کوہ پیمائی کے آسماں پر امر سدپارہ کے ستارے!
بچپن میں خوفناک کہانیوں میں پڑھا کرتے تھے کہ رات کے سناٹے میں دُور سے ایک انجانی لیکن دلفریب آواز کسی کو بلاتی اور لوگ اس آواز پر کشاں کشاں کھنچے چلے جاتے اور موت کو گلے لگالیتے۔ کیا ایسا ہی معاملہ کوہ پیماؤں کے ساتھ بھی ہے؟
کوہساروں کی جان لیوا بلندیاں انہیں آواز دیتی ہیں اور وہ خوشی خوشی نذرانہِ جاں ان کے قدموں میں رکھ کر ہمیشہ کے لیے اس برفانی دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ کوہ پیما محاورتاً نہیں بلکہ حقیقت میں جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنا سفرِ عشق طے کرتے ہیں اور متاع جان کو محبوب کے ایک دیدار پر وار دینے میں دیر نہیں کرتے۔ ان سَر پھروں لیکن منفرد اور مختلف لوگوں کا نام تاریخ کے صفحات میں بہت احترام سے درج کیا جاتا ہے۔
5 فروری2021ء کی صبح تک پاکستان کے عام لوگ کوہ پیمائی اور ’کے ٹو‘ کے بارے میں شاید زیادہ نہیں جانتے تھے، لیکن 5 فروری کی شام تک ہم میں سے ہر ایک کوہ پیمائی کا ماہر بن چکا تھا۔ اپنے ماہرانہ تجزیے کرتے ہوئے لوگ لاپتا ہونے والوں کے لیے بھی فکرمند تھے اور آج جب ان 3 کوہ پیماؤں کو لا پتا ہوئے 4 دن ہوچکے ہیں تو پاکستان کا ہر فرد لاپتا ہونے والے ان کوہ پیماؤں کے لیے دعاگو ہے۔ ان 3 میں سے ایک پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ بھی تھے۔
اس سال دنیا کے 19 ممالک سے 59 کوہ پیما ’کے ٹو‘ سَر کرنے پاکستان پہنچے تھے۔ اس مہم کو ’کے ٹو سیون انٹرنیشنل 2021ء‘ کا نام دیا گیا۔ دنیا بھر میں سَردیوں کے موسم میں کوہ پیمائی کا ایک نیا لیکن خطرناک رجحان دیکھنے میں آرہا ہے اور دنیا کے اکثر کوہ پیما اسے نیا چیلنج سمجھ کر اختیار کر رہے ہیں۔
چند ہفتے قبل تک 8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں موسمِ سَرما میں سَر ہوچکی تھیں حتیٰ کہ بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ بھی لیکن دنیا کی دوسَری بلند چوٹی ’کے ٹو‘ نے انسان کے آگے سَر خم کرنے سے انکار کیا ہوا تھا لیکن انسان کے عزم و حوصلے کے آگے بالآخر پہاڑوں کو ہار ماننا ہی پڑتی ہے اور 16 جنوری 2021ء کا سورج نیپالی کوہ پیماؤں کے لیے مبارک ثابت ہوا اور ’کے ٹو‘ کی چوٹی کو موسمِ سَرما میں انسانی قدموں نے تسخیر کرلیا۔ بلاشبہ یہ ایک شاندار کامیابی تھی لیکن پاکستانیوں کی نظریں ’کے ٹو‘ سَر کرنے والی دوسَری ٹیم پر جمی ہوئی تھیں جن میں 2 پاکستانی بھی تھے۔
موسمِ سَرما میں کے ٹو سَر کرنے والی اس دوسَری ٹیم میں آئس لینڈ کے جان اسنوری، چلی کے پابلو موہر کے ساتھ گلگت بلتستان کے محمد علی سدپارہ اور ان کے بیٹے ساجد سدپارہ بھی شامل تھے۔
دنیا کے سب سے مشکل اور وحشی پہاڑ ’کے ٹو‘ کو سَردیوں میں سَر کرنا دراصل جان ہتھیلی پر رکھنے کے مترادف ہے۔ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر مرنے والوں کی شرح صرف 4 فیصد ہے جبکہ ’کے ٹو‘ پر یہ شرح 29 فیصد ہے۔ اسے سَر کرنے والے 4 میں سے ایک کوہ پیما جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
