لاہور قلندرز: تجربے کار اور نو آموز کھلاڑیوں کا امتزاج
لاہور قلندرز ایک ایسی فرنچائز ہے جو صرف ڈرافٹ اور ٹورنامنٹ کے دوران نہیں بلکہ سارا سال متحرک رہتی ہے۔ کبھی کسی ٹیلنٹ ہنٹ کا انعقاد ہورہا ہوتا ہے تو کبھی کسی ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ٹی10 ٹورنامنٹ میں بھی حصہ لیتے ہیں اور کھلاڑیوں کو مختلف لیگز میں معاہدے دلوانے میں بھی مشغول رہتے ہیں۔
لاہور قلندرز کے پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کا آغاز پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے ساتھ ہی ہوا تھا اور اب یہ سلسلہ قلندرز ہائی پرفارمنس سینٹر تک جا پہنچا ہے۔ یہ سب کرنے کے باوجود لاہور قلندرز پاکستان سپر لیگ جیتنے میں ناکام ہے اور اگر مجموعی نتائج دیکھے جائیں تو لاہور قلندرز پاکستان سپر لیگ کی ناکام ترین ٹیم ہے۔
پی ایس ایل میں قلندرز کا اب تک کا سفر
پی ایس ایل کے ابتدائی 4 ٹورنامنٹس میں آخری پوزیشن حاصل کرنے والی قلندرز کی ٹیم 2020ء میں پہلی بار ناک آؤٹ مرحلے اور پھر فائنل تک رسائی حاصل کر پائی لیکن وہاں لاہور کو کراچی کنگز کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
جب 2015ء میں پاکستان سپر لیگ کا اعلان ہوا تو کراچی کنگز اور لاہور قلندرز سب سے مہنگی ٹیمیں تھیں اور ساتھ ہی ان دونوں میں شائقین کرکٹ اور میڈیا کی دلچسپی بھی سب سے زیادہ تھی۔
لاہور قلندرز کے ڈائریکٹر اور ہیڈ کوچ عاقب جاوید پاکستان سپر لیگ کے آغاز سے ہی قلندرز کے ساتھ ہیں اور ان کے ہر پروگرام کا نہایت اہم حصہ رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف قلندرز نے پچھلے 5 سالوں میں 5 کپتان بدل دیے اور سہیل اختر پچھلے سیزن سے چھٹے کپتان ہیں لیکن عاقب جاوید جہاں تھے وہیں ہیں۔
2016
2016ء میں کھیلے جانے والے پہلے سیزن میں لاہور قلندرز نے اس وقت کے ٹی20 کرکٹ کے بڑے ناموں کو اسکواڈ میں شامل کیا تھا جن میں کرس گیل، ڈیوین براوو، کیمرون ڈیلپورٹ، عمر اکمل، اجانتھا مینڈس اور مستفیض الرحمٰن اہم نام تھے۔ لیکن مختصر فارمیٹ کے اتنے بڑے کھلاڑیوں کی قیادت اظہر علی کو سونپ دی گئی جو ون ڈے فارمیٹ کے لیے بھی مناسب صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔
ابتدائی 2 میچوں میں 125 اور 117 رنز بناکر شکست سے دوچار ہونے کے بعد تیسرے میچ میں لاہور قلندرز نے عمر اکمل، ڈیلپورٹ اور ظفر گوہر کی عمدہ کارکردگی کی بدولت فتح حاصل کرلی لیکن اگلے 2 میچوں میں پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ چھٹے میچ میں فتح کے بعد 2 مسلسل شکستوں نے لاہور قلندرز کو ناک آؤٹ مرحلے سے باہر کردیا۔
اگرچہ کراچی کنگز کی کارکردگی بھی لاہور قلندرز جیسی ہی تھی لیکن وہ بہتر رن ریٹ کے باعث اگلے مرحلے میں چلے گئے۔ لاہور قلندرز کی کارکردگی اس ٹورنامنٹ میں نہایت خراب رہی لیکن اس سے بھی زیادہ خراب کارکردگی ان کے اسٹار اوپنر کرس گیل کی رہی جو صرف ایک اچھی اننگ کھیل پائے۔
قلندرز کی جانب سے عمر اکمل اس ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی دکھاتے رہے۔ عمر اکمل کی اس عمدہ کارکردگی کے علاوہ اس ٹورنامنٹ میں اسپرٹ آف دی گیم کا ایوارڈ ہی لاہور قلندرز کی واحد کامیابی تھا۔
2017
لاہور قلندرز کرس گیل کی اس کارکردگی سے اتنے مایوس ہوئے کہ گیل کو 2017ء میں سہیل تنویر کے بدلے میں کراچی کنگز کو دے دیا۔ اظہر علی ٹیم میں تو رہے لیکن قیادت برینڈن میک کولم کو سونپ دی گئی جو نیوزی لینڈ کو ایک جارحانہ ٹیم میں بدل چکے تھے۔
اگرچہ ڈیوین براوو بھی اس سال لاہور قلندرز کا حصہ نہ بن سکے لیکن سنیل نارائن اور جیسن روئے کا اضافہ بُرا نہیں تھا۔ ان تمام تر تبدیلیوں کے باوجود قلندرز کے حالات تبدیل نہیں ہوئے ان کا آغاز ایک بار پھر سے شکست کے ساتھ ہوا جب وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف 137 کا ہدف بھی حاصل نہ کر پائے۔
تیسرے میچ میں صرف 59 رنز پر آؤٹ ہوکر شکست کا شکار ہونے اور پانچویں میں 201 کے ہدف کا دفاع نہ کرپانے کے باوجود قلندرز نے اپنا دوسرا، چوتھا اور چھٹا میچ جیت لیا اور یوں اگلے راؤنڈ میں رسائی ممکن تھی۔ لیکن اگلے دونوں میچوں میں شکست کے ساتھ قلندرز ایک بار پھر پوائنٹس ٹیبل پر آخری پوزیشن کے ساتھ اگلے مرحلے سے باہر ہوچکے تھے۔
2018
2017ء میں برینڈن میک کولم بھی کرس گیل کی طرح لاہور قلندرز کے لیے کچھ بڑا کرنے میں ناکام رہے لیکن 2018ء میں بھی انہیں کپتان برقرار رکھا گیا۔ اسکواڈ میں اینجلو میتھیوز، شاہین آفریدی اور مچل میکلینگھن کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ساتھ ہی ٹورنامنٹ میں ایک نئی ٹیم ملتان سلطانز کی آمد بھی ہوچکی تھی اور قلندرز کا پہلا ہی میچ سلطانز سے تھا۔
لاہور قلندرز کی ٹیم ناصرف اس میچ میں بلکہ 6 مسلسل میچوں میں شکست کے بعد اگلے مرحلے میں رسائی کی دوڑ سے باہر ہوگئی۔ لاہور قلندرز نے آخری 4 میں سے 3 میچ ضرور جیتے لیکن پوائنٹس ٹیبل پر ان کی آخری پوزیشن کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
2019
2019ء میں محمد حفیظ کو کپتان نامزد کیا گیا لیکن 2 میچوں کے بعد حفیظ ان فٹ ہوگئے اور کپتانی اے بی ڈی ویلیئرز کے پاس چلی گئی۔ جی ہاں، کرس گیل اور برینڈن میک کولم کے بعد اب لاہور قلندرز کی امیدوں کا مرکز اے بی ڈی ویلیئرز تھے۔
ڈی ویلیئرز اور محمد حفیظ کے علاوہ اس سال قلندرز کی ٹیم میں کورے اینڈریسن، سندیپ لیمیچانے، برینڈن ٹیلر اور کارلوس بریتھویٹ کا بھی اضافہ ہوچکا تھا۔
اس بار قلندرز نے ایک میچ میں شکست کے بعد ایک میں فتح کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا اور لگ رہا تھا کہ قلندرز شاید پہلی بار آخری پوزیشن سے اوپر ہی نہیں پہلے 4 میں بھی جگہ بنا لیں گے لیکن آخری 4 میچوں میں مسلسل شکست کے ساتھ قلندرز نے اپنی روایات کو جاری رکھا اور اپنی پسندیدہ آخری پوزیشن حاصل کر ہی لی۔
