اسٹیٹ بنک کے معاشی جائزے کتنے درست ہیں؟
معیشت کے حوالے سے موجودہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم عدم اعتماد کا شکار ہے اور معیشت کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ہر چیز کو الگ تھلگ کرکے دیکھنے کی عادت اپنا لی گئی ہے۔ اس عادت کی وجہ سے معیشت پر ایک اجمالی جائزہ اور اجمالی منصوبہ بندی موجود ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آرہی ہے۔
معیشت کے حوالے سے حکومتی رائے کچھ بھی ہو مگر اسٹیٹ بینک کی جانب سے آنے والے معاشی جائزے معیشت کی درست تصویر پیش کرتے تھے، مگر جب سے موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر آئے ہیں اسٹیٹ بینک کے معاشی جائزوں کا معیار نہایت پست ہوکر رہ گیا ہے۔
اس سے قبل ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر شمشاد اختر اور اسٹیٹ بینک کے دیگر گورنروں کے ادوار میں جو معاشی جائزے پیش کیے جاتے تھے وہ دراصل حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ سے کم نہیں ہوتے تھے اور صحافی انہی اعداد و شمار اور جائزوں پر حکومت کی معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔
اسٹیٹ بینک نے جب سے اپنی خود مختاری کے بجائے حکومت کے گن گانے شروع کیے ہیں، اس کا نقصان پاکستانی معیشت کو ہورہا ہے۔ جیسے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے منافع یا سرپلس میں تبدیل ہونے کے عمل کو ہی لے لیں۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک دونوں ہی اس کو بڑی کامیابی شمار کر رہے تھے لیکن چند ماہ بعد ہی یہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس سے دوبارہ خسارے میں چلا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: بہتر ہوتی ہوئی معیشت کا سراب
مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب کرنٹ اکاؤنٹ کے سرپلس یا مثبت ہونے پر شادیانے بجانے شروع کردیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ معیشت میں بہتری کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے یا معیشت میں بحالی شروع ہوگئی ہے۔
چند روز قبل جب گورنر اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دی تو اس میں راقم نے گورنر اسٹیٹ بینک سے سوال کیا کہ کیا اسٹیٹ بینک کی موجودہ پالیسی معیشت کے لیے نہایت نقصاندہ ثابت نہیں ہوئی؟ پہلے روپے کی قدر گری اور ایک ڈالر 168 روپے سے تجاوز کرگیا جس کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان کھڑا ہوا۔ اس طوفان کو قابو کرنے کے لیے بنیادی شرح سود کو 13.25 فیصد پر لے جایا گیا جس سے صنعتی ترقی کا عمل رک گیا۔ اس بڑھی ہوئی شرح سود پر تقریباً 2 ارب ڈالر ہاٹ منی ملک میں آئی اور اسی مالی سال یہ ہاٹ منی 13.25 فیصد منافع کما کر پاکستان سے نکل بھی گئی۔ لیکن اسٹیٹ بینک کرنٹ اکاؤنٹ کے سرپلس ہونے کا جشن منا رہا ہے۔ کیا اس کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کو ان تمام منفی پہلوؤں کے ساتھ رکھ کر نہیں دیکھا جانا چاہیے؟
اس پر گورنر صاحب نے بتانا شروع کیا کہ ’گزشتہ چند ماہ سے صنعتی ترقی بہتر ہوئی ہے‘۔ مگر وہ یہ بتانا بھول گئے کہ اس ترقی کی قیمت دوبارہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی صورت میں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
گورنر صاحب نے مزید فرمایا کہ ’معیشت میں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں اور گزشتہ چند ماہ میں بڑی صنعتوں میں بہتری نظر آئی ہے‘۔
میں نے گورنر صاحب سے ضمنی سوال کرنے کی اجازت طلب کی مگر وہ نہ مل سکی اس لیے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہونے سے معیشت کو ہونے والے نقصان پر یہ جائزہ لکھ رہا ہوں تاکہ عوام کو پتہ لگ سکے کہ جس چیز کو معیشت اور عوام کے لیے فائدہ بتایا جارہا ہے وہ دراصل معیشت کو کھوکھلا کر چکی ہے۔
سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لے لیں کہ کیا عالمی معاشی نظام میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہت ہی بُری چیز ہے اور جن معیشتوں میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ہوتا ہے کیا وہ معیشتیں گراوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں؟
دراصل ایسا نہیں ہے۔ آپ کے سامنے ان ممالک کی مثال رکھتے ہیں جہاں کی شہریت حاصل کرنا ہر پاکستانی کا خواب ہوتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 480 ارب ڈالر، برطانیہ کا 106 ارب ڈالر اور کینیڈا کا 49 ارب ڈالر ہے۔ اس بڑے خسارے کے باوجود یہ معیشتیں مسلسل ترقی کررہی ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ یا سرپلس معیشت میں کیا حتمی کامیابی ہے؟ کسی بھی ملک کے بیرونی کھاتوں کو آزاد انداز میں الگ تھلگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارہ یا منافع یا سرپلس کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں اور یہ کہ کیا سرپلس، سرمایہ کاری میں سست روی کی وجہ سے ہورہا ہے؟ یا پھر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کے ساتھ معاشی ترقی، سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ ہورہا ہے؟ یا پھر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کے ساتھ ہی معاشی شرح نمو میں کمی، سرمایہ کاری منفی اور برآمدات میں کمی تو نہیں ہورہی ہے؟
