گیس سپلائی چَین کا معائنہ کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل
اسلام آباد: کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او ای) نے پائپ لائن کی صلاحیت کی دستیابی اور اسے کس طرح ری گیسیفائڈ لیکوئیفائڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) کے لیے استعمال کیا جائے، کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق معلومات رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ سی سی او ای کا وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کی صدارت میں مختصر اجلاس ہوا کیونکہ چند متعلقہ اسٹیک ہولڈر کراچی میں تھے اور ممکنہ طور پر ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شرکت نہیں کرسکتے تھے۔
مزید پڑھیں: گیس کی قلت، پریشر میں کمی سے توانائی کے شعبے کو فراہمی متاثر
اس وجہ سے اسد عمر نے اپنی زیرصدارت ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جس میں وزرا، توانائی اور سمندری امور کی وزارتوں کے معاونین خصوصی شامل ہیں اور یہ کمیٹی پوری قدرتی گیس / ایل این جی سپلائی چَین کا معائنہ کرے گی اور 10 دن کے اندر اس مسئلے پر ایک جامع راستہ تلاش کرے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ پورٹ قاسم سے ایس ایس جی سی ایل کے پاک لینڈ ٹائی ان پوائنٹ تک 17 کلو میٹر طویل پائپ لائن کی تکمیل کے ساتھ ایل این جی کی نقل و حمل کے لیے پائپ لائن کی مجموعی گنجائش میں 500 سے 600 ایم ایم سی ایف ڈی (ملین کیوبک فٹ یومیہ) کی بہتری آئی ہے تاہم موجودہ 2 ٹرمینلز پر ایل این جی کی دوبارہ گیسفیکیشن کی صلاحیت محدود ہے۔
اسی دوران ایل این جی ٹرمینلز کے 2 سرمایہ کاروں، جنہیں حال ہی میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے سیلز اور مارکیٹنگ لائسنس دیے ہیں، کا اپنے ٹرمینلز لگانے کا منصوبہ ہے جو متوقع ہے کہ وہ دو برسوں میں لائن سے جڑ جائیں گے۔
تاہم وہ چاہتے ہیں کہ اپنے صارفین کی طلب کو قلیل مدت میں پورا کرنے کے لیے سرکاری اداروں کی غیر استعمال شدہ استعداد کار کو حاصل کریں۔
دوسری جانب اوگرا نے دو مزید کمپنیوں، گوادر میں ڈیوو گیس اور پورٹ قاسم میں ایل این جی ایزی، کو بھی اپنے ایل این جی کے باؤزرز منتقل کرنے کے لیے ورچوئل پائپ لائن لائسنس کی منظوری دے دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ میں موسم سرما کے دوران گیس کی شدید قلت کا امکان
جہاں یہ نئی پیشرفتیں ہو رہی ہیں وہیں گیس کی طلب اور رسد کے درمیان فرق بڑھتا جارہا ہے اور حکومت نے مختلف شعبوں کو گیس کی فراہمی کے سلسلے میں نئی پالیسی میں ایڈجسٹمنٹ کی ہے اور اس سے بجلی گھروں کی مختلف کیٹیگریز کو گیس کی فراہمی منقطع کرنی ہوگی۔
ایک سمری کے مطابق وزارت بحری امور نے سی سی او ای کو تجویز پیش کی ہے کہ ایل این جی کے نئے ڈیولپرز کو موجودہ پائپ لائن میں گنجائش فراہم کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے 'اگر موجودہ پائپ لائن نیٹ ورک میں پائپ لائن کی گنجائش موجود ہے تو حکومت اسے تب تک خود ایل این جی درآمد کرنے کے لیے اسے استعمال کرسکتی ہے جب تک نئے ٹرمینلز نہیں لگتے اور پھر پائپ لائن کی موجودہ گنجائش نئے ٹرمینلز میں منتقل کی جاسکتی ہے'۔
مزید پڑھیں: گیس پریشر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو گرمیوں میں بجلی کی بندش کا سامنا رہے گا، کے الیکٹرک
وزارت نے کہا کہ دوسرا یہ کہ کوئی بھی صلاحیت، چاہے وہ 'غیر استعمال شدہ' ہو یا 'زیادہ' ہو، متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے منظوری کے بعد، نجی پارٹیز کو صرف 3ماہ کی فارورڈ وزیبلٹی کی بنیاد پر پیش کیا جانا چاہیے۔
اس میں کہا گیا کہ جیسا کہ وزارت توانائی (پیٹرولیم ڈویژن) کی جانب سے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے فیصلوں کی بنیاد پر روشنی ڈالی گئی، گیس کی یوٹیلیٹیز کو نئے ایل این جی ٹرمینل ڈیولپرز– تعبیر اینرجی اور انرگیس، کے ساتھ گیس ٹرانسمیشن ایگریمنٹ (جی ٹی اے) کا مسودہ شیئر کرنے کی ہدایت کی جانی چاہیے۔