برطانوی جج کی براڈ شیٹ فیصلے میں نیب کی سرزنش
اسلام آباد: اگست 2016 میں واجبات کے دعوے کے حتمی فیصلے میں سر انتھونی ایوانز نے کہا کہ قومی احتساب بیورو(نیب) نے براڈ شیٹ کے معاشی نقصان کا خطرہ معلوم ہونے کے باوجود اسے نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ کیا۔
جیسا کہ دعوے دار نے کہا کہ براڈ شیٹ کو جمی جیمز اور اس کی کولوراڈو کمپنیوں کے ساتھ 20 مئی 2008 کے تصفیہ معاہدے میں شمولیت یا انہیں ادائیگی کے سلسلے میں جو نقصان پہنچ سکتا تھا اسے نظر انداز کیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سر انتھونی اینواز نے لکھا کہ 'میں قرار دیتا ہوں کہ وہ نیب کا ایک غیر ذمہ دارانہ طرز عمل تھا جس نے اذیت ناک واجبات میں اضافہ کیا'۔
انہوں نے مزید لکھا کہ شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ جنہوں نے نیب کی جانب سے ہوئے تصفیے کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا انہیں یقین تھا کہ براڈ شیٹ لیکویڈیشن یعنی ختم ہونے کے عمل میں تھی اور لیکویڈیٹر بات چیت میں فریق نہیں ہوتا اور جمی جیمز کی یہ وضاحت قبول کرلی گئی کہ براڈ شیٹ ایل ایل سی اب براڈ شیٹ ایل ایل سی اِن کولوراڈو کی صورت میں تشکیل نو پا چکی ہے جو سب سے بہترین قانونی تصور تھا اور اگر درست ہوتا تو اس کا صرف یہ مطلب تھا کہ براڈ شیٹ کا وجود ختم ہوچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: براڈ شیٹ معاملے میں کی گئی ادائیگی، ماضی کی ڈیلز کی قیمت ہے، شہزاد اکبر
فیصلے میں کہا گیا کہ سینئر وکیل احمر بلال صوفی جنہوں نے نیب کی جانب سے بحیثیت کنسلٹنٹ کام کیا انہوں نے لندن میں 2 چیکس کے ذریعے براڈ شیٹ ایل ایل سی جبرالٹر (ایک بدنام کمپنی) یا براڈ شیٹ ایل ایل سی (کولوراڈو) اور جمی جیمز کو سمجھوتے کی رقم 15 لاکھ ڈالر ادا کی۔
فیصلے کے مطابق فروری 2008 میں جمی جیمز نے کنسلٹنٹ کو بتایا کہ براڈ شیٹ آئلز آف مین نامی جزیرے میں ختم ہونے کے عمل میں ہے اور کمپنی کو کولوراڈو اور ایس اے میں کسی طرح دوبارہ منظم کیا گیا، (تاہم) جمیز نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ لیکویڈیٹر کے لیے کام کررہا ہے۔
جب تک تصفیے کا فیصلہ ہوا احمر بلال صوفی اور نیب کا خیال یہی تھا کہ براڈ شیٹ لیکویڈیشن کے عمل میں ہے ساتھ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ختم ہونے والی کمپنی مذاکرات میں شریک ہوتی ہے تصفیے کے معاہدے میں فریق بنتی ہے۔
مزید پڑھیں: براڈ شیٹ اسکینڈل پر بنائی گئی کمیٹی انکشافات کرے گی، شبلی فراز
شکایت گزار براڈ شیٹ کو اے آر اے کی غلط تردید سے ہونے والے نقصان کی وصولی کا حقدار ٹھہراتے ہوئے عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا کہ مارچ 2005 کے بعد سے جمی جیمز کے پاس شکایت گزار کی جانب سے تصفیہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
17 دسمبر 2018 کے سر انتھونی ایوانز کے کوانٹم ایوارڈ پر فیصلے میں تذکرہ کیا گیا کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے اثاثوں کی مالیت 80 کروڑ 59 لاکھ ڈالر ہے۔
ساتھ ہی ایوارڈ میں یہ بھی کہا گیا کہ مجموعی قیمت کے اعداد و شمار نواز شریف کی مبینہ جائیدادوں کی موجودہ قیمت کے مطابق نہیں ہے جن کے 62 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے اثاثے پاکستان، 5 کروڑ 40 لاکھ کے سعودی عرب، 2 کروڑ 45 لاکھ ڈالر کے متحدہ عرب امارات اور 10 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے اثاثے برطانیہ میں ہیں۔
بالآخر کوانٹم فیصلے میں قرار دیا گیا کہ پاکستان اور نیب مشترکہ طور پر اکتوبر/دسمبر 2003 کے ڈیٹا بریچ اور جون 2000 کے اے آر اے معاہدے سے انکار کی صورت میں ہونے والے نقصان کے لیے2 کروڑ 15 لاکھ 80 ہزار ڈالر بمع سود ادائیگی کے ذمہ دار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدے کی تحقیقات کا حکم
اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 2 کروڑ 15 لاکھ 80 ڈالر برآمد کر کے براڈ شیٹ کو دینے تھے جس میں سے 15 لاکھ ڈالر شریف خاندان کے ایون فیلڈ فلیٹس کی مد میں، ایک کروڑ 90 لاکھ شریف خاندان کے دیگر اثاثوں کے لیے، 48 ہزار 760 ڈالر شون گروپ سے، 25 ہزار ڈالر سلطان لاکھانی، 85 ہزار 600 ڈالر فوزیہ کاظمی، 3 لاکھ 81 ہزار 600 لیفٹیننٹ جنرل (ر) زاہد علی اکبر، 2 لاکھ 10 ہزار آفتاب شیرپاؤ اور ایک لاکھ 80 ہزار ڈالر جمیل انصاری سے برآمد کیے جانے تھے۔