مزید پڑھیے: کیا پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری واقعی ترقی کر رہی ہے؟
اس وقت پاکستان کے تجارتی اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے تجارتی خسارے میں کوئی بڑی کمی پیدا نہیں ہوئی ہے۔ جس قدر درآمدات کم ہوئی ہیں اسی قدر ملکی برآمدات میں بھی کمی آئی ہے۔ معیشت کے ایک طالب علم کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کے لیے سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ اس وقت ہی اچھا قرار دیا جاسکتا ہے جب یہ سرپلس اس وقت پیدا ہو جب درآمدات کے مقابلے میں برآمدات بڑھ جائیں، نہ کہ سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات میں اضافے سے۔
موجودہ حکومت نے جو کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس حاصل کیا ہے وہ معاشی ترقی سست کرکے حاصل کیا ہے۔ اس سے پاکستانی معیشت سست روی کے ایک جال میں پھنس کر رہ گئی ہے۔ اس وقت معیشت میں گرتی ہوئی مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی وجہ سے گزشتہ 2 سال میں کوئی بڑی صنعت نہیں لگی ہے، جس کے سبب ملازمتوں کے مواقع کم ہوئے ہیں اور مہنگائی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان میں صنعتی ترقی میں گراوٹ ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ معاشی جائزے کے مطابق پاکستان میں بڑی صنعتوں کی پیداوار موجودہ حکومت کے دور میں مسلسل گراوٹ کا شکار رہی ہے۔ مالی سال 2019ء کی پہلی سہ ماہی میں لارج اسکیل مینوفکچرنگ منفی 0.5 فیصد، دوسری سہ ماہی میں 2.9 فیصد اور تیسری سہ ماہی میں منفی 4.8 فیصد رہی۔ اسی طرح مالی سال 2020ء کی پہلی سہ میں بڑی صنعتوں کی پیداوار 5.7 فیصد دوسری سہ ماہی میں صفر فیصد اور تیسری سہ ماہی میں منفی 8.4 فیصد رہی۔
اب گزشتہ چند ماہ سے صنعتی پیداوار میں اضافہ دیکھا جارہا ہے جس میں ٹیکسٹائل صنعت کے علاوہ سیمنٹ، سریا اور تعمیراتی خام مال کی صنعتیں شامل ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر جیسے ہی ان صنعتوں میں پیداواری عمل بحال ہوا ہے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس سے دوبارہ منفی ہوگیا ہے۔
معروف معاشی تجزیہ کار شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ ’کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کرکے موجودہ حکومت نے ترقی کو جمود کا شکار کردیا ہے اور شرح نمو سست کردی ہے اور اس کی وجہ سے غیر ملکی شکنجہ سخت ہوگیا ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ برآمدات بڑھا کر ختم کیا جاتا تو وہ حکومت کو سلام پیش کرتے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے۔
شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ ’موجودہ حکومت کے 5 سال مکمل ہوں گے تو اس کی اوسط شرح نمو سابقہ حکومت سے کم رہے گی اور افراطِ زر کی سطح سابقہ حکومت سے بہت زیادہ رہے گی جبکہ ملازمتوں کی صورتحال مخدوش ہوگی‘۔
مزید پڑھیے: مہنگی مرغی اور خان کا وعدہ
20 جنوری کو اسٹیٹ بینک نے کرنٹ اکاؤنٹ کے اعداد و شمار جاری کیے جس سے پتا چلتا ہے کہ 5 ماہ مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہنے کے بعد خسارے میں تبدیل ہوگیا ہے اور دسمبر 2020ء میں 66 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ رواں مالی سال کے 6 ماہ میں مجموعی کرنٹ اکاؤنٹ 1 ارب 10 کروڑ ڈالر سرپلس ریکارڈ کیا گیا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دوبارہ اُمڈ آنے کی بڑی وجہ چینی اور گندم کے علاوہ صنعتوں کے خام مال کی درآمدات میں ہونے والا اضافہ ہے۔
گزشتہ دنوں وزرا کی ٹیم نے بھرپور میڈیا بریفنگ کا اہتمام کیا جس میں بہت سی باتیں کی گئیں۔ اسد عمر نے اس پریس کانفرنس میں یہ خوشخبری سنائی کہ دسمبر 2020ء میں دسمبر 2019ء کی نسبت برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور 12 سال بعد کسی ایک ماہ میں برآمدات اتنی تیزی سے بڑھی ہیں۔ اب اسد عمر کے دعوے اور اسٹیٹ بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں ہونے والے خسارے کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھ لیں تو صورتحال واضح ہوجائےگی۔ صنعتی ترقی شروع ہوئی تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سرپلس میں تبدیل کرنے والی سب سے اہم چیز ہے سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ہونے والی ترسیلاتِ زر ہے، جس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس اضافے کی ایک وجہ کورونا وائرس بھی ہے۔ یعنی اس وائرس کی وجہ سے عام افراد کی نقل و حرکت میں کمی ہوئی اور یوں جو پاکستانی رقوم اپنے ساتھ وطن لاتے تھے اب وہ رقوم بھی بینکاری نظام کے ذریعے آرہی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پاکستانی اپنی بچت کو بھی بیرونِ ملک سے منتقل کررہے ہیں۔
اگر موجودہ حکومت کو معیشت میں کوئی اصلاح کرنی ہے تو پھر معیشت کے اعداد و شمار کو الگ تھلگ دیکھنے اور عوام کو دکھانے کے بجائے ہر چیز کی وجوہات اور اس کے اثرات کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ لیکن اب تک موجودہ معاشی ٹیم میں اس طرح کی سوچ ابھرتی ہوئی نظر نہیں آرہی اور اس سوچ کی عدم موجودگی میں درست معاشی پالیسی کی ترتیب بھی ممکن نہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں