ہمارا ماضی ہمارا سب سے بڑا منشور ہے، خالد مقبول صدیقی
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول نے کراچی میں ضمنی الیکشن میں اپنے امیدوار کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ماضی ہی ہمارا سب سے بڑا منشور ہے۔
کراچی میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 88 کے ضمنی انتخاب کے سلسلے میں مرکزی الیکشن آفس کے افتتاح کے موقع ایم کیو ایم پاکستان کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمارے امیدوار کہیں کے سجادہ نشین نہیں ہیں یا کسی جاگیردار کے بیٹے نہیں ہیں بلکہ عوام کے درمیان رہنے والے اور تعلیم یافتہ شخص ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جس اسٹیٹس کے ساتھ پہلا الیکشن لڑا تھا آج کا الیکشن بھی اسی اسٹیٹس سے لڑ رہا ہے، وہ لوئر مڈل کلاس سے چھلانگ لگا کر اپر مڈل کلاس یا اپر کلاس میں نہیں چلا گیا۔
ایم کیو ایم کے رہنما نے کہا کہ ہمارے پاس اپنا کردار ہی سب سے بڑی ڈگری ہے، ہمارا ماضی ہمارا سب سے بڑا منشور ہے۔
اپنے امیدوار کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ساجد احمد پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اورپورے کراچی کی جانب سے امیدوار ہیں اور امید ہے کہ ان کو پڑنے والے ووٹ اور ان کی کامیابی اس شہر میں جمہوریت، جمہوری طریقہ کار، جمہوری اصول اور جمہوری روایات کو دوبارہ زندہ کرنے میں معاون ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ میں ہر طرح کی حکومتوں سے التجا کرتا ہوں کہ جمہوریت ہی واحد راستہ ہے، جو قائد اعظم نے ہمارے لیے چنا تھا کہ جس پر چل کر اور اس کے ذریعے پاکستان اس مقصد کو پاسکتا ہے جس کے لیے بنا تھا۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پاکستان کے سب سے بڑے جمہوری شہر میں، جس نے کئی مرتبہ آمریتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور کئی جمہوری تحریکوں کا ہراول دستہ رہا ہے، اس شہر سے پورے پاکستان کو ایک پیغام ملے کہ وہ جمہوریت جس کے خواب پاکستان کو بنانے والے دیکھتے رہے ہیں، اس کے آثار اب اس ملک میں پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس حلقے میں الیکشن ہارنے کے لیے نہیں بلکہ پہلے بھی دل جیتنے کے لیے اترتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس دفعہ ہم پر ایک بھاری ذمہ داری ہے کہ یہاں پر ہم اس بات کی بھی کوشش کریں اور بتا سکیں کہ پاکستان میں اصل اور حقیقی جمہوریت کے امکانات باقی ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے اتحاد سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عوام کا اعتماد ہمارے اوپر نہیں بلکہ جموری عمل پر ہونا چاہیے اور عوام کے حقوق کے لیے انتخابی نتائج آنے کے بعد دیکھا جائے گا اور سینیٹ انتخابات کے حوالے سے معاملات پیچیدہ ہیں۔