• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

بجلی کے فی یونٹ میں ایک روپے 95 پیسے کا اضافہ کرنے جارہے ہیں، عمر ایوب

شائع January 21, 2021
عمر ایوب  نے کہا کہ ’اگر ایک سال اعداد و شمار لیں تو 2 روپے 18 پیسے اضافہ ہونا چاہیے تھا 
----فوٹو: ڈان نیوز
عمر ایوب نے کہا کہ ’اگر ایک سال اعداد و شمار لیں تو 2 روپے 18 پیسے اضافہ ہونا چاہیے تھا ----فوٹو: ڈان نیوز

وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بجلی سے متعلق لازمی ادائیگی 227 ارب روپے کی ’بارودی سرنگ‘ ہمیں ورثے میں ملیں اور اب بجلی کی قیمت ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ بڑھانے جارہے ہیں۔

اسلام آباد میں وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر اور معاون خصوصی تابش گوہر کے ہمراہ پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے بجلی کی مد میں لازمی ادائیگی کا قرضہ ہمارے لیے چھوڑا جو 227 ارب روپے تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں بجلی بحران برقرار، تمام اسٹیک ہولڈرز ذمہ داری لینے سے گریزاں

عمر ایوب نے بتایا کہ بجلی استعمال کی جائے یا نہ کی جائے بجلی کے کارخانوں کو 2023 تک ایک ہزار 455 ارب روپے ادائیگی کرنی پڑے گی، یہ وہ بارودی سرنگ ہے جو مسلم لیگ (ن) نے قصداً، بدنیتی کے ساتھ ایسے معاہدے کیے۔

اس دوران وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے وضاحت دی کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جو معاہدے کیے اس کے نتیجے میں لازمی ادائیگی کی رقم کو پورا کرنے کے لیے 9 روپے فی یونٹ اضافہ کرنا تھا، سابقہ حکومت کے انہی فیصلوں کی وجہ سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

عمر ایوب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ صرف توانائی کے شعبے سے عوام کے تحفظ کے لیے گزشتہ سال 473 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی بحران: کے-الیکٹرک سسٹم اپ گریڈنگ میں ناکامی پر مسائل کا شکار ہے، وزارت توانائی

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے غلط کارخانے لگائے جس میں درآمدی فیول استعمال ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر ایک سال کے اعداد و شمار لیں تو 2 روپے 18 پیسے اضافہ ہونا چاہیے تھا جبکہ ہم نے بجلی کے فی یونٹ میں ایک روپے 95 پیسے کا اضافہ کرنے جارہے ہیں‘۔

مالیاتی سال کے پہلے 6 ماہ میں 208 ارب روپے کے ترقیاتی کام ہوئے ہیں، اسد عمر

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں 208 ارب روپے کے ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافہ خوش آئند ہے۔

اس ضمن میں انہوں نے مزید کہا کہ دسمبر 2020 میں دسمبر 2019 کی نسبت بر آمدات میں اضافہ ہوا جو گزشتہ 12 سال میں کسی ایک ماہ میں اتنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

---فوٹو: ڈان نیوز
---فوٹو: ڈان نیوز

اسد عمر نے کہا کہ نومبر میں مجموعی طور پر بڑی صنعتوں میں دہائیوں کے بعد 15 فیصد گروتھ ریکارڈ کی گئی، ان کا کہنا تھا کہ بڑی 15 میں سے 10 صنعتوں میں تیزی نظر آئی۔

انہوں نے کہا کہ وفاق کی جانب سے پاکستان ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت پہلے 6 ماہ میں 208 ارب روپے کی ترقیاتی کام کروائے گئے جو پی ایس ڈی پی کے سالانہ بجٹ کا 32 فیصد بنتا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایکسپورٹس میں ساڑھے اٹھارہ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں وفاق کے تحت جاری ترقیاتی پروگرام کی نگرانی کا نظام انتہائی فعال اور مؤثر ہے۔

مزید پڑھیں: کے-الیکٹرک کا گیس فراہمی میں کمی کا دعویٰ جھوٹا ہے، سوئی سدرن

اسد عمر نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس نظر آرہا ہے اور ایسا ایک دہائی کے بعد دیکھنے میں نظر آیا ہے۔

وفاقی وزیر نے یاد دہانی کرائی کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے سے تین ماہ پہلے ماہانہ خسارہ اوسطاً 2 ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اعلان کیے گئے انڈسٹریل ٹیرف کے نتیجے میں مثبت اعشاریے سامنے آرہے ہیں، بجلی کے استعمال میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ پچھلی حکومت سب سے بڑا چیلنج بجلی کا نظام ہمارے لیے چھوڑ کر گئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jan 22, 2021 09:36pm
جب برآمدی فیول کے معاہدے کیے جارہے تھے تب عمرایوب خان حکومت کا حصہ تھے اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تابش گوہر جس کمپنی کے ملازم تھے ان کے لیے یہ معاہدہ کروا رہے تھے۔ نیپرا سے منظوری کے وقت غیر ملکی افراد نے آف دی ریکارڈ گفتگو میں کہا تھا کہ ہم کسی بھی ملک میں اپنا کوئلہ بیچنے کے لیے بجلی کے پلانٹ مفت میں لگانے کے لیے تیار ہے تاکہ ہمارا کوئلہ سارا سال بکتا رہے۔اس وقت بھی نیپرا سے کوئلے کے پلانٹ نہ لگانے یا پھر ہمارے اپنے ملک کے کوئلے تھر میں ہی پلانٹ لگانے کی گزارش کی تھی مگر اس پر خاص مقاصد کے تحت کان نہیں دھرے گئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024