لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کیلئے 6 رکنی ٹیم تشکیل
کے-2 پہاڑ کو موسم سرما میں سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتا ہونے والے کوہ پیماؤں محمد علی سد پارہ، جان اسنوری اور جان پابلو مہر کی تلاش کے لیے گلگت بلتستان سے 6 رکنی ٹیم تشکیل دی جارہی ہے۔
دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) اپنے بیان میں واضح کرچکا ہے کہ سرچ ٹیمیں اسٹینڈ بائے ہیں اور جیسے ہی موسم میں بہتری ظاہر ہوگی مشن آگے بڑھایا جائے گا۔
ایک روسی کوہ پیمائی سے متعلق بلاگ میں مختلف دھندلی تصاویر پوسٹ کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ 'لاپتا کوہ پیماوں کے حوالے سے آئس لینڈ کے ایرواسپیس ایجنسی کی تصاویر تلاش میں نمایاں مدد گار ہوسکتی ہیں اور تصاویر واضح کرتی ہیں کہ وہاں کیا ہوا'۔
یہ بھی پڑھیں: محمد علی سد پارہ سمیت 3 کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل روک دیا گیا
الپائن کلب آف پاکستان (اے سی پی) کے سیکریٹری کرار حیدری نے بتایا کہ بلندی پر چڑھنے والے چند ماہر کوہ پیماؤں کو منتخب کیا جارہا ہے اور امکان ہے کہ ٹیم کو کل بیس کیمپ کی طرف روانہ کردیا جائے گا۔
اس سلسلے میں ایک اجلاس ڈی سی اسکردو آفس میں ہوا جس میں ساجد سدپارہ بھی موجود تھے۔
انہوں نے بتایا کہ غمزدہ کنبہ کو بتایا گیا ہے کہ ساجد سرچ آپریشن کا حصہ ہوں گے۔
اے سی پی کے عہدیدار نے کہا کہ ساجد کو اسکردو میں رکھنے کی بنیادی وجہ رابطہ قائم رکھنا ہے کیونکہ سدپارہ میں فون کے سگنل بہت خراب ہیں۔
دریں اثنا کوہ پیمائی برادری کے ممبران اور اے سی پی نے میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین پر زور دیا کہ وہ لاپتاکوہ پیماؤں کے خاندانوں خصوصاً محمد علی سدپارہ کا احترام کریں اور جعلی یا غیر تصدیق شدہ اطلاعات کو شیئر کرنے سے گریز کریں۔
ایک فیس بک پوسٹ میں لاپتا کوہ پیماہ جان سنوری کی اہلیہ لینا مئے نے کہا کہ انہیں اب بھی امید ہے کہ ان کا شوہر بحفاظت گھر واپس آجائے گا۔
مزید پڑھیں: کے ٹو سر کرنے کے خواہشمند بلغارین کوہ پیما گر کر ہلاک
انہوں نے کہا کہ 'میں نے ہار نہیں مانی اور جانتی ہوں کہ معجزے کی گنجائش باقی ہے کیونکہ ابھی ہفتہ ختم نہیں ہوا ہے اوران کا کیمپ ہفتہ تک کھلا رہے گا'۔
ان کا کہنا تھا کہ جان سنوری کو جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ کتنی ہمت والے ہیں اور میں امید کرتی ہوں کہ وہاں موجود زیادہ سے زیادہ لوگ مجھے حوصلہ دیں۔
خیال رہے کہ آخری مرتبہ کے-2 پہاڑ کے مقام' بوٹل نیک' پر دیکھے گئے محمد علی سد پارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیماؤں کی تلاش کا مشن مسلسل خراب موسم سے متاثر ہورہا ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جان پابلو موہر سے اس وقت رابطہ منقطع ہوگیا تھا جب انہوں نے 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب بیس کیمپ تھری سے کے-ٹو کی چوٹی تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کیا تھا۔
محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ بھی 'بوٹل نیک' (کے ٹو کا خطرناک ترین مقام) کے نام سے مشہور مقام تک ان تینوں کوہ پیماؤں کے ہمراہ تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر میں مسائل کے سبب کیمپ 3 پر واپس آئے تھے۔
تینوں کوہ پیماؤں کا جمعے کی رات کو بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوا اور ان کی ٹیم کو جب ان کی جانب سے رپورٹ موصول ہونا بند ہوگئی تو ہفتے کو وہ لاپتا قرار پائے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سخت موسم کے باعث 'کے ٹو' پر لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش تاحال جاری
ہفتے کے روز ہیلی کاپٹروں نے لاپتا کوہ پیماؤں کا سراغ لگانے کے لیے 7000 میٹر تک پرواز کی تھی لیکن کوئی سراغ نہ مل سکا۔
اتوار کے روز آرمی کے ہیلی کاپٹرز نے حد سے بڑھ کر 7 ہزار 800 میٹر کی بلندی تک پرواز کی لیکن لاپتا کوہ پیماؤں کا سراغ نہ مل سکا اور مشن معطل کرنا پڑا۔
پیر کے روز بھی شدید موسمی حالات اور حدِ نگاہ کم ہونے کے باعث مشن معطل کیا گیا۔
اسی طرح منگل کے روز تیز ہواؤں کے جھکڑ چلنے اور برف باری کی وجہ سے مشن معطل رہا، گزشتہ روز پاکستانی کوہ پیما اور اسکیئر کریم شاہ نذیری نے کہا تھا کہ پاک فوج آج تلاش کے لیے اپنا سی-130 طیارہ روانہ کرے گی جو 8 ہزار میٹر کی بلندی تک پرواز کر سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ 'فضائی نگرانی کی جائے گی لیکن یہ سب موسم پر منحصر ہے، اگر پہاڑ کی حدِ نگاہ ہوئی تو طیارہ پرواز کرے گا، اور کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے تصاویر لی جائیں گی اور سینسرز کا استعمال کیا جائے گا۔
تلاش او ریسکیو مشن میں بلندو بالا چوٹیاں سر کرنے والے مقامی کوہ پیماؤں میں شمشال سے فضل علی اور جلال، اسکردو سے امتیاز حسین اور اکبر علی، رومانیہ کے الیکس گوان، نذیر صابر، چھانگ داوا شیرپا اور موسم سرما میں کوہ پیمائی کرنے والی ایس ایس ٹی ٹیم کے دیگر اراکین شامل تھے۔
اس حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ایک عہدیدار نے گزشتہ روز کہا تھا کہ جیسے ہی موسم بہتر ہوگا تینوں کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے گا اور فوج کی جانب سے تمام وسائل متحرک کردیے گئے ہیں۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ سرچ اور ریسکیو کا مشن چوتھے روز میں داخل ہوگیا ہے اور تمام فضائی اور زمینی کوششیں کی جارہی ہیں، ساتھ ہی اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ موسم کی سخت صورتحال اور بلندی پر ہونے کی وجہ سے مشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔
مزید پڑھیں:کوہ پیمائی کے آسماں پر امر سدپارہ کے ستارے
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جان پابلو موہر موسمِ سرما میں کے-ٹو سر کرنے کی دوسری مہم کے دوران لاپتا ہوئے۔
اس سے قبل 24 جنوری کو محمد علی سدپارہ، ساجد علی سدپارہ اور جان اسنوری نے کو کے -ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا لیکن 25 جنوری کی دوپہر کو 6 ہزار 831 میٹرز پر پہنچنے کے بعد موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے انہوں نے مہم چھوڑ کر بیس کیمپ کی جانب واپسی کا سفر شروع کیا تھا اور فروری میں دوبارہ کے-ٹو سر کرنے کی مہم کا اعلان کیا تھا۔