ٹورنامنٹ کے درمیان ہی قیادت اے بی ڈی ویلیئرز سے فخر زمان کو چلی گئی اور بطور کھلاڑی بھی وہ کچھ خاص نہیں کرسکے، یوں کرس گیل اور برینڈن میک کولم کے بعد اے بی ڈی ویلیئرز بھی قلندرز کی نیّا پار لگانے میں ناکام رہے۔
2020
2020ء میں لاہور قلندرز نے کسی بڑے نام کو کپتان بنانے کے بجائے اپنے پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام کا حصہ بننے والے سہیل اختر کو کپتان بنانے کا فیصلہ کیا اور اسکواڈ میں بھی زیادہ بڑے ناموں پر توجہ نہیں دی گئی۔
بین ڈنک، کرس لین، فخر زمان اور محمد حفیظ جیسے بیٹسمین اور شاہین آفریدی اور حارث رؤف جیسے بہترین فاسٹ باؤلرز کی موجودگی کے باوجود لاہور قلندرز کا اسکواڈ کچھ خاص نہیں لگ رہا تھا۔
پہلے 3 میچوں میں شکست کے بعد لاہور قلندرز کے لیے یہ ٹورنامنٹ بھی پچھلے 4 سال جیسا ہی لگ رہا تھا لیکن پھر 5 میں سے 4 میچوں میں شکست کے بعد قلندرز نے جیسے پانسہ ہی پلٹ دیا اور اگلے 5 میں سے 4 میچوں میں فتح حاصل کرلی۔
قلندرز کی حاصل کی گئی یہ فتوحات بھی کچھ عام نہ تھیں۔ اس دوران قلندرز نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 98 پر آؤٹ کیا اور کراچی کنگز، ملتان سلطان اور پشاور زلمی کے خلاف 180 سے زائد کا ہدف حاصل کیا اور یوں پہلی بار لاہور قلندرز نے ٹاپ 4 میں جگہ بنالی۔
لاہور قلندرز نے ٹاپ فور میں جگہ بنائی تھی تو کچھ خاص تو ہونا ہی تھا۔ بس پھر کورونا کے باعث پہلے تو کچھ میچ تماشائیوں کے بغیر کروائے گئے، اور پھر ناک آؤٹ مرحلے میں سیمی فائنل کھیلنے کی منصوبہ بندی کی گئی لیکن کورونا کے زور پکڑ جانے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا اور یوں باقی میچ ملتوی کردیے گئے۔
یہ التوا 8 ماہ تک طویل ہوگیا اور اس میں کئی بار یہ افواہیں بھی اڑتی رہیں کہ پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی ملتان سلطانز کو چمپیئن قرار دیا جاسکتا ہے لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور یوں مارچ سے ملتوی شدہ میچ نومبر میں منعقد کروائے جانے کا فیصلہ ہوا۔
پہلے ایلیمینیٹر میں لاہور قلندرز نے پشاور زلمی اور دوسرے ایلیمینیٹر میں ملتان سلطانز کو شکست دیتے ہوئے کراچی کنگز کے خلاف فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ فائنل پاکستان کرکٹ میں ایک بہت پرانی ’کراچی بمقابلہ لاہور جنگ‘ میں ایک نیا اضافہ تھا لیکن مقابلہ اتنا سنسنی خیز نہیں ہوسکا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
پشاور زلمی اور ملتان سلطانز کے خلاف عمدہ بیٹنگ کرنے والی قلندرز کی بیٹنگ لائن فائنل کی سست وکٹ کو سمجھنے میں ناکام رہی اور بڑا ہدف نہیں دے سکی۔
