کابینہ کی گزشتہ سال گندم’ذخیرہ' کرنے پر سندھ پر تنقید
وفاقی کابینہ نے لاکھوں ٹن گندم کی 'ذخیرہ اندوزی' کے ذریعہ گزشتہ سال کے گندم کے بحران میں 'کردار' ادا کرنے پر حکومت سندھ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابینہ وفاقی سیکریٹریٹ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے فیصلے پر نہیں پہنچ سکی اور اس معاملے پر ملازمین کے نمائندوں اور وزیر داخلہ شیخ رشید کے مابین ہونے والی فالو اپ میٹنگ بھی غیر نتیجہ خیز رہی۔
اس کے بعد ملازمین نے بدھ کو (آج) ہڑتال اور اپوزیشن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حمایت سے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے سرکاری اداروں کے سربراہان کے تقریبا 90 عہدوں کے پُر نہ ہونے کا نوٹس لیا اور حکم دیا کہ عہدوں کو سات دن کے اندر پُر کیا جائے۔
اجلاس میں سینیٹ انتخابات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں کھلی رائے شماری کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم لانے کے آرڈیننس پر بھی بات کی گئی۔
مزید پڑھیں: سینیٹ کی نشست کے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں، اسد عمر
کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اجلاس میں حکومت سندھ کی جانب سے 32 ٹن گندم کے '6 سال پرانے اور استعمال کے لیے غیر موزوں' اسٹاک جاری کرنے سے متعلق ایک رپورٹ پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ نے نوٹ کیا کہ حکومت سندھ نے وقت پر گندم جاری نہیں کی اور گندم اور چینی کے ذخیروں کے بارے میں بھی اعداد و شمار کا تبادلہ وفاقی حکومت کے ساتھ نہیں کیا جس کے نتیجے میں مصنوعی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ذخیرہ اندوزی اور گندم کے دستیاب ذخیرے کا ضیاع ہوا جو عوام استعمال کرسکتی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کیا حکومت سندھ لوگوں کو جانوروں کی طرح دیکھتی ہے جنہیں پرانی گندم دی جاسکتی ہے؟'۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'حکومت سندھ نے گندم جمع کر کے گندی سیاست کی تھی اور خیبر پختونخوا حکومت کے خط کے باوجود اس نے ضرورت کے وقت گندم جاری نہیں کی تھی'۔
کابینہ نے پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کو 3 لاکھ ٹن گندم اور 5 لاکھ ٹن چینی کی درآمد سے استثنیٰ کی منظوری بھی دی۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کا بل قومی اسمبلی میں پیش
وزارت داخلہ کے ایک ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کابینہ نے گریڈز کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 1 سے 16 فیصد تک 40 فیصد اضافے پر اتفاق کیا ہے جبکہ ملازمین نے گریڈ 1 سے 22 تک 100 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ 2018 کے بعد سے سرکاری شعبہ کے اداروں میں 56 سربراہ/ سی ای اوز کا تقرر کیا گیا ہے تاہم ابھی تک سربراہ/ سی ای اوز کی 86 آسامیاں خالی ہیں۔
وزیر اعظم نے برہمی کا اظہار کیا اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو تقرریوں میں تاخیر کی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے کابینہ کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
کابینہ نے آئندہ سینیٹ انتخابات پر تبادلہ خیال کیا اور کھلی رائے شماری کے ذریعے ان انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے ایک آرڈیننس متعارف کرانے کے حکومتی فیصلے کی توثیق کی۔
وزیر اعظم عمران خان نے سینیٹ انتخابات میں پی ڈی ایم کو 'کرپشن دوست" نظام کی حمایت کرنے پر تنقید کی اور کہا کہ ان کی حکومت کرپشن اور منی لانڈرنگ کے چکر کو روکنے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے اس معاملے پر ایک ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے ایک ویڈیو بھی دکھائی۔
ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ سینٹ میں سیاست دان ووٹ خریدنے اور بیچنے کا جو شرمناک انداز ویڈیوز میں ظاہر ہورہا ہے یہ سابق حکمران طبقے کی جانب سے قوم کے اخلاقیات کی مکمل تباہی کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ انہوں نے قوم کو قرضوں میں ڈبایا۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بدعنوانی اور منی لانڈرنگ ہماری سیاسی اشرافیہ کی ایک پرانی داستان ہے۔
ویڈیو میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے چند ممبران کے درمیان سینیٹ انتخابات 2018 سے قبل رقم کی تقسیم کو دکھایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت کا اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کیلئے آرڈیننس لانے کا منصوبہ
انہوں نے ریمارکس دیے کہ 'وہ اقتدار میں آنے کے لیے پیسہ خرچ کرتے ہیں اور پھر اس سیاسی قوت کا استعمال کرکے پیسے بناتے ہیں تاکہ بیوروکریٹس، میڈیا اور دیگر فیصلہ سازوں کو خریدا جاسکے تاکہ ٖقوم کی دولت لوٹی جاسکے، منی لانڈرنگ کرکے اسے آف شور اکاؤنٹس میں ڈالے جاسکیں'۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ 'پی ڈی ایم بدعنوانی سے دوچار نظام کی حمایت کر کے اس کی حفاظت کرنا چاہتا ہے، ہم بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے اس چکر کو روکنے کے لیے پرعزم ہیں جو قوم کو بدنام کررہا ہے'۔
کابینہ کو شوگر انکوائری کمیٹی رپورٹ کے بعد اٹھائے گئے اقدامات کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ متعدد شوگر ملز نے عدالتوں سے رجوع کیا ہے اور عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد کارروائی مکمل کی جائے گی۔
کابینہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) سبسڈی کے معاملے پر غور کر رہا ہے۔
اجلاس میں ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2021 کی منظوری دی گئی جس کا مقصد ڈیجیٹل روشن پاکستان اسکیم کے تحت لین دین میں آسانی پیدا کرنا ہے۔
کابینہ کو بتایا گیا کہ اس اسکیم کے ذریعے اب تک 50 کروڑ ڈالر کا لین دین ہوا ہے۔
آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کے ٹاسک فورس کے چیئرمین نے کابینہ کو آئی ٹی اور ٹیلی کام سیکٹر کی ترقی کے لیے پیشرفت سے آگاہ کیا۔
اجلاس میں نان ٹریٹری ممالک سے باہمی قانونی مدد کی درخواستوں کی منظوری بھی دی گئی۔
کابینہ نے کراچی، لاہور، ملتان، پشاور، راولپنڈی، سکھر، حیدرآباد اور کوئٹہ میں 30 اضافی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری دی۔
وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ اضافی احتساب عدالتوں کے قیام کا پہلا مرحلہ ترجیحی بنیاد پر مکمل کیا جائے۔
اجلاس میں مسرور خان کو آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے تقرری کی منظوری دی گئی۔
کابینہ نے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ تجارتی معاہدے میں تین ماہ کی توسیع کی اجازت دی، موجودہ معاہدہ 11 فروری کو ختم ہونے والا ہے۔
اجلاس کو ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر اسمگلنگ پر قابو پانے کے اقدامات کے بارے میں بھی بتایا گیا۔
کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 3 اور 8 فروری کو منعقدہ اجلاس اور 4 اور 8 فروری کو منعقدہ اجلاس میں توانائی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق کی۔
وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرکے 20 سال کے عرصے میں حکومت کو 800 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ ملک کے کسی بھی حصے میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہ کی جائے اور وزیر توانائی کو ہدایت کی کہ وہ تکنیکی وجوہات کی وجہ سے ہونے والی لوڈشیڈنگ کی تحقیقات کریں۔
مسٹر خان نے کابینہ کو آگاہ کیا کہ متعلقہ وزارتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے بالواسطہ ٹیکسز کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے تجاویز پیش کریں۔