مہم کے دوران لاپتا ہونے والے محمد علی سدپارہ ایک تجربہ کار کوہ پیما تھے اور انہیں 8 ہزار میٹر سے اونچی 14 میں سے 8 چوٹیاں سَر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ ’کے ٹو‘ کے مشکل ترین حصے بوٹل نیک تک پہنچ چکے تھے۔ یہاں ان کے ہم سفر بیٹے ساجد کے آکسیجن ٹینک کا ریگولیٹر خراب ہوا تو انہوں نے اسے واپس بیس کیمپ کی طرف بھیج دیا۔
آخری بار ان تینوں کو ساجد ہی نے دیکھا تھا اور اس کا کہنا ہے کہ اس کے والد بوٹل نیک سے آگے بڑھ رہے تھے۔ اس کے بعد ان تینوں کا رابطہ بیس کیمپ سے منقطع ہوگیا اور اب تک کوئی نہیں جان سکا کہ ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا۔
ساجد خیر و عافیت سے بیس کیمپ اور اب اپنے گھر اسکردو پہنچ چکے ہیں۔ 3 روز سے آرمی ہیلی کاپٹر سَرچ آپریشن کررہے ہیں جن میں ساجد کے ساتھ سدپارہ کے دیگر کوہ پیما بھی شامل تھے مگر اب تک کوئی خبر نہیں مل سکی۔
پاکستان میں کوہ پیمائی اور سدپارہ گاؤں
پاکستان میں کوہ پیمائی اور سدپارہ گاؤں لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں ہر محلے میں پورٹر اور کوہ پیما موجود ہیں۔ دیوسائی ٹریول کمپنی کے عباس سدپارہ کے مطابق 'اس وقت 8 ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں سَر کرنے والے 20 کوہ پیما سدپارہ گاؤں کے رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوہ پیمائی ہماری گھٹی میں شامل ہے۔ مائیں ہمیں بچپن سے اسی جانب راغب کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ہم بچپن میں کھانا نہیں کھاتے تھے تو ہماری امّاں کہا کرتیں ’کھانا کھالو، کھانا نہیں کھاؤ گے تو ’کے ٹو‘ کیسے سَر کرو گے؟‘
'ہمارے قومی ہیرو مرحوم حسن سدپارہ بھی اسی گاؤں کے تھے۔ انہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ، دوسَری بلند چوٹی ’کے ٹو‘، نانگا پربت، گیشا برم ون اور گیشا برم 2 جبکہ 2007ء میں 'براڈ پیک' کو سَر کیا تھا۔'
براڈ پیک سَر کرنے کے بعد حسن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'اگر مجھے موقع ملا تو میں فخر سے اپنا جھنڈا ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک لے کر جاؤں گا' اور 4 سال بعد حسن سدپارہ کا یہ خواب اس وقت پورا ہوا جب مئی 2011ء میں حسن ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ کر یہ پہاڑ سَر کرنے والے دوسَرے پاکستانی بنے۔ حکومتِ پاکستان نے 2008ء میں انہیں تمغہ برائے حسنِ کارکرگی سے نوازا تھا۔ انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کا مجسمہ اسکردو کے چوک میں نصب کیا گیا ہے۔
سدپارہ گاؤں کی لڑکیاں بھی اب کوہ پیمائی میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ اسی گاؤں کی رہائشی مرضیہ کا کہنا ہے کہ 'ہمارے لیے یہاں کوئی تربیت کا اہتمام نہیں ہے ورنہ ہم بھی اب تک کوئی ریکارڈ بنا چکی ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم گرمیوں میں اپنے جانور چرانے اوپر جن چراگاہوں پر جاتے ہیں وہ 4 ہزار میٹر سے بلند ہوتی ہیں۔ ہم ان بلندیوں کے عادی ہیں۔ ہمیں صرف حکومت ٹریننگ کی سہولت مہیا کردے تو سدپارہ کی لڑکیاں بھی دنیا میں اپنا نام بنا سکتی ہیں'۔
اسکردو سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر سدپارہ جھیل ہے، اسی جھیل سے اس گاؤں کی آبادی شروع ہوجاتی ہے۔ گاؤں کی آبادی تقریباً 4 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ ہمیں 2019ء میں اس علاقے کو تفصیلی طور پر دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ برسبیل تذکرہ سدپارہ جھیل کے بارے میں بھی بتاتے چلیں۔
