• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بجلی کی بندش کی وجہ قومی گرڈ میں حفاظتی نظام کی خرابی تھی

شائع January 11, 2021
بریک ڈاؤن کی بنیادی وجہ ناقص انتظامات اور اس کے نتیجے میں قومی گرڈ میں حفاظتی نظام کی ناکامی تھی، رپورٹ - اےایف پی:فائل فوٹو
بریک ڈاؤن کی بنیادی وجہ ناقص انتظامات اور اس کے نتیجے میں قومی گرڈ میں حفاظتی نظام کی ناکامی تھی، رپورٹ - اےایف پی:فائل فوٹو

اسلام آباد: جہاں یہ بظاہر سچ ہے کہ گڈو پاور اسٹیشن میں ہفتے کی رات کو ایک انسانی غلطی نے بجلی کی بندش کو جنم دیا اور اس کے اثرات ملک بھر کے بیشتر حصوں میں محسوس کیے گئے وہیں اس کی بنیادی وجہ ناقص انتظامات اور اس کے نتیجے میں قومی گرڈ میں حفاظتی نظام کی ناکامی تھی۔

ڈان کو سینئر عہدیداروں کے ساتھ پس پشت ہونے والی گفتگو میں اس بات کا علم ہوا، جنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ہفتے کی رات کے واقعے نے حکومت کی جانب سے بد انتظامی کو بے نقاب کرنے میں مدد فراہم کی ہے جو بجلی کے پورے شعبے کو ایڈہاک بنیادوں پر چلارہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹرل پاور جنریشن کمپنی-گڈو، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈیسپچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) اور نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی) سے وابستہ تینوں اہم کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران سالوں سے ایڈہاک یا ایکٹنگ چارج کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔

سینٹرل پاور جنریشن کمپنی (سی پی جی سی) گڈو پاور اسٹیشن چلاتی ہے جہاں ابتدائی تکنیکی خرابی کی اطلاع ملی تھی۔

این ٹی ڈی سی ملک کے قومی گرڈ کو چلاتا ہے جس کے تحفظ کے نظام کو گڈو اسٹیشن کے ٹرپنگ پر ظاہر ہونا چاہیے تھا اور خرابی کو الگ کردیا جانا چاہیے تھا۔

مزید پڑھیں: بڑے بریک ڈاؤن کے بعد ملک کے بیشتر شہروں میں بجلی بحال

اس کا نظام بظاہر ٹرانسمیشن فریکوئنسی کو گرنے سے روکنے کا کام کرتا ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں بجلی گھر سیکنڈوں میں بند ہوگئی تھی۔

این پی سی سی بجلی گھروں سے مختلف ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کو بجلی کی روانی کی نگرانی کرتا ہے، اسے سپلائی سسٹم کے نظام کو سنبھالنا ہوتا ہے تاکہ مناسب لوڈ اور فریکوئنسی توازن میں رہے۔

یہاں تک کہ ڈسکوز بھی ڈھائی سال سے زیادہ عرصے سے باقاعدہ چیف ایگزیکٹو آفیسرز کے بغیر کام کر رہے ہیں۔

این ٹی ڈی سی جولائی 2017 کے بعد سے باقاعدہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کے بغیر کام کررہا ہے جبکہ این پی سی سی نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ایک کل وقتی سی ای او کو نہیں دیکھا۔

عارضی طور پر کام کرنے والے این پی سی سی کے سربراہ کو گزشتہ سال نجی شعبے سے تعینات کیا گیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے بجلی کمپنیوں میں عہدے خالی ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

انجینئر حماد عامر ہاشمی کی جانب سے اس کی تصدیق کی گئی جب انہوں نے پلانٹ منیجر 3 کے تحت کام کرنے والے گڈو اسٹیشن کے 7 ملازمین کو معطل کردیا تھا اور ان پر عدم توجہی کا الزام عائد کیا تھا۔

