مارٹن کی بیوی اور میرا خواب
میں نے کتاب کا سرورق پھر پلٹ کے دیکھا۔ اس پر جلی حروف میں ’لوسڈ ڈریمنگ‘ لکھا تھا اور شوخ رنگوں سے پگھلی ہوئی گھڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ مجھے کتاب دلچسپ لگی سو اپنے تھیلے میں ڈال کر کاؤنٹر کی طرف چل پڑا۔
آج کاؤنٹر پر پھر ربیکا کھڑی تھی۔ خداوند کے حکم سے آج پھر کسی بیوقوفی پر اس حسینہ کے ہاتھوں ذلیل ہوں گا، یہ سوچتے ہوئے خریداروں کی قطار میں کھڑا ہوگیا۔ خوبصورت تو وہ تھی ساتھ میں اسے لوگوں سے بات کرنے کا ڈھنگ بھی خوب آتا تھا۔
میرے لیے یہی کافی تھا کہ چند لمحے وہ مجھ سے بات کرلیتی، لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ میری خانماں خراب تنہائی کی درجہ اوّل کی رفیق ہے۔ اسے تو کسی اعلیٰ کمپنی کے باس کی سیکرٹری ہونا چاہیے تھا لیکن شاید بڑھتی عمر اور 2 بچوں کے بعد گھر کے خرچے اسے یہ نوکری کرنے پر مجبور کیے ہوئے تھے۔
مجھے دیکھتے ہی اس کے چہرے پر پیشہ ور مسکان پھیل گئی جو میرا تھیلا دیکھتے ہی حیرانی کے تاثر میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور کہنے لگی آج پھر ہمارا اسٹور لوٹ کر جارہے ہو جون۔
میں لہجے میں بے چارگی بھر کر بولا یہ کیسی لوٹ مار ہے کہ اس کے پیسے بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔
وہ قہقہہ لگا کر ہنسی حالانکہ میری بات ایسی مزاحیہ تو نہ تھی لیکن شاید وہ میرے شکل بنانے پر ہنسی ہوگی کیونکہ میں ایک غریب شکل رکھتا ہوں اور اس پر اگر مسکینی کے تاثرات ابھار لوں تو سونے پر سہاگے کا سا سماں بندھ جاتا ہے۔ سماں میرے منہ کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں پر بھی بندھ جاتا ہے۔ میں کئی بار بہت سارے گھمبیر حالات میں اپنی اس ترسیلی شکل کی بدولت بچ نکلنے میں کامیاب ہوا ہوں۔
آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر کئی بار میں نے بھیک مانگنے کے بارے میں بھی سوچا مگر ابھی ایسا وقت نہیں آیا، گزر بسر ہو ہی جاتی ہے۔
میں گھڑیوں کی دکان پر کام کرتا ہوں۔ آمدنی تو کچھ خاص نہیں لیکن ساتھ ساتھ پیسے جوڑتا رہتا ہوں۔ بس اتنے پیسے کہ کھانا پینا چلتا رہے اور نشہ پورا ہوتا رہے، کتابوں کا نشہ۔ میرا وہ زنبیل نما تھیلا جس کو دیکھ کر ربیکا حیران ہورہی تھی دراصل اس میں کتابیں بھری تھیں اور وہ دکان جو میں لوٹ کر جارہا تھا وہ آکسفیم کی کتابوں کی دکان تھی۔
آکسفیم ایک فلاحی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہاں سے مجھے بہت ساری کتابیں سستے داموں مل جاتی ہیں، بلکہ کوڑیوں کے دام کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔
نیو ہیم کا علاقہ جہاں میں رہتا ہوں، اس سے قریب 10 منٹ کے پیدل سفر پر یہ دکان واقع ہے۔ یہ لندن کا ایک سستا علاقہ ہے۔ یوں کہہ لیں کہ خاص غریبوں کے لیے بسایا گیا ہے۔ مائیکل کی مہربانی ہے کہ اس نے پرانی شناسائی ہونے کے سبب مجھے اپنے ایک کمرے کے گھر میں جگہ دی۔
کرائے کے نام پر میں اپنی 10 پاؤنڈ کی تنخواہ میں سے 2 پاؤنڈ اسے بطور کرایا ادا کردیتا تھا۔ پچھلے مہینے جب وہ کارڈف اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے لیے جا رہا تھا، تو میں نے وعدہ کیا تھا کہ کرایہ منی آرڈر کردیا کروں گا لیکن خیر سے وہ پیسے بھی میں نشہ پورا کرنے پر اُڑا چکا تھا۔ اب میرے پاس صرف 2 پاؤنڈ بچے تھے۔
ڈیڑھ پینی کی کافی لے کر میں کمرے میں آگیا۔ سب سے پہلے یہی لوسڈ ڈریمنگ والی کتاب پڑھنا شروع کی۔ کتاب میں مختلف مشقیں اور انہیں کرنے کا طریقہ درج تھا۔ مثلاً ہر خواب کو آنکھ کھلتے ہی لکھنا، سونے اور جاگنے کا وقت مقرر کرنا۔ خواب میں گزرا وقت حقیقت میں گزر رہے وقت سے مختلف ہوتا ہے لہٰذا وقت کو جانچنے، کہ آیا آپ خواب میں ہیں یا حقیقت میں، کے لیے الگ مشقیں تھیں۔
سب سے الگ اور پیچیدہ مشق یہ تھی کہ اگر سوتے وقت آپ پر نیند کا فالج طاری ہوجائے تو گھبرا کر اٹھنا نہیں بلکہ اسے طاری رہنے دینا ہے کیونکہ اس سے خواب کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرنے میں کمال حاصل ہوجائے گا۔