کراچی کنگز کے اہم ترین باؤلر محمد عامر کی مکمل ناکامی کے باوجود عماد وسیم اور ان کے تینوں نوجوان فاسٹ باؤلرز نے قلندرز کو کھل کر کھیلنے سے روکے رکھا۔ پھر کراچی نے بابر اعظم کی سمجھ دارانہ اننگ کی بدولت صرف 135 رنز کا ہدف آسانی سے حاصل کرلیا اور یوں لاہور قلندرز ایک بار پھر چمپیئن بننے سے محروم رہ گئی۔
2020ء میں قلندرز کے باؤلرز اور بیٹسمینوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس بات کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ٹورنامنٹ میں 5 سب سے زیادہ رنز بنانے والوں میں سے 4 کا تعلق لاہور سے تھا۔ اسی طرح سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے 5 باؤلرز میں سے 3 لاہور قلندرز کے کھلاڑی تھے۔
2021
2021ء میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے ڈرافٹ سے پہلے ہی فخر زمان نے لاہور قلندرز سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن پلیئرز ریٹینشن لسٹ میں ناصرف فخر زمان کا نام لاہور قلندرز کی فہرست میں شامل تھا بلکہ انہیں ٹیم کا برینڈ ایمبیسیڈر بھی بنا دیا گیا ہے۔
ڈرافٹ میں لاہور قلندرز کا سب سے اہم انتخاب افغانستان کے لیگ اسپنر راشد خان رہے لیکن پچھلے برس کے ہیرو کرس لین کا نہ ہونا بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آیا۔
ملتان سلطان کے ذیشان اشرف اس بار لاہور قلندرز کا حصہ ہوں گے لیکن ایک بار پھر لاہور قلندرز میں 4، 5 کھلاڑیوں کے علاوہ کوئی بڑا نام شامل نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس بار بھی قلندرز اسکواڈ میں کئی نئے نام شامل ہیں۔ معاذ خان اور محمد فیضان تو پہلے سے اس ٹیم کا حصہ ہیں، جو کچھ خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے ہیں جبکہ آغا سلمان، احمد دانیال اور زید عالم بھی ٹی20 کرکٹ میں زیادہ معروف نہیں ہیں۔
اگرچہ سہیل اختر کو کپتان برقرار رکھا گیا ہے لیکن لیکن پچھلے سال ٹیم کی عمدہ کارکردگی کے باوجود ان کی کیٹیگری کم کردی گئی ہے۔ سہیل اختر ابوظہبی میں کھیلے جانے والے ٹی10 ٹورنامنٹ میں شریک رہے اور اس ٹورنامنٹ میں ان کی فارم اس قدر زبردست رہی کہ انہیں ٹورنامنٹ کا بہترین پیٹسمین قرار دیا گیا۔ قلندرز کے مداح امید کریں گے کہ وہ اپنی اس فارم کو پاکستان سپر لیگ تک برقرار رکھ سکیں۔
ٹیم کے سب سے تجربہ کار کھلاڑی محمد حفیظ کو اگرچہ کچھ مسائل کے باعث جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستانی ٹیم کا حصہ نہیں بنایا جاسکا لیکن وہ کافی عرصے سے ٹی20 کرکٹ میں بہترین فارم میں ہیں۔
حفیظ قومی ٹیم، لاہور قلندرز اور خیبر پختونخوا کی جانب سے کھیلتے ہوئے تسلسل کے ساتھ کچھ ایسے شاٹس کھیلتے ہوئے نظر آرہے ہیں جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں کھیلے۔ محمد حفیظ اگرچہ اب باؤلنگ کم ہی کررہے ہیں لیکن ان کی ایسی ہٹنگ ہی لاہور قلندرز کے لیے نہایت اہم ثابت ہوسکتی ہے۔
