پاک فوج کا لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کیلئے انفراریڈ کیمرے استعمال کرنے کا اعلان
اسکردو کا موسم معمولی سا بہتر ہونے پر لاپتا کوہ پیماؤں محمد علی سد پارہ، جان اسنوری اور جان پابلو موہر کو تلاش کرنے کی کوششوں کی آج بحالی کی اُمید ہے۔
اس سرچ آپریشن میں سی-130 طیارے کے ذریعے سد پارہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے 4 قلیوں، جو کوہ پیماؤں کے ساتھ سامان لے جانے کا کام کرتے ہیں، کے علاوہ خصوصی فارورڈ لُکِنگ انفراریڈ (ایف ایل آئی آر) کا استعمال کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ اس علاقے کا خراب موسم گزشتہ 4 روز سے کے-2 سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتا ہوجانے والے کوہ پیماؤں کی تلاش میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:موسم کی خراب صورتحال، لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش میں حائل
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے جاری بیان کے مطابق 'تلاش کے دوران ایف ایل آئی آر استعمال کیا جائے گا، اگر ایف ایل آئی آر مشن کے دوران کسی جگہ کی نشاندہی ہوتی ہے تو بلندی پر چڑھنے والے کوہ پیماؤں کو گراؤنڈ پر تلاشی کے لیے مشن میں شامل کیا جائے گا'۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ قومی ہیرو محمد علی سد پارہ اور آئس لینڈ کے جان اسنوری اور جے پی موہر پر مشتمل ان کی بہادر ٹیم کو تلاش کرنے کے لیے تمام کوششیں تیز کردی گئی ہیں'۔
خیال رہے کہ ایف ایل آئی آر کیمروں میں موجود سینسرز انفراریڈ ریڈی ایشن کا پتا چلا کر اسے تصویر میں بدل سکتے ہیں۔
الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری نے کہا کہ ان کے 4 پہاڑی قلی صادق سد پارہ، علی محمد سد پارہ، علی رضا سد پارہ اور دلاور سدپارہ اسکردو میں ہیں اور وہ سرچ مشن کا حصہ ہوں گے۔
مزید پڑھیں: محمد علی سد پارہ سمیت 3 کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل روک دیا گیا
انہوں نے مزید بتایا کہ 'صادق اور علی محمد دونوں کو 8 ہزار میٹر بلند پہاڑوں پر چڑھنے کا تجربہ ہے اور وہ اس موسم کے عادی ہوگئے ہیں جو ضرورت پڑنے پر بیس کیمپ سے اوپر چلے جائیں گے۔
خیال رہے کہ آخری مرتبہ کے-2 پہاڑ کے مقام' بوٹل نیک' پر دیکھے گئے محمد علی سد پارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیماؤں کی تلاش کا مشن مسلسل خراب موسم سے متاثر ہورہا ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جان پابلو موہر سے اس وقت رابطہ منقطع ہوگیا تھا جب انہوں نے 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب بیس کیمپ تھری سے کے-ٹو کی چوٹی تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کیا تھا۔
محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ بھی 'بوٹل نیک' (کے ٹو کا خطرناک ترین مقام) کے نام سے مشہور مقام تک ان تینوں کوہ پیماؤں کے ہمراہ تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر میں مسائل کے سبب کیمپ 3 پر واپس آئے تھے۔
مزید پڑھیں: سخت موسم کے باعث لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کا فضائی آپریشن پھر معطل
تینوں کوہ پیماؤں کا جمعے کی رات کو بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوا اور ان کی ٹیم کو جب ان کی جانب سے رپورٹ موصول ہونا بند ہوگئی تو ہفتے کو وہ لاپتا قرار پائے تھے۔
ہفتے کے روز ہیلی کاپٹروں نے لاپتا کوہ پیماؤں کا سراغ لگانے کے لیے 7000 میٹر تک پرواز کی تھی لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔
اتوار کے روز آرمی کے ہیلی کاپٹرز نے حد سے بڑھ کر 7 ہزار 800 میٹر کی بلندی تک پرواز کی لیکن لاپتا کوہ پیماؤں کا سراغ نہ مل سکا اور مشن معطل کرنا پڑا۔
پیر کے روز بھی شدید موسمی حالات اور حدِ نگاہ کم ہونے کے باعث مشن معطل کیا گیا۔
اسی طرح منگل کے روز تیز ہواؤں کے جھکڑ چلنے اور برف باری کی وجہ سے مشن معطل رہا جبکہ بدھ کو بھی تیز ہوائیں اور موسم کی خراب صورتحال کے باعث تلاش اور ریسیکو کے مشن نہ کیا جاسکا۔
یہ بھی پڑھیں: سخت موسم کے باعث 'کے ٹو' پر لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش تاحال جاری
ابتدا میں تلاش او ریسکیو مشن میں بلندو بالا چوٹیاں سر کرنے والے مقامی کوہ پیماؤں میں شمشال سے فضل علی اور جلال، اسکردو سے امتیاز حسین اور اکبر علی، رومانیہ کے الیکس گوان، نذیر صابر، چھانگ داوا شیرپا اور موسم سرما میں کوہ پیمائی کرنے والی ایس ایس ٹی ٹیم کے دیگر اراکین شامل تھے۔
اس حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ جیسے ہی موسم بہتر ہوگا تینوں کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے گا اور فوج کی جانب سے تمام وسائل متحرک کردیے گئے ہیں۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ تمام فضائی اور زمینی کوششیں کی جارہی ہیں، ساتھ ہی اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ موسم کی سخت صورتحال اور بلندی پر ہونے کی وجہ سے مشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں:کوہ پیمائی کے آسماں پر امر سدپارہ کے ستارے!
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جان پابلو موہر موسمِ سرما میں کے-ٹو سر کرنے کی دوسری مہم کے دوران لاپتا ہوئے۔
اس سے قبل 24 جنوری کو محمد علی سدپارہ، ساجد علی سدپارہ اور جان اسنوری نے کو کے -ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا لیکن 25 جنوری کی دوپہر کو 6 ہزار 831 میٹرز پر پہنچنے کے بعد موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے انہوں نے مہم چھوڑ کر بیس کیمپ کی جانب واپسی کا سفر شروع کیا تھا اور فروری میں دوبارہ کے-ٹو سر کرنے کی مہم کا اعلان کیا تھا۔