میں بچپن سے اس کیفیت کا عادی ہوں۔ اسے میں قابوس کہا کرتا ہوں۔ یہ کیفیت جب بھی نیند میں مجھ پر طاری ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے میرے سینے پر کوئی بہت ہی بڑا بوجھ رکھ دیا گیا ہے یا کوئی بلا چڑھ کر بیٹھ گئی ہے۔ میں اس کیفیت سے نکلنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں لیکن نہیں نکل پاتا۔ 10، 15 سیکنڈ کی کشمکش کے بعد جب میں اس کیفیت سے نکلتا ہوں تو میری سانس پھولی ہوئی ہوتی ہے اور میں پسینے سے بھیگا ہوتا ہوں۔ اس دوران بہت ہی خوفناک خواب آتے ہیں۔
غریب تو میں شروع دن سے تھا۔ امیری کے خواب دیکھنا میری عادت تھی اس لیے شارٹ کٹ مارنا تو میرا حق بنتا تھا۔ سوچا کیوں نہ اس نیند کے فالج پر قابو پایا جائے، باقی مشقیں تو آسان ہی ہیں۔ مائیکل اکثر اوقات سونے سے پہلے ایک سفوف پھانکا کرتا تھا۔ بقول اس کے اس سے نیند جلدی آجاتی تھی۔ میں نے ایک چمچ برابر اسی کی پھکی ماری اور گرم کافی کے گھونٹ کے ساتھ نگل گیا۔
دوپہر کے 2 بج رہے تھے، یہ سونے کا وقت نہیں تھا لہٰذا مجھے مکمل یقین تھا کہ بے وقت کی یہ پھکی لے کر زبردستی سونے کی کوشش، قابوس کو لازمی دعوت دے گی۔
اور پھر وہی ہوا۔ مجھے نیند کا غلبہ محسوس ہونے لگا۔ جسم بستر میں دھنسنا شروع ہوگیا۔ بوجھ تیزی سے میرے سینے پر قبضہ جمائے جا رہا تھا لیکن مجھے اسے بس چند لمحے برداشت کرنا تھا۔ میں خلا میں ڈوبتا جارہا تھا۔ میں گھپ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میری آنکھیں بند تھیں۔ میں تیزی سے ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا لیکن میرا جسم ساکت تھا۔ بہت ہمت کی میں نے لیکن برداشت نہ کرسکا اور اٹھ بیٹھا۔ میری سانس پھولی ہوئی تھی اور جسم پسینے سے شرابور تھا۔ رات ہوچکی تھی۔
کچھ دیر بعد حواس جگہ پر آئے تو مجھے خنکی کا احساس ہوا۔ کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ میں اٹھ کر کھڑکی بند کرنے لگا تو دیکھا باہر ربیکا کھڑی ہے۔ بالکل ساکت اور میری طرف دیکھے جا رہی ہے۔ میں نے اسے آواز دی لیکن وہ وہیں کھڑی رہی۔ میں باہر نکلا اور چکر کاٹ کر گھر کی پچھلی طرف پہنچا جہاں ربیکا کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی لپٹ گئی اور زار و قطار رونے لگی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ میں اسے گھر کے اندر لے آیا۔ آگ جلا کر ہم دونوں اس کے سامنے بیٹھ گئے۔ اس کا رونا تھما تو کہنے لگی کہ وہ اپنے شوہر مارٹن سے لڑ کر گھر سے باہر نکل آئی اور سمت کا تعین کیے بغیر چلتی چلتی یہاں پہنچ گئی۔
میں نے اسے دلاسہ دیا جس سے وہ بہت اچھا محسوس کرنے لگی۔ میرے دل میں جنگ چل رہی تھی کہ اسے گھر چھوڑ آؤں یا شیطانی وسوسوں کو عملی جامہ پہناؤں۔ وہ بھی تقریباً راضی نظر آ رہی تھی عین اسی لمحے دروازہ ایک دھماکے سے اڑ کر سامنے کی دیوار سے جا لگا۔
میں اپنی جگہ جم کر رہ گیا۔ ٹوٹے ہوئے دروازے کے خلا سے ربیکا کا شوہر دو نالی بندق تھامے اندر داخل ہورہا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر اسے کچھ کہہ رہی تھی لیکن مجھے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ میں اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اٹھ نہیں پاتا تھا۔
مارٹن ربیکا کے پیٹ میں دو کارتوس اتار چکا تھا اور وہ اڑ کر ادھڑے ہوئے دروازے کے اوپر اپنے ہی خون میں ڈوب رہی تھی۔ اب مارٹن اور اس کی بندوق کا رخ میرے سینے کی طرف تھا۔ میرے سینے پر بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے بندوق میرے سینے پر رکھ دی۔
میں نے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن میرا جسم ساکت تھا۔ اور پھر دو کارتوس میرا سینہ چیرتے ہوئے بے حس و حرکت جسم میں پیوست ہوگئے۔
میری آنکھ کھل چکی تھی۔ سانس بُری طرح پھولی ہوئی تھی۔ میں پسینے سے شرابور تھا۔ دوپہر کے 2 بج کر 12 منٹ ہوئے تھے۔ کافی ابھی پوری ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی۔
تبصرے (5) بند ہیں