مزید پڑھیے: اسلام آباد یونائیٹڈ نے پی ایس ایل 2021ء کے لیے کیسی تیاری کی ہے؟
بین ڈنک کا 2020ء کے پاکستان سپر لیگ میں ببل چباتے ہوئے چھکے لگانا کون بھول سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا ڈنک کی ببل اور بازوؤں میں ابھی بھی اتنا ہی زور باقی ہے یا نہیں۔
ذیشان اشرف کے ساتھ بین ڈنک کی اوپننگ جوڑی مخالف ٹیم کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں ہوگی۔ ذیشان اشرف ملتان سلطان کی جانب سے کیپنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ دونوں میں سے کیپنگ گلووز کسے ملتے ہیں۔
ڈیوڈ ویزے شاید جنوبی افریقہ کے لیے اتنی اہم کارکردگی نہیں دکھا سکے جتنی ویزے نے لاہور قلندرز کے لیے دکھا دی ہے۔ جب بھی قلندرز کو ضرورت پڑی تو ویزے اپنے لمبے چھکوں یا کفایتی باؤلنگ کے ساتھ حاضر رہے۔
حارث رؤف اور شاہین آفریدی پچھلے سال ٹی20 کرکٹ میں وکٹیں حاصل کرنے میں سرِفہرست رہے۔ پاکستان سپر لیگ، نیشنل ٹی20 کپ اور پاکستان کے لیے کھیلنے کے علاوہ شاہین آفریدی نے ٹی20 بلاسٹ اور حارث رؤف نے بگ بیش میں بہترین کارکردگی دکھائی ہے۔
قلندرز کو امید ہوگی کہ ان دونوں کی کارکردگی کا تسلسل جاری رہے گا۔ شاہین آفریدی قلندرز کے لیے نئی گیند سے جتنے اہم ہیں حارث پرانی گیند سے اتنے ہی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ دونوں ہی وکٹیں گرانے پر بھرپور توجہ رکھتے ہیں اور ایسے باؤلرز ٹی20 کرکٹ میں بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں۔
راشد خان ٹی20 کرکٹ کے بہترین اسپنر مانے جاتے ہیں اور اپنی اسپن کے جادو سے بیٹسمین کو قابو کرنے کے سبھی گُر جانتے ہیں۔ سمت پٹیل کے ساتھ مل کر راشد مخالف ٹیم کو اسپن وکٹوں پر تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں۔
شاہین اور حارث کی طرح راشد خان بھی وکٹیں گرانے پر ہی توجہ دیتے ہیں۔ راشد کی اسپن باؤلنگ کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹنگ بھی نہایت اہم ہے۔ جہاں سمت پٹیل اوپری نمبر پر اننگ کو استحکام دے سکتے ہیں وہیں راشد نچلے نمبر پر بہترین ہٹنگ کرلیتے ہیں۔ تاہم راشد خان ٹورنامنٹ کے ابتدائی میچوں میں لاہور قلندرز کو دستیاب نہیں ہوں گے۔
دیکھنا یہ ہے کہ ٹورنامنٹ کے ابتدائی میچوں میں راشد خان کی جگہ کسے اسکواڈ میں شامل کیا جاتا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے تمام میچ صرف کراچی اور لاہور میں ہونے ہیں اور اس صورت میں اسپنرز زیادہ استعمال ہونے والی پچوں پر اہم ترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔
لاہور قلندرز کا اسکواڈ عمدہ کھلاڑیوں پر مشتمل ہے لیکن کئی غیر معروف کھلاڑیوں کی موجودگی میں ایک ڈر ضرور ہے کہ اگر اہم کھلاڑی آؤٹ آف فارم ہوجاتے ہیں تو کیا نئے کھلاڑی ان کی جگہ لے پائیں گے؟