کیمپس امتحانات کے خلاف احتجاج، لاہور میں پانچ طلبہ رہنما گرفتار
لاہور میں گزشتہ دو ہفتوں سے شہر میں کیمپس کے امتحانات کے انعقاد کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے والے پانچ طلبہ کو اقبال ٹاؤن کے علاقے میں ایک مکان پر صبح سویرے پولیس نے چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ چھاپہ پولیس کی بھاری نفری نے اسٹوڈنٹ رہنما ثنااللہ کے مکان پر اقبال ٹاؤن کے رضا بلاک میں مارا، پولیس پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو (پی ایس سی) لاہور کے صدر زبیر صدیقی، سیکریٹری جنرل علی اشرف، سیکریٹری اطلاعات سلمان سکندر ایک کارکن حارث اور گھر کے مالک کو گرفتار کر لیا۔
مزید پڑھیں: لاہور: طلبہ کا احتجاج، پولیس کے مبینہ لاٹھی چارج سے متعدد زخمی
ثناءاللہ کی اہلیہ سدرہ نے ڈان کو بتایا کہ وہ صبح 4 بجے سو رہے تھے کہ جب انہوں نے کسی کے دیوانہ وار دروازہ پیٹنے کی آواز سنی۔
جیسے ہی ان کے شوہر نے دروازہ کھولا تو بھاری ہتھیاروں سے لیس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس تقریباً 10 پولیس اہلکار گھر میں داخل ہوئے اور کمرے میں موجود ان کے مہمانوں پر حملہ کردیا۔
اس نے بتایا کہ پولیس نے ان کے شوہر اور دیگر افراد کو گاڑی میں باندھ کر ڈالنے سے قبل ان سے بدتمیزی کی، گالی گلوچ کی اور طالب علموں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔
انہوں نے کہا کہ زبیر صدیقی عدالت کی جانب سے جاری کردہ ضمانت قبل از گرفتاری کا آرڈر دکھایا تھا لیکن چھاپہ مار پولیس اہلکاروں نے ان کی بات نہیں مانی جبکہ انہیں اور دیگر افراد کو لے کر چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے شوہر سے ملاقات کے لیے دن میں متعدد پولیس دفاتر کا دورہ کیا ہے لیکن کوئی بھی مجھے بتانے کو تیار نہیں تھا کہ انہیں کہاں حراست میں رکھا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: کیمپس امتحانات کے خلاف احتجاج جاری، گارڈز سے جھڑپ میں 5 طلبہ زخمی
سدرہ نے مزید بتایا کہ انہوں نے اپنے شوہر کی بازیابی کے لیے عدالت میں ملزم کی حاضری کی درخواست دائر کی تھی، مجھے بتایا گیا ہے کہ میرے شوہر اور دیگر طلبہ کی گرفتاری کے پیچھے کالجوں اور اسکولوں کی چین کے مالک کا ہاتھ تھا تاکہ وہ انہیں مظاہرے کرنے کا سبق سکھائیں۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (انویسٹی گیشن ونگ) غفار قیصرانی نے ڈان کو بتایا کہ طلبہ کو مختلف تعلیمی اداروں کی شکایات پر درج مختلف مقدمات میں نامزد کیا گیا تھا اور انہیں (آج) جمعہ کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
اس مہم کے ایک حصے کے طور پر شہر کے مختلف تعلیمی اداروں کے سیکڑوں طلبہ 'طلبہ کیلئے انصاف' کے نعرے کے تحت گزشتہ دو ہفتوں سے کیمپس میں امتحانات لینے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔
منگل کے روز ایک نجی یونیورسٹی کے باہر مظاہرہ کرنے والے طلبہ پر سیکیورٹی گارڈز نے لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں پانچ طلبہ کے سر میں چوٹ لگی تھی۔
مزید پڑھیں: ایچ ای سی نے جامعات کو آن لائن امتحانات کی اجازت دے دی
نواب ٹاؤن پولیس نے 95 نامزد اور 400-500 نامعلوم طلبہ کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 452، 506 / بی، 148، 149، 427، 342، 290، 291، 440، 436، 269 اور 270 کے تحت مقدمہ درج کرلیا تھا اور یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی آفیسر نوید مختار کی شکایت پر پنجاب مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 کی دفعہ 16 کے تحت مقدمے کا اندراج کیا تھا۔
پولیس نے مظاہرین میں سے 36 طلبہ کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا جنہیں بعد میں بدھ کے روز جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، انہیں تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔
سینیٹ کے سابق چیئرمین سینیٹر میاں رضا ربانی نے لاہور میں پرامن طلبہ پر لاٹھی چارج اور گرفتاری کی مذمت کی، انہوں نے طلبہ کے خلاف ایم پی او کے سیکشن 16 سمیت آمرانہ قوانین کے استعمال کی مذمت کی جنہوں نے اپنی تعلیم سے متعلق معاملات کے لیے مظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ طلبہ کے خلاف پنجاب حکومت کا یہ عمل کوئی نیا نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی ان پر پی پی سی کی دفعہ 124-اے کے تحت بغاوت کا الزام عائد کیا گیا تھا، انہوں نے یاد دلایا اسی طرح علمی آزادی کے لیے مظاہرہ کرنے والے پروفیسر عمار علی جان کو بھی اغوا کیا گیا تھا اور اس کے بعد عوامی دباؤ پر رہا کیا گیا تھا۔
رضا ربانی نے کہا کہ طلبہ برادری اور اکیڈمیا کا سانس روکنا، خوف اور ظلم کی ریاست کی اس طرح کی حرکتیں عندیہ دیتی ہیں کہ ریاست فاشزم کی طرف گامزن ہے جہاں اختلاف رائے خواہ سیاسی ہو یا تعلیمی، اس کی اجازت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے سے متعلق طلبہ کے منفی ردعمل پر وزیر تعلیم حیران
انہوں نے کہا کہ میں اس وقت طلبہ کے کچھ مطالبات سے اتفاق نہیں کر سکتا لیکن ریاست کے ہاتھوں طلبہ کی تحریکوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی حمایت بھی نہیں کرسکتا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، انہوں نے کہا کہ راولپنڈی اور کراچی میں ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات ہوئے جس نے طلبہ کی تحریک شعلے بھڑکا اٹھے جو عوامی تحریک کا محرک بن گئے اور جس نے ایک آمر جنرل ایوب خان کو ملک بدر کردیا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ گرفتار طلبہ کو فوری رہا کیا جائے اور ان کے خلاف درج مقدمات کو بھی واپس لیا جائے۔