اسپیکر قومی اسمبلی کا 3 ’جھگڑالو‘ اراکین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ
اسلام آباد: قومی اسمبلی کے 4 فروری کے اجلاس کے دوران اراکین کی جانب سے ’غنڈہ گردی‘ کا نوٹس لیتے ہوئے اسپیکر اسد قیصر نے واقعے پر وضاحت طلب کرنے کے لیے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن سمیت 3 ایم این ایز کو خطوط جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے جاری ایک ہینڈآؤٹ میں لکھا گیا کہ اسپیکر نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سید نوید قمر، مسلم لیگ (ن) کے چوہدری حامد حمید اور پی ٹی آئی کے عطا اللہ کو خطوط ارسال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مذکورہ فیصلہ واقعے کی تحقیقات کے لیے اسپیکر کی زیر صدارت اجلاس کے بعد کیا گیا، اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری، سیکریٹری قومی اسمبلی، اسپیکر کے مشیر برائے قانون اور آئینی امور اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے شرکت کی۔
اس موقع پر اسپیکر نے کہا کہ یہ واقعہ ’انتہائی قابل مذمت‘ تھا، قومی اسمبلی کے محافظ ہونے کے ناطے وہ ایوان کا تقدس برقرار رکھنے کے لیے مناسب کارروائی کریں گے اور پارلیمانی طریقوں اور قواعد کے مطابق کارروائی کو چلائیں گے۔
مزید پڑھیں: قومی اسمبلی: حکومتی اراکین کے الزامات پر اپوزیشن کا احتجاج، آئینی ترمیم پر بحث نہ ہوسکی
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ حکومتی یا اپوزیشن بینچز سے تعلق رکھنے والے اراکین، قومی اسمبلی کے قواعد اور ایوان کے تقدس کو برقرار رکھنے کے پابند ہیں۔
ہینڈآؤٹ میں کہا گیا کہ اسپیکر نے اجلاس کے ریکارڈ اور ثبوت کا اچھی طرح سے جائزہ لینے کے بعد بغیر کسی تعصب اور دباؤ کے ہر قیمت پر ایوان کا تقدس برقرار رکھنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا۔
قومی اسمبلی کے سیکریٹری نے اپوزیشن اراکین کے اس روز کے احتجاج کی تصاویر بھی جاری کیں، ان تصاویر میں سے ایک میں پیپلزپارٹی کے نوید قمر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری سے جارحانہ انداز میں اعتراض کرتے دکھائی دیے جبکہ دوسری تصویر میں حامد حمید کو ہاتھ میں ایک جوتا پکڑے حکومتی بینچز کی طرف لہراتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
ان تینوں اراکین کو خط ’رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس ان نیشنل اسمبلی 2007‘ کے رول 21 کے تحت جاری کیے گئے، جس کے تحت اسپیکر کو یہ اختیار ہے کہ وہ پورے سیشن کے لیے قانون ساز کی رکنیت معطل کردے۔
دوسری جانب جب مسلم لیگ (ن) کے سرگودھا سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی حامد حمید سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں اب تک اسپیکر کی جانب سے کوئی نوٹس یا خط نہیں ملا لیکن انہیں میڈیا کے ذریعے اس کا علم ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اسپیکر کے ماتحت کوئی انکوائری قبول نہیں کرے گی کیونکہ وہ ’جانبدار‘ بن چکے ہیں، مزید یہ ہم ’واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی کی تشکل کا مطالبہ کریں گے‘۔
ایک سوال کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ احتجاج کے دوران وہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کو مبینہ طور پر قابل اعتراض اشارہ کرنے پر جوتا دکھا رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اسپیکر اور پارلیمانی کمیٹی سے کہیں گے کہ وہ کوئی فیصلہ لینے اور کسی ایک پر ذمہ داری ڈالنے سے قبل ان کے بیٹھنے سے قبل کی مکمل ویڈیو فوٹیج دیکھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر مسلم لیگ (ن) منقسم
واضح رہے کہ 4 فروری کو قومی اسمبلی میں غیرمعمولی چیزیں اس وقت دیکھنے کو ملی تھیں جب اوپن سینیٹ ووٹ کیلئے متنازع آئین ترمیمی بل پر بے نتیجہ ثابت ہونے والی بحث کے دوران 3 گھنٹے سے زائد کے اجلاس میں دونوں طرف سے اراکین نے ہنگامہ برپا کردیا اور شور شرابے، نعرے بازی، ایک دوسرے کا نام لینے، ڈیسکوں کو بجانے، سیٹیاں بجانے، جھگڑا کرنے اور یہاں تک کہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے دکھائی دیے۔
ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے درمیان اس وقت جھگڑا ہوا جب کراچی سے پی ٹی آئی کے دو اراکین عطااللہ اور فہیم خان احتجاج کرنے والے ان اپوزیشن اراکین کے پاس پہنچے جو ڈپٹی اسپیکر کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے۔
پیپلزپارٹی کے سید نوید قمر جو اپنی شائستگی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، انہیں ڈپٹی اسپیکر سے اس وقت تلخ کلامی کرتے ہوئے دیکھا گیا جب 2 وزرا کے بولنے کے بعد انہوں نے فلور وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر کو دے دیا تھا۔