سدپارہ جھیل
پہلے ہی دن ہم نے 3 بار مختلف اوقات میں اس جھیل کا نظارہ کیا اور دنگ رہ گئے تھے۔ یوں تو کسی بھی جھیل کو آپ جب بھی دیکھیں تو اس میں کچھ نیا ضرور پائیں گے، اور پھر یہ تو سدپارہ تھی، قراقرم کا نگینہ۔
پہاڑوں کے بیچ یہ جھیل ایسے ہی ہے جیسے انگوٹھی میں جڑا کوئی سچا نگینہ۔ آپ حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے پانیوں کا رنگ کیسا ہے۔ پہلے دن جب اس جھیل کو دیکھا تو اس جھیل کے پانیوں نے بلامبالغہ ہمارے سامنے ایک دن میں کئی رنگ بدلے تھے۔ صبح سبز زمرد، سہہ پہر میں چمکیلا سنہری اور شام ڈھلے نیلگوں نیلم۔
عجب فسوں خیز منظر تھا وہ، کائنات کی شاید انوکھی تصویر، ایک فریم میں اتنے رنگ۔ دُور ہمالیہ کے پہاڑوں پر شام ڈھل چکی تھی اور وہ سَرمئی دھند میں گھر گئے تھے جبکہ دوسَری طرف قراقرم پہاڑوں پر ابھی دھوپ ڈھل رہی تھی اور یہ ڈھلتی دھوپ وادی کو سونا کررہی تھی اور ان کے درمیان پیالہ نما جھیل ایک بڑے نیلم کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ سچا نیلم جس کی یہ حسین تراش خراش دست قدرت ہی کو روا تھی۔
سدپارہ گاؤں کے مقامی بزرگ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جھیل کے نیچے ایک سونے کی کان موجود ہے اس لیے دن میں اس کا پانی سنہری اور چمکیلا ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ اس جھیل کے اندر ایک جزیرہ ہے جس میں وہ خفیہ راستہ موجود ہے جو سونے کی کان تک پہنچتا ہے۔ اب یہاں سدپارہ ڈیم بن چکا ہے اور انسانی مداخلت اتنی بڑھ گئی ہے کہ مقامی لوگ اب خود ان کہانیوں پر یقین نہیں کرتے البتہ کچھ بزرگ اس پر اب بھی اصرار کرتے ہیں۔
لیکن اس سدپارہ گاؤں میں اس وقت سوگ کا عالم طاری ہے۔ محمد علی سدپارہ کے گھر کے باہر لوگوں کا جم غفیر موجود ہے۔ لوگ اب بھی پُرامید ہیں کہ شاید کوئی معجزہ رونما ہوجائے۔ محمد علی سدپارہ کا ایک انٹرویو بھی سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر میں کہیں پہاڑوں میں کھو بھی جاؤں گا تو انہی پہاڑوں میں گھر بنا کر کچھ روز گزارا کرلوں گا۔
عام لوگ بہت پُرامید ہیں لیکن کوہ پیمائی کے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اب کسی اچھی خبر کی امید نہیں۔ انہیں ڈھونڈنا تو کار دشوار ہے اگر ان کا کہیں سَراغ ہی مل جائے تو غنیمت ہے۔ خود محمد علی کے بیٹے ساجد جو بوٹل نیک سے واپس آئے ہیں، ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ اب لاشوں کو ڈھونڈنے کا کام کیا جائے۔
’کے ٹو‘ کو خونخوار یا وحشی پہاڑ کہا جاتا ہے اور اسے سَر کرنے میں جتنے مشکل مقامات آتے ہیں اتنے کسی اور پہاڑ کے راستے میں نہیں ہیں۔
محمد عبدہ ایک کوہ پیما ہیں، پاکستان اور نیپال کے تمام ٹریک کرچکے ہیں۔ کوہ پیمائی کی بہت سی مہمات میں شریک بھی رہے ہیں۔ انہوں نے کوہ پیمائی کے حوالے سے 7 کتابیں تحریر کی ہیں۔ ’کے ٹو‘ کے حوالے سے درج ذیل تفصیل ان کی کتاب سے اخذ کی گئی ہے۔
وجہ تسمیہ
’کے ٹو‘ کو چھو گوری، چوغوری یا شاہ گوری لکھا جاتا ہے لیکن اس کا اصل بلتی تلفظ ’چھغوری‘ ہے۔ یہ پہاڑوں کے بادشاہ دنیا کی دوسَری اونچی اور قراقرم اور پاکستان کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔
’کے ٹو‘ کے نام کی وجہ لفظ K قراقرم کے پہلے حرف سے لیا گیا ہے اور 2 کا مطلب ہے قراقرم کی چوٹی نمبر 2۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سب سے پہلے 57-1856ء میں اس خطے میں جارج منٹگمری کی سَربراہی میں ایک مہم آئی تو انہوں نے ایک اونچی چوٹی کو ’کے ون‘ کا نام دیا جو دراصل بعد میں مشربرم ون کے نام سے مشہور ہوئی۔ کچھ عرصے تک ایک انگریز محقق کی وجہ سے اسے امریکی پہاڑ بھی کہا جاتا رہا ہے پھر گوڈون آسٹن کی تحقیق کے بعد اسے گوڈون آسٹن پہاڑ کہا جانے لگا اور سَروے مکمل ہونے کے بعد سَرکاری طور پر ’کے ٹو‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
حدود اربعہ
یہ قراقرم کے انتہائی شمالی کنارے پر پاکستان اور چین کے سَرحدی مقام پر واقع ہے اور درحقیقت اس مقام پر کوئی واضح سَرحدی تعین نہ ہونے کی بنا پر پاکستان اور چین کے درمیان ’کے ٹو‘ کو ہی سَرحد مانا جاتا تھا۔ اسکردو سے تقریباً 125 میل (200 کلومیٹر یا 104 کلومیٹر فضائی سفر) کی دُوری پر واقع ہے۔ اس کا طول البلد 35.52 اور عرض البلد 76.30 ہے۔
’کے ٹو‘ کا راستہ اسکردو شہر سے ہوتا ہوا شیگر وادی کے اندر سے گزرتا ہے اور آخری گاؤں اشکولی میں سڑک کا اختتام ہوتا ہے جہاں سے پیدل سفر کا آغاز ہوتا ہے جو بالتورو گلیشیئر سے ہوتا ہوا 8 سے 10 دن میں گوڈون آسٹن گلیشیئر کے کنارے پر واقع ’کے ٹو‘ پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
ایک صدی تک ’کے ٹو‘ کو سَر کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں اور کئی راستوں کو اختیار کیا گیا مگر کامیابی کسی کے حصے میں نہ آئی۔ دسیوں کوہ پیماؤں نے اپنی جانیں گنوائیں اور اس برفانی دنیا میں برف ہوگئے تاوقت یہ کہ 1954ء کا سال شروع ہوا اور 31 جولائی 1954ء اور ہفتے کے دن 2 اطالوی کوہ پیماؤں، 29 سالہ لینو لیسیڈلی (Lino Lacedlli) اور 40 سالہ اکیلی کومگنونی (Achille Comagnoni) کے حصے میں یہ کامیابی آئی۔
2012ء وہ سال تھا جب کسی ایک سال میں سب سے زیادہ یعنی 30 کوہ پیماؤں نے ’کے ٹو‘ کو سَر کیا۔
’کے ٹو‘ کے راستے میں مشہور کیمپوں کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔
بیس کیمپ (5300 میٹر)
ایڈوانس بیس کیمپ (5650 میٹر)
کیمپ ون (6050 میٹر)
کیمپ 2 (6700میٹر)
کیمپ 3 (7200میٹر)
کیمپ 4 (7600 میٹر)
ساجد کی بتائی ہوئی تفصیل کے مطابق اس نے آخری بار اپنے والد اور دیگر 2 کوہ پیماؤں کو ’کے ٹو‘ کے بوٹل نیک حصے سے آگے بڑھتے دیکھا تھا۔
کے ٹو خطرناک کیوں؟
دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ نیپال میں واقع ہے جس کی بلندی سطح سمندر سے 8 ہزار 849 میٹر ہے جبکہ دوسَری بلند ترین چوٹی کے ٹو کوہ قراقرم، پاکستان میں واقع ہے جس کی بلندی 8 ہزار 611 میٹر ہے لیکن خطرناک موسم اور راستوں کی دشواری کے باعث دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
اسی لیے کے ٹو کو خونخوار یا وحشی پہاڑ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ نام 1953ء میں ایک امریکی کوہ پیما جارج بیل نے اس چوٹی کو سَر کرنے کی اپنی ایک مہم کے بعد دیا تھا اور بعد میں یہ نام مشہور ہوگیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک خونخوار پہاڑ ہے جو آپ کو قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک اور معروف کوہ پیما نرمل پرجا کہتے ہیں کہ کے ٹو پر ایک موسم میں بمشکل 50 افراد چڑھ سکتے ہیں جبکہ ماؤنٹ ایورسٹ پر 2 ہزار افراد چڑھ سکتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتنا مشکل ہے۔
