مشکوک ٹرانزیکشن کا معاملہ: آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 8 ارب روپے سے زائد کی مشکوک ٹرانزیکشنز کے معاملے میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی طبی بنیادوں پر مستقل ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔
وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے بحریہ ٹاؤن کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکریٹری مشتاق اور زین ملک کے مشترکہ کھاتوں سے جعلی اکاؤنٹس میں 8.3 ارب روپے کے مشکوک لین دین کے معاملے میں آصف زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔
خیال رہے کہ عدالت نے گزشتہ سال 18 جون کو آصف زرداری کی اس معاملے میں عبوری ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی۔
آج ہونے والی سماعت کے دوران سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم صرف طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر دلائل دیں گے، ہماری درخواست ضمانت طبی بنیادوں پر ہے۔
مزید پڑھیں: آصف زرداری کی صحت کی جانچ کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل
ان کا کہنا تھا کہ ایک سال میں ایک دفعہ بھی آصف زرداری کو نہیں بلایا گیا، ہم بیان حلفی دیتے ہیں کہ جب نیب بلائے گا ہم مکمل تعاون کریں گے۔
وکیل کی بات پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ ابھی یہ کیس انویسٹی گیشن اسٹیج پر ہے، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ جہاں تک مجھے یاد ہے یہ کیس انکوائری اسٹیج پر ہے۔
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ ابھی ریفرنس تو دائر نہیں ہوا، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی، ابھی اس کیس میں ریفرنس دائر نہیں ہوا۔
اس دوران سابق صدر کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آصف زرداری گرفتاری کے بعد دو ماہ سے زائد ریمانڈ پر رہے، اس دوران نیب آصف زرداری سے تفتیش کر سکتا تھا، وہ ابھی بھی شامل تفتیش کے لیے خود کو پیش کرنے کو تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طبی بنیادوں پر ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کی جائے۔
اس موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ آپ کو میڈیکل رپورٹ پر کوئی اعتراض تو نہیں؟ آپ میڈیکل رپورٹ کو جعلی تو نہیں کہہ رہے؟ ماضی میں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ میڈیکل رپورٹ کو غلط قرار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سوال اب یہ ہونا چاہیے کہ درخواست گزار ضمانت کے بعد کہیں باہر تو نہیں چلا جائے گا؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آصف زرداری کا نام ای سی ایل میں شامل ہے۔
سماعت کے دوران فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کیسز کی کراچی منتقلی کی درخواست پر نوٹس جاری کیے ہیں، ہم نے یہی استدعا کی ہے کہ حقائق کو مدنظر رکھ کر ہمارے کیسز کراچی منتقل کیے جائیں۔
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نیب کے کیسز کے بعد ویسے بھی بندہ غریب ہوجاتا ہے، جس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
سماعت کے دوران عدالت نے پوچھا کہ کیا آصف زرداری کی گزشتہ ضمانت کو منسوخ کرنے کی نیب نے درخواست دی؟ جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ احتساب کے ادارے نے آصف زرداری کی گزشتہ ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست نہیں دی۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 10 اور 16 مئی 2019 کو نوٹس بھیجا لیکن ابھی تک جواب نہیں آیا، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اس وقت آصف زرداری نیب کی حراست میں تھے۔
تاہم نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس وقت آصف زرداری کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری نہیں ہوئے تھے، جس پر عدالت نے پوچھا کہ آپ کتنی دفعہ گرفتار کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: مشکوک ٹرانزیکشن ریفرنس: آصف علی زرداری کی عبوری ضمانت میں توسیع
اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آصف زرداری کی حد تک 15 کروڑ کی رقم کی مشکوک ٹرانزیکشنز کا الزام ہے، اشتہاری گریڈ 15 کا ملازم مشتاق 2015 میں ایوان صدر میں ملازم تھا، مشتاق 2015 سے دبئی میں ہے جس کی وجہ سے اشتہاری قرار دیا گیا جبکہ مشتاق کی کوئی ذاتی جائیداد نہیں ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ کسی کو ضمانت ملنے کے بعد نیب کسی بھی وقت درخواست دے سکتا ہے، ساتھ ہی جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ نیب کا یہ سوال بنتا ہے کہ آصف زرداری کو ملک سے باہر نہیں جانا چاہیے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آصف زرداری کا نام ای سی ایل پر ہے وہ کیسے باہر جا سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ جعلی اکاؤنٹس کے مرکزی کیس میں چارج ثابت نہ ہوا تو اس میں بھی نہیں ہو سکے گا، ہر دوسرے کیس میں آپ نے ضمنی ریفرنس دائر کیا ہوتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے طبی بنیادوں پر سابق صدر آصف علی زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