• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

منی لانڈرنگ ریفرنس: ایف بی آر سے شہباز شریف کی جائیداد کا آڈٹ ریکارڈ طلب

شائع January 12, 2021
احتساب عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کر دی — فائل فوٹو / ڈان
احتساب عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کر دی — فائل فوٹو / ڈان

احتساب عدالت نے منی لانڈرنگ ریفرنس وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر و مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی جائیداد کے آڈٹ کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے منی لانڈرنگ ریفرنس پر سماعت کی۔

شہباز شریف، حمزہ شہباز سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے، جبکہ نیب کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر عثمان جی راشد چیمہ اور عاصم ممتاز، شہباز شریف کی جانب سے ان کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

فاضل جج نے شہباز شریف سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کچھ کہنا چاہ رہے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں نے چنیوٹ والے معاملے میں قوم کے 600 ارب روپے بچائے تھے، نیب نے میرے سوالات کے جواب نہیں دیے۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: ’شہباز شریف کی اہلیہ، بیٹا، بیٹی اور داماد کے اثاثے قرق’

جج جواد الحسن نے کہا کہ میاں صاحب، چنیوٹ والا کیس میری عدالت میں نہیں ہے، آپ مناسب وقت پر یہ باتیں کیجیے گا، یہ آپ کے ڈیفںس کے دلائل ہیں۔

عدالت نے نیب کے پانچویں گواہ ایڈمن ریجنل ٹیکس افسر محمد شریف کا بیان ریکارڈ کیا۔

ریفرنس میں پراسیکیوشن کے پہلے گواہ محمد ابراہیم جرح کے لیے پیش ہوئے اور بتایا کہ ریکارڈ کیپنگ انفارمیشن پراسیسنگ یونٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، میں انفارمیشن پراسیسنگ یونٹ میں تعینات ہوں، جو دستاویزات میں نے تفتیشی افسر کو دی ہیں ان پر میرے دستخط نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریکارڈ پیش کرنے کے لیے میرے محکمے کی جس اتھارٹی نے کہا اس کی کوئی دستاویز ریکارڈ میں نہیں، یہ درست ہے کہ ایف بی آر ذرائع آمدن اور خرچ کا ریکارڈ فائلر سے مانگ سکتا ہے، لیکن ایف بی آر صرف خاندان کے سربراہ سے زیر کفالت افراد کی تفصیل مانگ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خاندان کے وہ افراد جو خود ریٹرنز فائل کرتے ہوں ان کا ریکارڈ خاندان کے سربراہ سے نہیں مانگا جاسکتا۔

گواہ محمد ابراہیم نے کہا کہ ایسی کوئی دستاویز تفتیشی افسر کو نہیں دی جس میں شہباز شریف کی ٹیکس چوری یا جائیداد کو چھپانا ثابت ہوتا ہو، تاہم اگر شہباز شریف کا آڈٹ ہوا تو اس کا پتہ چل سکتا ہے۔

اس موقع پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ عدالت کو درخواست دے رہے ہیں کہ اگر شہباز شریف کا کبھی آڈٹ ہوا ہے تو اس کی رپورٹ پیش کریں۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف، حمزہ شہباز کے جوڈیشل ریمانڈ میں 6 روز کی توسیع

عدالت نے ایف بی آر سے شہباز شریف کی جائیداد کے آڈٹ کا ریکارڈ مانگ لیا۔

جج جواد الحسن نے ہدایت کی کہ اگر آڈٹ ہوا ہے تو آئندہ سماعت پر پیش کریں۔

احتساب عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کر دی اور منی لانڈرنگ ریفرنس پر سماعت 16 جنوری تک ملتوی کر دی۔

منی لانڈرنگ ریفرنس

خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کی اہلیہ، دو بیٹوں، بیٹیوں اور دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

اس ریفرنس میں مجموعی طور پر 20 لوگوں کو نامزد کیا گیا جس میں 4 منظوری دینے والے یاسر مشتاق، محمد مشتاق، شاہد رفیق اور احمد محمود بھی شامل ہیں۔

تاہم مرکزی ملزمان میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت، ان کے بیٹے حمزہ شہباز (پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر)، سلمان شہباز (مفرور) اور ان کی بیٹیاں رابعہ عمران اور جویریہ علی ہیں۔

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی بیٹی، داماد اور بیٹا اشتہاری قرار

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Jan 12, 2021 11:03pm
مسئلہ بڑا گمبھیر ہے، کیا ثابت ہوگا کہ نہیں اللہ ہی جانے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024