ذہنی بیماریوں کا شکار سزائے موت کے قیدیوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی نظرثانی درخواستوں کے ایک سیٹ اور شیزوفرینیا سمیت ذہنی بیماریوں کا شکار سزائے موت پانے والے ذہنی مریضوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کے خلاف فیصلہ محفوظ کر لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم کارروائی کو ختم کرنے سے پہلے جسٹس منظور احمد ملک کی سربراہی میں قائم پانچ ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت سے اس بارے میں رائے طلب کی کہ وہ اس دلیل کی حمایت کریں گے یا نہیں کہ ذہنی بیماری میں مبتلا مجرم کو پھانسی نہیں ہونی چاہیے۔
مزید پڑھیں: 16 سال سے سزائے موت کے منتظر ذہنی مریض قیدی خضر حیات کا انتقال
تمام صوبوں نے اس نقطہ نظر کی توثیق کی اور نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر موحدت حسین رانا کے پیش کردہ دلائل کو اپنایا جنہوں نے عدالت سے ایک دور رس فیصلہ سنانے کی اپیل کی جس سے ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد کو 'مختلف طریقے سے زندگی گزارنے' کا موقع ملے گا۔
خصوصی بینچ کو حکومت پنجاب کے ساتھ ساتھ امداد علی، کنیزان فاطمہ بی بی اور غلام عباس کی طرف سے بھیجی گئی نظرثانی درخواستوں کا سامنا تھا جس میں سپریم کورٹ کے 19 اکتوبر 2015 کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ میں اپیلوں پر بجا طور پر سزا سنائی گئی اور یہ کہ عدالت عالیہ کو ان کی سزاؤں کی شدت کو کم کرنے کی کوئی وجہ یا تخفیف کرنے والے حالات نہیں مل پائے۔
ڈاکٹر موحدت رانا نے استدلال کیا کہ طویل عرصے تک قید میں رکھنے سے ذہنی عارضے پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ مجرم طویل عرصے تک اپنے پیاروں سے علیحدہ رہتا ہے، اس کے نتیجے میں ان کی ذاتی صلاحیتیں اس حد تک خراب ہوسکتی ہیں کہ وہ بازار میں آزادانہ طور پر خریداری بھی نہیں کرسکتے۔
ان کے مطابق شیزوفرینیا ایک ذہنی عارضہ ہے جو انسان کے سوچنے، فیصلے کرنے، جذباتی طور پر جواب دینے، یاد رکھنے، بات چیت کرنے، حقیقت کی ترجمانی کرنے یا زندگی کے عام تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مناسب برتاؤ کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے، علامات میں ناقص استدلال، ناجائز اور پریشان کن زبان استعمال کرنا، مبہوت، فریب، ظاہری شکل میں خرابی اور ناقص ذاتی حفظان صحت شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے ذہنی بیمار قیدی کی پھانسی روک دی
ڈاکٹر موحدت رانا نے اس بات پر زور دیا کہ ذہنی عارضے میں مبتلا لوگوں کی صلاحیت عام طور پر اس حد تک خراب ہوجاتی تھی کہ وہ اپنے آس پاس موجود مسائل کو بھی حل نہیں کر پاتے، انہیں کسی پیشہ ور نفسیاتی سہولت میں مناسب علاج کیے بغیر طویل قید کے بعد آزاد نہیں کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ شاہ دولا کے چوہے جیسے ہوتے ہیں اور انہیں اپنے مستقبل کا کچھ پتا نہیں ہوتا، انہوں نے جدید ترین اور فرانزک نفسیاتی سہولیات کی حامل علاج کی جگہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا جس میں ایسے لوگوں کو علاج کے لیے داخل کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تکنیکی طور پر ذہنی عارضے میں مبتلا افراد کو قید میں رکھنا لازم نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے بیمار مجرموں کو ان کی ناقص سوچ عمل کی وجہ سے مقدس کعبہ کی بجائے غلط سمت پر سجدہ کرتے یا غلط وقت پر نماز پڑھتے دیکھا گیا ہے۔
ماہر نفسیات کے پروفیسر نے کہا کہ یہ اہل خانہ، برادری، معاشرے یا ریاست کا فرض ہے کہ وہ "سرمئی سایہ" والے لوگوں کی شناخت کرے اور پھر ان کو علاج کے لیے کسی مناسب ہسپتال یا سہولت میں داخل کر کے اس "سائے کو سفید" کرنے میں مدد کرنے کی کوشش کرے۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم ایسے لوگوں کو سرمئی سے سیاہ اور سیاہ سے انتہائی سیاہ تک جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
مزید پڑھیں: ’جیل میں بند ہوجانے سے قیدی انسانی کنبے سے الگ نہیں ہوجاتا‘
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈاکٹر موحدت رانا سے یہ وضاحت کرنے کو کہا کہ جب کوئی فرد چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے لیکن پھر کچھ وقت کے بعد معمول پر آجاتا ہے تو وہ اس کی کس طرح سے نشاندہی ہو سکتی ہے، 'کیا اس کا اندازہ لگانے کے لیے کوئی سائنسی طریقہ کار ہے؟
ڈاکٹر موحدت رانا کے مطابق شیزوفرینیا کے مریض دوہری شخصیت کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں جو ذہنی بیماری کی سب سے بدترین شکل ہے، نفسیاتی لحاظ سے یہ کینسر کی طرح ہے اور اگر ایسا شخص کو اشتعال دلایا جائے تو وہ متشدد ہوجاتا ہے۔