سندھ کی خواتین کاشتکاروں کی فتح
اس ہفتے سندھ اسمبلی میں ایک تاریخی بل منظور ہوا ہے جس کے تحت واٹر منیجمنٹ میں پہلی مرتبہ خواتین کاشتکاروں کے کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔
سندھ واٹر منیجمنٹ (ترمیمی) بل 2018ء اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ صوبہ سندھ کی تقریباً 45 ہزار واٹر کورس ایسوسی ایشنز، 350 سے زائد کسان تنظیموں اور 14 ایریا واٹر بورڈز میں خواتین کاشتکاروں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس تاریخی تبدیلی کے لیے ایک طویل لڑائی لڑی گئی ہے۔
دھنی بخش ایک کسان ہیں اور ضلع بدین میں پانی کے مناسب انتظام کے حوالے سے کام کرتے ہیں۔ دھنی کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو صوبہ سندھ کے دُور دراز علاقوں میں پانی کی مناسب دستیابی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی سے دھنی اور ان کے ساتھی کسانوں کو پانی کی شدید کمی کا سامنا تھا اور اس وجہ سے بدین اور ٹھٹہ میں ان کے زرخیز کھیت بنجر ہوگئے تھے اور مقامی لوگ نقل مکانی کرگئے تھے۔
دھنی ڈسٹرک بدین الائنس نامی تنظیم کے سربراہ بھی ہیں۔ یہ تنظیم 2002ء کے سندھ واٹر منیجمنٹ آرڈیننس (ایس ڈبلیو ایم او) کے بعد وجود میں آئی تھی۔ اس آرڈیننس کے تحت پانی کی یکساں تقسیم کے لیے ہر نہر پر کسانوں کی ایک تنظیم بنانا ضروری تھا۔
بدقسمتی سے اس قانون میں خواتین کاشتکاروں کے لیے کوئی خصوصی ذکر نہیں تھا، اور یوں خواتین کو اس اہم معاملے سے دُور رکھا گیا۔
فرزانہ کا تعلق گاؤں قاسم سولنگی سے ہے۔ وہ مویشی پالتی ہیں، کھیتی باڑی کے کاموں میں حصہ لیتی ہیں، گھر کے لیے پانی بھر کر لاتی ہیں اور گھر کے کام کرتی ہیں۔ انہوں نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ ’بدقسمتی سے میں کاشتکاروں کی اس تنظیم کا حصہ نہیں تھی جس کے ذمے پانی کی تقسیم کا کام تھا‘۔
فرزانہ نے مزید کہا کہ ’خواتین ان زمینوں کو مردوں سے بہتر طریقے سے جانتی ہیں، اگر ہمیں پانی کے انتظام کا کام دیا جاتا تو ہم زیادہ بہتر طریقے سے اس کام کو انجام دے سکتی تھیں‘۔
دیہی سندھ کی زراعت کا ایک بڑا حصہ خواتین کاشتکاروں پر مشتمل ہے۔ 2015ء میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یہ بتایا گیا کہ سندھ کے دیہی اضلاع میں رہنے والے مردوں نے مالی حیثیت کو بہتر بنانے اور وڈیروں کے مظالم سے بچنے کے لیے شہروں کی جانب ہجرت کی۔ اس وجہ سے گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران پاکستان کی زراعت میں خواتین کاشتکاروں کے کردار میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ان حالات کی وجہ سے کھیتوں میں اور کھیتوں سے باہر کے کاموں میں خواتین کے کردار اور ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا۔ سندھ میں خواتین بیچ بونے سے لے کر فصل کی کٹائی تک ہر عمل میں شامل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں بھی مددگار کے بجائے کسان کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے۔ دیہی سندھ میں خواتین اوسطاً 12 سے 14 گھنٹے روزانہ کام کرتی ہیں‘۔
سندھ کے دیہی علاقوں میں کاشتکاروں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور پاکستان بیورو آف اسٹیٹ اسٹکس کے مطابق ان کاشتکاروں میں 77 فیصد خواتین ہیں۔
پانی کا نظام ہی دراصل دیہی معیشت کی بنیاد ہے۔ یہ نظام 3 بیراج، 14 بڑی کنال اور تقریباً 40 ہزار چھوٹی نہروں پر مشتمل ہے۔ گزشتہ ایک صدی سے یہ یہاں کے لوگوں کی زندگیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ سالوں میں پانی کی چوری اور بڑے زمینداروں کی جانب سے اپنے باغوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی کے استعمال کی وجہ سے پچھلے علاقے یا ٹیل اینڈ ایریاز کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
