نصیر ترابی صاحب آپ ٹھیک تھے، سناٹا بولتا ہے!
نیا سال آچکا ہے، لیکن پرانے سال کے رنج والم تاحال برپا ہیں۔ دُکھوں میں باقاعدگی آگئی ہے اور خوشیوں کا معاملہ بے قاعدہ ہو چلا ہے۔ کورونا جیسی عالمی وبا کے ہاتھوں جبری فرصت (لاک ڈاؤن) اور شناسا چہروں کے بچھڑنے کا عمل تاحال برقرار ہے۔
گزشتہ برس کے انتہائی اختتام پر، ہمیں معروف ہندوستانی ادیب اور نقاد شمس الرحمٰن فاروقی کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا اور نئے سال کی شروعات میں ہی پاکستان کے ممتاز شاعر، نقاد اور میرے استادِ محترم ’نصیر ترابی’ بھی اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ گویا اب تو چہار سمت ایک اداس خاموشی ہے اور جو سر چڑھ کر بول رہا ہے، وہ صرف سناٹا ہے، جس کے لیے انہوں نے کچھ یوں لکھا تھا کہ
سناٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی
پاکستان میں، عہدِ حاضر کا سب سے بڑا تہذیبی مسئلہ یہ ہے کہ تہذیب کے پروردہ لوگ رخصت ہو رہے ہیں اور ان کے بعد جگہ خالی ہے بلکہ ویران ہے، اور ان کے متبادل کے طور پر کچھ نہیں ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی ایسا مہذب لہجہ خاموش ہوتا ہے، تو تشویش کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔
اردو شعر و ادب میں حیدرآباد دکن ایک ایسا اسکول آف تھاٹ رہا ہے، جس نے اپنی الگ راہیں نکالیں۔ وہاں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اردو شعر و ادب کو مالامال کیا۔ اسی مکتب سے جڑے ہوئے ایک زرخیز ذہن کا دوسرا نام نصیر ترابی تھا۔ وہ ایک تخلیق کار، عالم اور بلند پایہ شخصیت ’علامہ رشید ترابی’ کے فرزند بھی تھے۔
علم کے اس گھنے سائے میں رہنے کے باوجود نصیر ترابی نے اپنے جداگانہ ادبی خدوخال تراشے۔ لفظ کی حرمت، اس کی تفہیم، اس کا برتاؤ اور اس کے بازیافت کا فن اپنے علمی ورثہ سے مستعار لیا اور پھر اپنا ایک جہانِ معانی تخلیق کرتے چلے گئے۔ تشکیل سے تخلیق کے سفر میں لاتعداد پڑاؤ آئے، سب کو کامیابی سے عبور کیا اور اپنے ادبی اہداف حاصل کرنے میں پوری طرح کامیاب رہے۔
نصیر ترابی 15 جون 1945 کو غیر منقسم ہندوستان کی ریاست حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے، جبکہ 10 جنوری 2021 کو کراچی میں انتقال ہوا۔ 60 کی دہائی میں جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ان کے گھر میں والدِ محترم کی وجہ سے برِصغیر پاک و ہند کی تمام بڑی ادبی و سیاسی شخصیات کی آمد و رفت تھی۔ اس فضا نے بھی ان کی تربیت اور شخصی پرداخت میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ممتاز شاعر مصطفی زیدی، عبیداللہ علیم، جون ایلیا، پروین شاکر، عزیز حامد مدنی، ناصر کاظمی سمیت بہت سارے شعرا سے ان کے ذاتی اور دوستانہ مراسم تھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’عکسِ فریادی’ 2000ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ 2017ء میں ان کے نعتیہ مجموعہ ’لاریب’ کی اشاعت ہوئی۔ لسانیات کے تناظر میں 2 اہم کتابیں 2013ء میں ‘شعریات’ اور 2019ء میں ‘لغت العوام’ شائع ہوئیں۔ ان دنوں غالب کے کلام کی شرح لکھ رہے تھے، جو 2021 میں اشاعت کے لیے متوقع تھی۔
گزشتہ کچھ برسوں میں ان کی شہرت میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس کی ایک وجہ پاکستان کے مقبول ڈرامے ’ہم سفر’ کا ٹائٹل گیت بنا۔ اس غزل کو پہلے عابدہ پروین بھی گا چکی تھیں، جبکہ اس ڈرامے کے لیے اسے دوبارہ قرۃ العین بلوچ کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا اور اس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ درحقیقت یہ وہ غزل تھی، جس کو نصیر ترابی نے سقوط ڈھاکہ کے غم میں لکھا تھا، مگر یہ مجازی معنوں میں بھی پوری طرح منسبط ہوئی۔ دھرتی کا کوئی ٹکڑا ہو یا محبوب سے تعلق، اس کے ٹوٹ جانے پر دُکھ تو ہوتا ہے۔
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی
عابدہ پروین کی گائیکی کا ابتدائی دور بھی نصیر ترابی کی مرہونِ منت ہے۔ انہوں نے کلاسیکی شاعری کے اساتذہ کی غزلیں منتخب کرکے عابدہ پروین کو دیں، جنہیں گاکر وہ مشہور ہوئیں اور اس بات کا اقرار عابدہ پروین نے میرے ایک انٹرویو میں بھی کیا ہے۔ وہ نصیر ترابی کو اپنا استاد مانتی ہیں۔ موسیقی کے انٹرویوز کے تناظر میں میری ایک کتاب ’سُرمایا’ کا عنوان بھی نصیر ترابی کا تجویز کردہ ہے، صرف یہی نہیں بلکہ زبان کو تہذیبی رچاؤ سے کیسے لکھنا چاہیے، کسی شاعر یا نثرنگار کے کلام اور متن کی تفہیم کا طریقہ کیا ہونا چاہیے، یہ بھی میں نے استاد محترم نصیر ترابی سے ہی سیکھا۔
ان کی زندگی کے بہت سارے گوشے، جن سے قارئین کی اکثریت لاعلم ہوگی، میں اپنے ذاتی مراسم میں، ان پہلوؤں کی جھلکیاں دکھانے کی کوشش کرتا ہوں، جس سے آپ کو اندازہ ہوسکے گا کہ وہ ایک شاعر اور نقاد ہونے کے علاوہ ایک عمدہ انسان بھی تھے، ہرچند کہ کچھ معاملات میں، وہ اپنی زندگی میں متنازعہ بھی ہوئے۔
کئی ادبی شخصیات کے ساتھ ان کا نظریاتی و ذاتی تصادم بھی ہوا، مگر زیادہ تر واقعات میں، جب میں نے بغور جائزہ لیا اور مشاہدہ کیا، تو تالی صرف ایک ہاتھ سے نہیں بجائی گئی تھی، بلکہ معاملات دونوں طرف سے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بہت سارے مخالفین، ان کی زندگی میں، کھل کر ان کی مخالفت بھی نہ کرسکے۔ اس طرح سے شاید انہیں مزید بھید کھل جانے کے اندیشے تھے۔
گزشتہ برس اگست 2020ء کو، میرے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں انہوں نے اپنی ذات سے متعلق بہت سارے تنازعات پر بات کی اور اپنے اوپر لگے الزامات کے واضح طور پر جوابات بھی دیے۔
میں جب 2007ء میں بطور طالب علم، جامعہ کراچی کے ’شعبہ ذرائع ابلاغ عامہ’ میں تھا، تب ہی عملی صحافت کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا۔ میں ایک روزنامے کے لیے ادبی شخصیات کے انٹرویوز کرتا تھا۔ اس وقت جب میں نے کراچی کے ایک مشہور شاعر کو فون کیا، جن کی شہرت بطور پاکستانی پوپ میوزک کے گیت نگار کی زیادہ تھی، تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے سینئر اور بڑے شعرا کے انٹرویوز کیے ہیں؟ میرا جواب نفی میں تھا، پھر انہوں نے مجھے چار، پانچ نام گنوائے، اور اس فہرست میں پہلا نام ‘نصیر ترابی’ کا تھا۔
میں نے پھر ان سے ملاقات کی اور انٹرویو کیا۔ اگرچہ اخبار کا وہ انٹرویو تو ایک دو نشستوں میں تمام ہوگیا، لیکن پھر میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ان سے مکالمہ کرتا رہا۔ میرے ذہن کی آبیاری ہوتی رہی، میں لفظوں کی تہیں اور پرتیں کھولتا چلا گیا، اور ان کے دکھائے ہوئے راستے پر مفہوم اور معانی اپنی بھرپور تشریح کے ساتھ میری تحریروں کی مدد کرنے لگے، یوں میں نے تشکیل سے تخلیق تک کا راستہ طے کیا۔
نصیر ترابی سے اپنے پہلے انٹرویو میں گفتگو کرتے کرتے مجھے ناصر کاظمی سے بھی محبت ہوگئی اور میں اسی دن کلیاتِ ناصر کاظمی خرید کر لے آیا۔ ایسی متعدد متاثرکن ادبی و تخلیقی تحریکیں مجھے ان کے صاحبِ مطالعہ ہونے کا پتہ دیتی تھیں۔ انہوں نے اس انٹرویو میں میرے ایک سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ ‘دنیا نے بہت ترقی کرلی ہے، اب جدید حسیت کی باتیں ہوتی ہیں، لیکن غزل کی زبان میں ناصر کاظمی نے کہا
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اُتر نہ جائے کہیں
اب یہ دو مصرعوں کے درمیان جو خالی جگہ ہے، ساری دنیا اسی میں دوڑ رہی ہے، اس میں ساری مادیت پرستی اور ہوس مال و متاع گردش پذیر ہے، کیونکہ اب وہ حالات ہوچکے ہیں کہ آپ کہہ رہے ہیں، تیرا بھی سودا کیا جاسکتا ہے۔ دنیا داری اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ ہوسکتا ہے، ہماری نیت شوق بھر جائے اور پھر تو بھی ہمارے دل سے اتر جائے۔ خالص ادب اور اس کی جمالیات ایسے منفی احساسات سے تخلیق کار سمیت سماج کو محفوظ رکھتی تھی، مگر اب سلسلہ ختم شد ہے۔ شعر لکھنے والے دماغ لڑا کر، سوچ سمجھ کر مصرعہ تشکیل دے رہے ہیں، جبکہ شعری عمل تو تخلیق پر مبنی ہوتا ہے، جو اپنا راستہ خود نکالتا ہے اور نمو پاتا ہے، اس میں کسی بناوٹ اور مصنوعی پن کی گنجائش نہیں ہوتی، مگر پرانے شعرا میں کلاسیکی شاعری کی یہی تہذیب موجود تھی، اب جو ندارد ہے۔‘
