موٹر وے زیادتی کیس: ملزمان کو گرفتار کرنے والے افسران و اہلکاروں میں انعامات تقسیم
لاہور: انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) پنجاب انعام غنی نے لاہور-سیالکوٹ موٹروے گینگ ریپ کیس کے مرکزی ملزم عابد مالہی اور اس کے ایک ساتھی کو گرفتار کرنے والے افسران اور اہلکاروں میں نقد انعامات اور تعریفی اسناد تقسیم کیے ہیں۔
سینٹرل پولیس آفس میں منعقدہ تقریب میں آئی جی پنجاب نے 40 افسران و اہلکاروں میں 25 لاکھ کے نقد انعامات اور تعریفی اسناد تقسیم کیے۔
مزید پڑھیں: لاہور: موٹروے گینگ ریپ کے ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 4 جنوری تک توسیع
آئی جی پنجاب انعام غنی نے کہا کہ اچھی کارکردگی دکھانے والوں کی حوصلہ افزائی اتنی ہی ضروری ہے جتنی فرائض میں بددیانتی اور غفلت دکھانے والوں کو سزا دینا اور محکمہ پولیس میں جزاو سزا کے اس بامقصد عمل کو ہرسطح پر جاری رکھا جائے گا۔
انہوں نے لاہور سیالکوٹ موٹر وے زیادتی کیس کو ایک مشکل اور چیلنجنگ کیس قرار دیا۔
انعام غنی نے کہا کہ انویسٹی گیشن، سی ٹی ڈی اور دیگر شعبوں کی انتھک محنت، پروفیشنلزم اور بہترین ٹیم ورک کی بدولت ملزمان مختصر عرصے میں گرفتار کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کی ٹیموں نے جدید ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال اور پیشہ ورانہ مہارت سے دونوں ملزمان کی گرفتاری کو یقینی بنایا۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے زیادتی کیس کا مرکزی ملزم عابد ملہی گرفتار
آئی جی پنجاب نے کہا کہ آج کی تقریب پنجاب پولیس کی اس درخشاں پالیسی کا تسلسل ہے جس کے مطابق شہریوں کی جان ومال کے تحفظ اور خدمت کو اپنی جانوں پر مقدم رکھنے والے افسران واہلکاروں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
تقریب کے دوران آئی جی پنجاب نے سی آئی اے، سی ٹی ڈی، سی آر او سمیت دیگر شعبوں میں تعینات 40 افسران و اہلکاروں میں 25 لاکھ کے نقد انعامات وتعریفی اسناد تقسیم کیں۔
فراہم کردہ معلومات کے مطابق انعامات حاصل کرنے والوں میں انسپکٹر سید حسین حیدر، انسپکٹر جاوید حسین، انسپکٹر علی احمد اور انسپکٹر طارق خان کو ایک لاکھ روپے فی کس، سب انسپکٹر حسین فاروق، سب انسپکٹرامانت علی، سب انسپکٹر منیر احمد کو فی کس 82 ہزار 500 روپے، اے ایس آئی بشارت نعیم، ٹی/ اے ایس آئی رضوان احمد، اے ایس آئی نصیر احمد، اے ایس آئی بابر علی اوراے ایس آئی خلیل احمد کو فی کس 70 ہزار 500 روپے۔
اس کے علاوہ ہیڈ کانسٹیبل سمیع اللہ، ہیڈ کانسٹیبل خاد م حسین، ہیڈ کانسٹیبل نثار احمد، ہیڈ کانسٹیبل محمد رضوان،سی پی ایل عرفان یونس، سی پی ایل اویس اکرم، سی پی ایل قدرت اللہ، اور سی پی ایل شہزادہ کلیم اللہ کو فی کس 62 ہزار 500 روپے جبکہ کانسٹیبل شاہد علی چغتائی، کانسٹیبل اللہ دتہ، کانسٹیبل محمد شہباز علی، کانسٹیبل منور علی، کانسٹیبل محمد عمیر، کانسٹیبل قیصر عباس، کانسٹیبل شبیر علی، کانسٹیبل عرفان علی، کانسٹیبل ساجد حسین، کانسٹیبل آصف منیر، کانسٹیبل نبیل گل، کانسٹیبل طارق علی، کانسٹیبل شرافت علی، کانسٹیبل شبیر احمد، کانسٹیبل محمد بشیر، کانسٹیبل کامران انور، کانسٹیبل مظہر حسین، طاہر حسین، آصف جاوید اور محمد شفیق کو فی کس 50 ہزار روپے نقد اور تعریفی اسناد دی گئیں۔
موٹروے ریپ کیس
خیال رہے کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون نے ملزم عابد کی شناخت کرلی
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتہ دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تو 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
بعد ازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔
15 ستمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ موٹر وے پر دوران ڈکیتی خاتون سے زیادتی کے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
بعد ازاں موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کو 12 اکتوبر کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔
مزید پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: ملزم شفقت 14 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل
گینگ ریپ کے واقعے کے ملزمان کی نشاندہی کے چند روز بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران آئی جی پنجاب انعام غنی نے کیس کی تحقیقات میں پیشرفت سے متعلق بتاتے ہوئے کہا تھا کہ 'عابد علی بہاولنگر کے علاقے فورٹ عباس کا رہائشی ہے، ملزم کے گھر پر چھاپے کے دوران عابد اور اس کی بیوی کھیتوں میں فرار ہوگئے، اس کی بچی ہمیں ملی ہے'۔
چار رکنی گینگ کا سربراہ عابد پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 10 دیگر مقدمات میں بھی پولیس کو مطلوب تھا۔
پولیس نے 21 اکتوبر کو بتایا کہ کیمپ جیل میں ملزم کی شناخت پریڈ کا عمل مکمل کیا گیا جہاں متاثرہ خاتون نے ملزم کی شناخت کرلی۔