دھنی بخش جیسے لوگوں نے ’بڑے زمینداروں کے سیاسی اثر و رسوخ اور ان کی اجارہ داری‘ کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ ان کے مطابق ان زمینداروں نے ’پانی کی منصفانہ تقسیم نہیں ہونے دی‘، اگرچہ خواتین بھی آبپاشی کے نظام اور اس کے قوانین سے متاثر ہوئی ہیں لیکن انہیں کسی پلیٹ فارم پر بھی شامل نہیں کیا گیا۔
ایک رضاکار عابدہ سمو نے خواتین کو درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’دیہی علاقوں میں خواتین بیج بونے سے فصل کی کٹائی تک ہر کام کرتی ہیں اور مردوں سے زیادہ کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے پانی کی تقسیم کے بارے میں ان کی رائے نہیں لی جاتی جبکہ خواتین پانی کا زیادہ بہتر انتظام کرسکتی ہیں‘۔
پانی کے انتظام میں ان کا کردار نہ ہونے کی وجہ سے خواتین اور مالکانہ حقوق نہ رکھنے والے کاشتکار پانی کے تحفظ کے اقدامات میں بھی شریک نہیں ہوتے۔
پہچان کے حصول کی جدوجہد
سندھ سے تعلق رکھنے والے قانون دان رانا انصر اس صورتحال سے تنگ آچکے تھے۔ انہوں نے ہی 2018ء میں وہ ترمیمی بل متعارف کروایا تھا جس میں پانی کی تقسیم میں خواتین کاشتکاروں کے کردار کو تسلیم کیا گیا۔
انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’میرا تعلق بھی ایک کاشتکار گھرانے سے ہے۔ کئی سال پہلے جب ہمیں پانی کی قلت کا سامنا ہوا تو میں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ لیکن مجھے خاموش رہنے کا کہا گیا کیونکہ واٹر بورڈز اور کسان تنظیموں میں خواتین کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔
3 سال کی جدوجہد کے بعد 12 جنوری 2021ء کو سندھ اسمبلی نے ممبر صوبائی اسمبلی رانا انصر کے جانب سے پیش کی گئی ترامیم کو منظور کرلیا۔
وہ ترامیم کیا تھیں؟
سیکشن 30 میں کی گئی ترمیم میں شامل ہے کہ ’ایریا واٹر بورڈ (اے ڈبلیو بی) کمانڈ ایریا سے آب پاشی پر منحصر زراعت اور تقسیم آب کا پس منظر رکھنے والی 2 خواتین انتظامی بورڈ کی ممبر ہوں گی۔ یہاں ان خواتین کو اہمیت دی جائے گی جو کسی کسان تنظیم کی ممبر ہوں۔
سیکشن 42 میں کی گئی ترمیم میں شامل ہے کہ ’ایک کسان تنظیم سے تعلق رکھنے والی 2 خواتین جو آب پاشی پر منحصر زراعت اور تقسیم آب کا پس منظر رکھتی ہوں اور جن میں سے ایک خاتون کے پاس مالکانہ حقوق نہ ہوں۔
سیکشن 56 کے ذیلی سیکشن (1) میں کی گئی ترمیم میں شامل ہے کہ ’واٹر کورس ایسوسی ایشن (ڈبلیو سی اے) کے منتخب ممبران کے علاوہ 2 خواتین بھی ڈبلیو سی اے کے بورڈ کا حصہ ہوں گی جن میں ترجیح ان مددگار خواتین [مزارعین] کو دی جائے گی جو اسی واٹر کورس سے ہوں جہاں ڈبلیو سی اے قائم کی جائے‘۔
سیکشن 70 میں کی گئی ترمیم میں شامل ہے کہ ’2 خواتین ممبران جن میں سے ایک کوئی نمایاں وکیل، حقوق نسواں کی کارکن، صحافی ہو اور ایک خاتون کاشتکار ہو‘۔
ان ترامیم کو مختلف حلقوں کی جانب سے سراہا گیا۔ ایف اے او کی پالیسی آفسر جنیویو حسین کا کہنا تھا کہ خواتین کے کردار کو تسلیم کرنا انتہائی اہم بات ہے۔ اسٹرنتھنگ پارٹیسیپیٹری آرگنائزیشن کے ریجنل کوآرڈینیٹر امجد بلوچ نے مقامی اخبار کو بتایا کہ اب سے پہلے اس نظام میں خواتین کی نمائندگی نہیں تھی۔ ’اس ترمیم کے بعد 45 ہزار واٹر کورس ایسوسی ایشنز، 350 کسان تنظیموں اور 14 ایریا واٹر بورڈ میں خواتین کی نمائندگی شامل ہوجائے گی۔ اس کے ذریعے صوبے میں پانی کے انتظام اور آب پاشی کے نظام میں خواتین کی شرکت میں اضافہ ہوگا‘۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ 6 ایکڑ اراضی کی مالک کھٹیجن گھرانو جیسی خواتین اس اقدام سے خوش ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ بچت کرسکتی ہیں اور زراعت اور پانی کے مسائل کو زیادہ بہتر سمجھتی ہیں۔ ایک مرتبہ ہم کسان تنظیموں کا حصہ بن جائیں تو ہم ان مسائل کا بہتر حل تلاش کر سکیں گی‘۔
منوج گینانی فوٹوگرافر اور سنیمیٹوگرافر ہیں۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے با اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
منوج گینانی فوٹوگرافر اور سنیمیٹوگرافر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