نصیر ترابی جہاں ایک طرف زرخیز علمی و مذہبی پس منظر کے حامل تھے، وہیں دوسری طرف انہوں نے اپنے لیے تخلیقی اظہار کے مختلف راستے چنے۔ شاعری کی اور اس میں کلاسیکی غزل کو محبوب بنایا۔ شعری نشستوں اور مشاعروں کی نظامت کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان ٹیلی وژن سے بھی یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔ جامعات اور ثقافتی اداروں میں اعزازی لیکچرز، طلبہ سے گفتگو، کالم نویسی، تخلیق کاروں کی کتب پر مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ وہ ایسی محفلیں بھی سجاتے رہے، جہاں سے کوئی بھی سیر ہوکر جائے۔
انہوں نے زندگی کو ایک فن پارے کے طور پر سمجھا، اس میں اپنی پسند کے رنگ بھرے اور کلی طور پر ایک تصویر کے نین و نقش ابھارے، جن سے زندگی کو محبت ہوجائے، اپنی تخلیقی معراج کو پہنچے، لیکن سنہری زمانوں کے دیکھنے والے نے یہ زمانہ بھی دیکھا، جہاں اردو شعر و ادب میں طلبہ ڈاکٹریٹ کی اسناد لے رہے ہیں، مدرس بن رہے ہیں، مگر تخلیق کا خانہ روز بروز خالی ہوتا جا رہا ہے، اس بات کا انہیں بہت قلق تھا اور اب اس تہذیب کے زرخیز لیکن خالی ہوتے ہوئے خانے سے انہوں نے خود کو بھی منہا کرلیا۔ شعر و ادب میں کون ہے؟ اب ان جیسے مشاہیر کی جگہ لینے والا، انہوں نے جو زندگی گزاری، اس کو بھی غزل میں کہہ دیا، فرماتے ہیں۔
ہمہ شب انتظارِ صبحِ وصال
شب نہیں زندگی گزاری ہے
فیصلے کا ہے ایک پل ورنہ
سوچنے کو تو عمر ساری ہے
اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ کلامِ غالب کو نت نئے زاویوں سے سمجھ رہے تھے، اس سے پہلے وہ میر انیس، بابا بلھے شاہ، سمیت کئی بڑے تاریخی و ادبی مشاہیر پر مستند تحقیقی مقالے لکھ چکے تھے۔ ان کے خیال میں دورِ جدید میں غالب کے کلام کو از سرِ نو تفہیم کرنے اور بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ موجودہ زمانے سے ناراض تھے، محدود احباب سے ملتے جلتے، جن میں یہ خاکسار بھی شامل تھا۔ نصیر ترابی کے حوالے سے کہنے کو ایک دفتر درکار ہے۔ میں بس یہ جانتا ہوں کہ گمشدہ ہوتی اردو تہذیب کی آبرو ہونے والے یہ چہرے ایک ایک کرکے بجھ رہے ہیں، اس بے سرو سامانی اور خسارے کا اندازہ ان بزرگوں کو تو تھا، لیکن زمانہ موجود ابھی تک حالتِ غفلت میں ہی ہے۔
استاد محترم نصیر ترابی کی ذات اور شخصیت کتنی تہذیبی مرقع تھی، اس کی تفصیلات کے لیے، شاندار خاکہ نگار ممتاز رفیق کا ان کے بارے میں لکھا ہوا ایک خاکہ ’بانکے ٹانکے’ پڑھا جاسکتا ہے، لہٰذا اب اس بانجھ زمانے سے تہذیبی یادوں کے حامل شخص کا دل بھر گیا، تو انہوں نے یہ سب بھی قلم بند کردیا، وہی کلام ہمارے لیے نوشتہ دیوار بھی ہے۔
ایسی ہی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔ اس میں زیڈ اے بخاری، فیض احمد فیض، سبط حسن، مصطفی زیدی، ناصر کاظمی اور عبید اللہ علیم کے ساتھ رہنے والے کی تنہائی کا سناٹا پوری طاقت سے بول رہا ہے، کیونکہ اب استادِ محترم کے سامنے کا موجودہ منظرنامہ بقول ان کے تقریباً بانجھ تھا
پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی
شہروں میں ایک شہر مرے رتجگوں کا شہر
کوچے تو کیا دلوں ہی میں وسعت نہ رہی
راہوں میں ایک راہ، گھر لوٹنے کی راہ
ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی
رنگوں میں ایک رنگ تری سادگی کا رنگ
ایسی ہوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی
سناٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی
تبصرے (1) بند ہیں