پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس پر ایک نظر
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور موجودہ وزیراعظم عمران خان سے پارٹی میں مبینہ اندرونی کرپشن اور سیاسی فنڈنگ سے متعلق قوانین کے غلط استعمال پر اختلاف کے بعد پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اور درخواست گزار اکبر ایس بابر نے 2014 میں ای سی پی میں غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق کیس دائر کیا تھا۔
کیس میں الزام لگایا گیا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے 'ہنڈی' کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی۔
ان کا یہ بھی الزام تھا کہ جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے، اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔
بعد ازاں ایک سال سے زائد عرصے تک اس کیس کی سماعت ای سی پی میں تاخیر کا شکار رہی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے ای سی پی کو روکا جائے۔
جس کے بعد فروری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار پر جائزہ لینے کے لیے کیس کو دوبارہ ای سی پی کو بھیج دیا تھا اور اسی برس ستمبر میں ایک حکم جاری کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو غیر ملکی فنڈنگ کے ذرائع الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
بعدازاں 12 مارچ 2018 کو الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔
تاہم 19 مارچ کو الیکشن کمیشن کے 2 نامزد ارکان نے پارٹی اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے بنائی گئی 3 رکنی کمیٹی میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی تھی۔
بعدازاں 3 اپریل 2018 کو الیکشن کمیشن کی نئی اسکروٹنی کمیٹی عمل میں آئی جسے ایک ماہ میں تمام امور نمٹانے کی ہدایت کی گئی تھی تاہم جلد ہی اس کے مینڈیٹ میں غیر معینہ مدت تک کے لیے توسیع کردی گئی تھی اور کمیٹی اب تک فارن فنڈنگ کی تحقیقات کررہی ہے۔
جولائی 2018 میں پی ٹی آئی کے بینک ریکارڈ اور اسٹیٹمنٹ کے لیے کی جانے والی درخواست کی تمام تر کوششوں کے خاتمے کے بعد الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے پارٹی کے بینک اسٹیٹمنٹس فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔
جس پر اسٹیٹ بینک کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ حکمراں جماعت ملک بھر میں 18 خفیہ بینک اکاؤنٹس استعمال کررہی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے شیڈول بینکوں سے حاصل کی جانے والی معلومات الیکشن کمیشن میں جمع کروائیں جس میں یہ بات سامنے آئی کہ پی ٹی آئی کے ملک کے مختلف شہروں میں کل 26 بینک اکاؤنٹس ہیں لیکن الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی معلومات میں صرف 8 کے بارے میں بتایا گیا۔
دیگر 18 بینک اکاؤنٹس جعلی یا غیر قانونی اکاؤنٹس کے زمرے میں آتے ہیں کیوں کہ پی ٹی آئی نے انہیں قانون کے تحت الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں ظاہر نہیں کیا۔
دوسری جانب فارن فنڈنگ کیس کے دائر ہونے کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے تحقیقات کو روکنے، اسے خفیہ رکھنے اور کمیٹی کی تشکیل کے خلاف سمیت متعدد درخواستیں دائر کی گئیں جن میں اکثر مسترد ہوگئیں۔
کمیٹی کے قیام کے ایک ماہ بعد ہی 17 مئی 2018 کو پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں اس کیس کی کارروائی خفیہ رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔
بعدازاں پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کیس کا جائزہ لینے کے لیے ای سی پی کا اجلاس تقریباً 17 ماہ بعد یکم اکتوبر 2019 کو ہوا تھا جس میں اکاؤنٹس کے آڈٹ پر حکمراں جماعت کی جانب سے کیے گئے اعتراضات کی 4 اپیلوں پر فیصلہ محفوٖظ کیا گیا جسے 10 اکتوبر کو سناتے ہوئے ان درخواستوں کو مسترد کردیا تھا۔
بعدازاں سال 2019 میں بھی غیر ملکی فنڈنگ کیس کی جانچ پڑتال میں راز داری کے لیے پارٹی کی جانب سے 4 درخواستیں دائر کی گئیں جنہیں الیکشن کمیشن نے 17 دسمبر 2019 کو مسترد کردیا تھا۔
علاوہ ازیں پی ٹی آئی نے 7 نومبر 2019 کو الیکشن کمیشن کی جانب سے کمیٹی کے قیام کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل مکمل نہیں ہے اس لیے غیر ملکی فنڈنگ کی اسکروٹنی کے لیے قائم خصوصی کمیٹی کو کام سے روکا جائے۔
اس کے چند روز بعد ہی اسکروٹنی کمیٹی کے 12 نومبر کو مقرر کردہ اسکروٹنی اجلاس سے ایک روز قبل پی ٹی آئی نے غیر ملکی فنڈنگ کے ذرائع کی تحقیقات روکنے اور ای سی پی کا 10 اکتوبر کا حکم معطل کرنے کی ایک اور درخواست دائر کردی تھی۔
تاہم 17 دسمبر 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسکروٹنی کمیٹی کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے 21 نومبر 2019 کو پی ٹی آئی کے خلاف درج فارن فنڈنگ کیس کی اسکروٹنی روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا حکم دیا تھا لیکن چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین ڈیڈ لاک کے باعث بھی یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہوا۔
جون 2020 تک مذکورہ کمیٹی کے 70 اجلاس ہوچکے تھے لیکن اس وقت تک کمیٹی انکوائری مکمل کرنے اور ای سی پی میں اس کی رپورٹ جمع کروانے میں ناکام رہی تھی۔
جس پر کمیٹی کو اپنی رپورٹ جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے حتمی مہلت دی گئیں، جسے بعد میں 17 اگست تک توسیع دے دی گئی اس کے نتیجے میں 13 اگست کو کمیٹی نے اپنی تحقیقات مکمل کیں۔
تاہم 21 ستمبر کو ای سی پی نے فارن فنڈنگ کیس میں اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے جمع کروائی گئی 'نا مکمل' رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ نہ تو مکمل تھی اور نہ ہی تفصیلی تھی۔
کیس کی سماعت تاحال الیکشن کمیشن میں جاری ہے جس میں تازہ ترین پیش رفت 24 دسمبر 2020 کو سامنے آئی اور حکمراں جماعت اکاؤنٹس کے آڈٹ کرنے والے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اسکروٹنی کمیٹی کے پاس مزید دستاویزات جمع کرا دی تھیں۔
اس کیس میں سب سے دلچسپ موڑ چند روز قبل 13 جنوری کو سامنے آیا جب اسکروٹنی کمیٹی کے سوال نامے کے تحریری جواب میں پی ٹی آئی نے یہ وضاحت پیش کی کہ اگر عمران خان کی تحریری ہدایت کے بعد رجسٹرڈ ہونے والی دو امریکی کمپنیوں نے کوئی فنڈز غیر قانونی طور پر اکٹھے کیے ہیں تو اس کی ذمہ داری ان کمپنیوں کا انتظام سنبھالنے والے ایجنٹس پر عائد ہوتی ہے۔