرنی تھی۔ 7300 میٹر پر اس خطرناک صورتحال کے سبب جان اسنوری نے انسانی ہمدردی کی بنا پر خاتون کوہ پیما تمارا لونگر اور جے پی موہر کو پناہ دی جبکہ باقی یورپی کوہ پیما اور شرپا واپس اترنے لگے۔ بعد ازاں خاتون تمارا لونگر واپس پلٹ گئی جبکہ موہر محمد علی کی ٹیم کا حصہ بن گیا۔ لیکن اس اہم رات کو کہ جس میں چوٹی کی جانب پیش قدمی کرنی تھی، جان اسنوری اور علی سدپارہ ٹیم کو انسانی ہمدردی کے تحت اپنے خیمے میں گنجائش سے زیادہ لوگوں کو پناہ دینا پڑی جس کے باعث وہ مناسب آرام نہ کرسکے۔ ممکن ہے اگلے دن اسی بے سکونی اور تھکاوٹ کی وجہ سے وہ گرپڑے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس سنگین کوتاہی کی ذمے دار سیون سمٹ ٹریکس نامی نیپالی کمپنی ہے۔ اسی کمپنی کی کوتاہی اور کیمپ 3 پر خیموں کی کمی کے باعث 3 کوہ پیما فراسٹ بائٹ کا شکار ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک بلغاری کوہ پیما حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

بلغارین کوہ پیما اَتاناس اسکاتوف کے ساتھی نے بلغارین ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ اَتاناس رسی ٹوٹ جانے کے باعث گر کر جاں بحق ہوا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اس کوتاہی کے ذمے دار سیون سمٹ ٹریکس کے شرپا ہی ہیں جنہوں نے رسی یا تو لگائی ہی نہیں اور اگر لگائی تو اس کی گنجائش کوہ پیماؤں کی تعداد کے مطابق نہیں تھی۔ اس کی تحقیق بھی ضروری ہے۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جس طرح کیمپ 3 تک رسی متاثرہ تھی کہیں اسی طرح ڈیتھ زون سے اوپر والی فکسڈ لائن بھی بوسیدہ یا بیکار تو نہیں تھی؟ یا جان بوجھ کر خراب کردی گئی تھی تاکہ نیپالی کوہ پیماؤں کے بعد کم از کم اس سال کوئی اور چوٹی سر نہ کرسکے یوں کامیابیوں کا تاج ان ہی کے سر سجا رہے اور ’کے ٹو‘ کو موسمِ سرما میں سَر کرنے کی کامیابی اور شہرت صرف نیپالیوں کے حصے میں آئے تاکہ وہ پاکستان میں بھی کوہ پیمائی کی صنعت پر قابض ہوکر اپنے کاروبار کو دوام بخشیں جس طرح وہ نیپال میں کر رہے ہیں۔

اس رائے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جان اسنوری کی پہلے سے ہی ان نیپالی شرپاؤں کے ساتھ ناراضگی چل رہی تھی۔

محمد علی سدپارہ کوہ پیمائی کے جنون میں اب امر ہوچکے ہیں لیکن اس حادثے کے پیچھے اگر کوئی سازش تھی تو اسے ضرور سامنے آنا چاہیے۔ اگر کوئی نیپالی کمپنی مجرمانہ اور پیشہ وارانہ غفلت کی مرتکب ہوئی ہے تو مستقبل میں اس پر پاکستان میں کام کرنے پر پابندی عائد کرکے تادیبی کارروائی کی جانی چاہیے۔ قوم منتظر ہے کہ اس کے ہیرو محمد علی سدپارہ کو انصاف ملے۔

شبینہ فراز

شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (9) بند ہیں

nk Feb 19, 2021 08:04pm
A very good investigative article
nasr Feb 20, 2021 01:05am
Excellent. Good points were raised.
Ghulam Mustafa Feb 20, 2021 01:47am
انتہائی فکر انگیز تجزیاتی تحریر۔۔۔۔ اس میں اٹھائے گئے تمام سوالات حکومت پاکستان سے کے ٹو پر محمدعلی سدپارہ اور ٹیم کے ساتھ ہونے والے حادثے کی جامع انکوائری کروانے کا تقاضہ کرتے ہیں۔
عثمان ارشد ملک Feb 20, 2021 04:24am
آپ نے مختلف پہلو ؤں پر روشنی ڈال کر ایک قابل ستائش کام کیا ہے ۔ لازمی طور پر تمام محرکات کا جائزہ لینا نہایت ضروری ہے ۔ مجھے بھی کچھ نیپالیوُ ں کے ساتھ وقت گزارنے کا تجربہ ہے ۔ یہ قابل بھروسہ نہیں ہوتے ۔ اور اخلاقی طور پر بھی کوئی اچھے نہیں ہوتے ۔
Ansari Feb 20, 2021 09:09am
Another conspiracy theory!!! If their was no fixed line and it was blue ice the trained Climbers would have returned! Sad on reading chain of accusation merely on assumptions
عثمان ارشد ملک Feb 20, 2021 04:51pm
Conspiracy theories need some facts to be found, You always work on theories for facts be be checked
nasr Feb 21, 2021 12:36am
Read it carefully, no assumption but solid questions are being raised.
Ghulam Mustafa Feb 22, 2021 12:17am
Not only the possibility of the absence of a fixed line but also the poor arrangements made by the Nepali company for the climbers and many other suspicious things have been pointed out here. Was everything just a coincidence? What's wrong with making an inquiry?
HumanThinking Feb 22, 2021 08:07am
Very valid questions! People lost lives. It could be an accident but if it was not an accident? How can humans do that if they really did?

کارٹون

کارٹون : 20 نومبر 2024
کارٹون : 19 نومبر 2024