ان کی جانب سے جاری ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ ابتدائی تفتیش کے پیش نظر 1978 کے نظم و ضبط کے قواعد کے تحت بجلی کی بندش کا باعث ڈیوٹی پر لاپرواہی کی وجہ سے 7 ملازمین کو فوری طور پر معطل کردیا گیا ہے جو کارکردگی اور بدانتظامی کے مترادف ہے اور اگلے احکامات تک یہ معطل رہیں گے۔

معطل ہونے والوں میں ایڈیشنل پلانٹ منیجر سہیل احمد، جونیئر انجینئر دیدار علی چیمہ، فورمین علی حسین گولو اور آپریٹرز اور حاضر سروس ایاز حسین، سعید احمد، سراج میمن اور الیاس احمد شامل ہیں۔

ایک نیوز کانفرنس میں وزیر توانائی عمر ایوب خان نے بتایا تھا کہ بجلی کی بندش گڈو اسٹیشن پر تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہوئی جس کے نتیجے میں چند سیکنڈز میں فریکوئنسی 50 سے صفر تک گر گئی۔

عہدیداروں نے بتایا کہ ابتدائی غلطی گڈو اسٹیشن کے سوئچ یارڈ میں ہوئی تاہم ٹرانسمیشن نیٹ ورک کے تحفظ کے نظام نے اس غلطی پر رد عمل نہیں دیا۔

ٹرانسمیشن سسٹم کو خود کار تحفظ کے میکانزم کے ذریعے گڈو اسٹیشن سے لوڈ کو مسترد کرنا چاہیے تھا تاہم بظاہر یہ ناقص یا ناکافی دیکھ بھال اور ٹرانسمیشن لائنوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں بجلی کا بریک ڈاؤن: سوشل میڈیا پر مزاحیہ تبصرے، مارشل لا کی افواہیں

گڈو سبی ٹرانسمیشن لائن انتہائی دھند اور دیگر ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے ایک پریشانی کا مرکز رہا ہے اور ماضی میں بھی اس کا ٹرپ ہونا دیکھا گیا ہے۔

ماضی میں تحفظاتی نظام ملک کے گرڈ کے جنوبی اور شمالی حصوں کو الگ کرتا رہا ہے۔

ایک ریٹائرڈ سینئر افسر نے بتایا کہ 'یہ واضح طور پر تحفظ کے نظام کی ناکامی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال اور بعض اوقات سردیوں کی دھند کے مطابق بار بار ٹرانسمیشن لائنوں کو دھویا جاتا ہے۔

انہوں نے ماضی کی حکومت کے دعوؤں پر بھی سوال اٹھائے جن میں کہا گیا ہے کہ خاص طور پر 2015 کے بریک ڈاؤن کے بعد حفاظت کے نظام میں بہتری آئی ہے، اگر نظام بہتر ہوتا تو یہ آئی لینڈ موڈ میں چلا جاتا۔

ریٹائرڈ افسر نے بتایا کہ ہفتے کا واقعہ 2015 کے بعد سے ایسا تیسرا واقعہ ہے جس کا مطلب ہے کہ تحفظ کے نظام کو اپ گریڈ نہیں کیا گیا یا اپ گریڈ ناکافی ہے۔

مزید یہ کہ یہاں 50 ہرٹز، 49.4 ہرٹز اور 48.5 ہرٹز کے فریکوئنسی ریلے لگے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ سسٹم سے 10-15 فیصد کا بوجھ کم ہونا چاہیے تاہم وزارت توانائی کے اعلان سے یہ معلوم ہوا کہ 50 ہرٹز سے اچانک فوری طور پر فریکوئنسی صفر ہوگئی جیسے کسی دل کا دورہ پڑنے کی صورت میں تحفظ کا نظام کوئی رد عمل نہ دے اور مریض فوری طور پر ہلاک ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ 'ریلے کے ان سسٹم کی ترتیب کو ہر دوسرے یا تیسرے سال اپ گریڈ کیا جاتا ہے، حکومت کو پیداواری صلاحیت میں اضافے کے پیش نظر ریلے کے نظام کو اپ گریڈ کرنا چاہیے تھا'۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024