اسلام آباد: سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شیئر کرنے پر 3 ملزمان کو سزائے موت کا حکم
اسلام آباد: انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شیئر کرنے سے متعلق کیس میں 3 افراد کو موت کی سزا سنا دی جبکہ چوتھے ملزم کو 10 سال قید کی سزا سنا دی۔
مزید یہ کہ اے ٹی سی نے کیس میں مفرور 4 ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے۔
اس کیس کی تحقیقات کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے مطابق رانا نعمان رفاقت اور عبدالوحید جعلی پروفائلز چلاتے تھے اور سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد پھیلاتے تھے جبکہ ناصر احمد یوٹیوب پر گستاخانہ ویڈیوز اپ لوڈ کرتا تھا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس کی جانب سے جمعہ کو کیس کا فیصلہ سنایا گیا اور انہوں نے تینوں ملزمان کو گستاخی کا مرتکب پایا۔
مزید پڑھیں: گستاخانہ مواد کیس: انسداد دہشتگردی عدالت میں 3 گواہان کے بیان قلمبند
چوتھے ملزم پروفیسر انوار احمد کو 10 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی، ملزم کو اسلام آباد ماڈل کالج میں دوران لیکچر متنازع گستاخانہ نظریات کے پھیلاؤ پر گرفتار کیا گیا تھا جبکہ وہ وہاں اردو کا استاد تھا۔
سزا پانے والے ان چاروں افراد کو 2007 میں توہین مذہب و رسالت کے کیس میں ابتدائی طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔
19 مارچ کو درج ہونے والی مذکورہ معاملے کی ایف آئی آر کے مطابق بہت سے نامعلوم لوگ/گروپس ہیں جو انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا جیسے فیس بک، ٹوئٹر، ویب سائٹس وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے مبینہ پروفائلز/پیجز/ہینڈلز/ سائٹس وغیرہ کے ذریعے گستاخانہ مواد پھیلا رہے ہیں اور کئی دیگر نے مقدس ناموں کے بارے میں توہین آمیز الفاظ/ریمارکس/گرافک ڈیزائن/ تصاویر/ خاکے/ وژول ریپریزنٹیشن کا جان بوجھ کر استعمال کرتے ہوئے مذہبی جذبات اور عقیدے کو ٹھیس پہنچائیں اور مشتعل کیا۔
بعد ازاں ان چاروں ملزمان پر 12 ستمبر 2017 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے اس وقت فرد جرم عائد کی تھی جب انہوں نے اپنے خلاف الزامات پر صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔
مزید یہ کہ انسداد دہشت گردی عدالت مذکورہ کیس میں پروفیسر انوار احمد کی ضمانت کی درخواست کو بھی مسترد کردیا تھا۔
علاوہ ازیں 3 سال تک جاری رہنے والی ان سماعتوں کے دوران استغاثہ نے ملزمان کے خلاف 17 گواہان پیش کیے جبکہ دفاع کے لیے پیش کیے گئے گواہان کو عدالت کی جانب سے نہیں مانا گیا تھا کیونکہ ان کا ملزمان سے خون کا رشتہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: توہین مذہب کے ملزم کو قتل کرنے والا شخص جیل منتقل
واضح رہے کہ پاکستان کا یہ پہلا ایسا کیس ہے جہاں افراد کو سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شیئر کرنے پر سزا سنائی گئی۔
انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کو اقلیتوں کے خلاف یا یہاں تک کہ ذاتی دشمنیوں میں مسلمانوں کے خلاف اکثر غلط استعمال کیا جاتا ہے (جبکہ) اس طرح کے الزامات تشدد یا سڑکوں پر بدامنی کو ہوا دے سکتے ہیں۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن کے مطابق ملک میں 80 تک ایسے معلوم لوگ ہیں جو اس طرح کے الزامات پر قید ہیں، جس میں سے آدھے عمر قید یا سزائے موت کا سامنا کر رہے ہیں۔