• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

انسانی جسم ماضی میں ہونے والے کورونا وائرسز کے حملے کو 'یاد' رکھتا ہے

شائع January 24, 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو

ماضی میں کسی بھی قسم کے کورونا وائرس کا سامنا مدافعتی نظام کو نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے لڑنے کے لیے تیار کرتا ہے۔

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

ہوسکتا ہے کہ آپ کو علم نہ ہو مگر متعدد اقسام کے کورونا وائرسز دنیا میں گردش کررہے ہیں، جن میں سے بیشتر عام نزلہ زکام جیسی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

تاہم 2012 میں مرس اور 2003 میں سارس کوو 1 میں جان لیوا کورونا وائرسز سامنے آئے تھے۔

اس نئی تحقیق میں جانچ پڑتال کی گئی کہ کورونا وائرسز کس طرح انسانی مدافعتی نظام پر اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا کہ ان سے پیدا ہونے والا اینٹی باڈی ردعمل نئے کورونا وائرس کے خلاف کس طرح کام کرتا ہے۔

امریکا کے ٹرانزیشنل جینومکس ریسرچ انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے جسم میں ایک ایسا اینٹی باڈی ردعمل بیدار ہوتا ہے جو ماضی کے کورونا وائرسز کا سامنا ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے، جس سے ہمیں لگتا ہے کہ متعدد افراد کو اس وائرس کے حوالے سے پہلے سے کسی قسم کا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے سائنسدانوں کو تشخیص اور علاج کی نئی تیکنیکس تیار کرنے میں مدد مل سکے گی، بلڈ پلازما کی افادیت کی جانچ پڑتال کے ساتھ ویکسینز یا مونوکلونل اینٹی باڈی تھراپیز کو ڈیزائن کرنا ممکن ہوسکے گا، جس سے لوگوں کو کورونا وائرس کی نئی اقسام سے بچایا جاسکے گا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج میں مدافعتی نظام کے ان حصوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جہاں دیگر کورونا وائرس سے سابقہ ہونے پر اینٹی باڈی ردعمل نظر آتا ہے، جو وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح بڑھانے کے لیے بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز نئے کورونا وائرس کے عناصر کو جکڑ سکتی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں کورنا وائرسز کی مختلف اقسام کا سامنا نئے وائرس کے خلاف مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق سے یہ ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ نئے کورونا وائرس سے بیشتر افراد میں بیماری کی شدت معمولی یا علامات ظاہر کیوں نہ نہیں ہوتیں یا کچھ میں یہ بہت زیادہ کیوں ہوتی ہے اور انہیں ہسپتال داخل کرانا پڑتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ نئے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ماضی میں کورونا وائرس کی بیماری کے دوران کسی فرد کا مدافعتی ردعمل کس حد تک کووڈ 19 کی شدت پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سیل رپورٹس میڈیسین میں شائع ہوئے۔

یہ پہلی بار نہیں جب کسی تحقیق میں اس طرح کے نتائج سامنے آئے، اس سے قبل اکتوبر 2020 میں بھی ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا تھا کہ ماضی میں ہونے والا عام نزلہ زکام کووڈ 19 سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔

جریدے ایم بائیو میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے پر ایسے بی سیلز بنتے ہیں جو طویل عرصے تک جراثیموں کو شناخت کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بھی ان کو یاد رکھتے ہیں جبکہ ان کے خاتمے کے لیے اینٹی باڈیز بھی بناتے ہیں۔

یعنی اگلی بار جب جراثیم دوبارہ جسم میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بی سیلز متحرک ہوکر بیماری کے آغاز سے قبل ہی ان کو صاف کرتے ہیں۔

اس تحقیق میں پہلی بار بی سیلز کی کراس ری ایکٹیویٹی کو بھی رپورٹ کیا گیا، یعنی عام نزلہ زکام پر حملہ کرنے والے بی سیلز بظاہر نئے کورونا وائرس کو بھی پہچان سکتے ہیں۔

محققین کا ماننا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز سے متاثر افراد (جو کہ لگ بھگ ہر ایک ہی ہوتا ہے)، کو کووڈ 19 کے خلاف کسی حد تک مدافعت حاصل ہوجاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب ہم نے کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد کے خون کے نمونوں کا جائزہ لیا، تو ایسا نظر آیا جیسے متعدد میں ایسے بی سیلز موجود تھے جو نئے کورونا وائرس کو شناخت ہیں اور بہت تیزی سے ان پر حملہ کرنے والے اینٹی باڈیز تیار کرسکتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024