کے ٹو پر موسم غیر یقینی ہے۔ مسلسل منفی 50 سے زائد درجہ حرارت میں ڈوبی ہوئی سَرد ہواؤں کے مسلسل تھپیڑوں کی زد میں رہنے والی اس چوٹی پر ہر وقت برفانی تودے گرتے رہتے ہیں اور چٹانوں کی شکست و ریخت جاری رہتی ہے، اس لیے اسے سَر کرنے کے لیے کمال مہارت، چٹان کی سی قوتِ ارادی، فولادی اعصاب، غیر متزلزل حوصلے اور کسی حد تک خوش قسمتی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
کے ٹو پر ہونے والے بڑے حادثوں میں سے ایک اگست 2018ء میں ہوا تھا جب 11 انتہائی تجربہ کار کوہ پیما کے ٹو پر ہلاک ہوگئے تھے جس کی وجہ جان لیوا آئس فال یا برفانی تودے تھے جو 8 ہزار 200 میٹر بلند اس انتہائی دشوار حصہ میں گرے تھے جس کو بوٹل نیک کہا جاتا ہے۔
’بوٹل نیک‘ کیا ہے؟
تحقیق کے مطابق یہ مقام تقریباً 8 ہزار میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیما اسے اصطلاحاً موت کی وادی یا ڈیتھ زون کہتے ہیں اور یہاں کسی چھوٹی سی غلطی سے جان جاسکتی ہے۔ اس اونچائی پر آکسیجن کی مزید کمی سے سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں انسانی دماغ کا جسم پر کنٹرول ختم ہوجاتا ہے اور جسم مفلوج ہوجاتا ہے۔ سَردیوں کے اس خطرناک موسم میں یہاں 70 کلومیٹر سے زائد کی رفتار سے چلتی تیز ہوائیں، منفی 50 سے منفی 60 تک درجہ حرارت اور برفانی طوفان یعنی برفانی غبار معمول کی بات ہے۔ یہاں کوہ پیما زیادہ سے زیادہ 16 سے 20 گھنٹے گزار سکتا ہے اس لیے کوہ پیماؤں کو خصوصی ہدایات ہوتی ہیں کہ یہاں سے جلد سے جلد واپسی اختیار کریں۔
ان لاپتا کوہ پیماؤں کے حوالے سے ماہرین کی رائے مختلف ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ چوٹی سَر کرچکے تھے اور واپسی پر ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا کیونکہ ساجد نے انہیں دن کے 10 بجے بوٹل نیک پر دیکھا تھا۔ جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ بوٹل نیک سے اوپر بھی انتہائی خطرناک حصہ ہے اور حادثہ وہاں بھی پیش آسکتا ہے۔ آج تک ’کے ٹو‘ پر صرف 400 کے لگ بھگ کوہ پیما چڑھ پائے ہیں جبکہ اس دوران 87 کوہ پیما جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ان میں سے 91 فیصد اموات اسی بوٹل نیک والے حصے میں ہوئی ہیں۔
ہیلی کاپٹر کی پرواز کی حد زیادہ سے زیادہ 7 ہزار 5 سو میٹر ہے اور اگر اب تک کوہ پیما نظر نہیں آسکے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ چڑھتے ہوئے یا چوٹی سَر کرکے آتے ہوئے بوٹل نیک سے آگے کہیں حادثے کا شکار ہوئے ہیں اسی لیے ہیلی کاپٹر سے نظر نہ آسکے۔
آرمی سَرچ مشن جاری ہے خدا کرے کہ دعائیں بارگاہ ایزدی میں قبول ہوں اور کوئی معجزہ رونما ہوجائے ورنہ موسمِ گرما میں جب کوئی کوہ پیما اتنی اونچائی پر پہنچ جائے گا تو ہمارے ان بہادروں اور برف کی سلطنت میں امر ہونے والوں کا سَراغ مل سکے گا۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
تبصرے (1) بند ہیں