خیالوں کا سفر جو حقیقت بنا
یوں تو لاہور، اسلام آباد اور شمالی علاقہ جات تک ٹرین سے لے کر دوستوں کے ہمراہ اپنی گاڑی، بس اور ہوائی جہاز تک ہر ذریعے سے سفر کیا ہے لیکن اپنے 5 اور 3 سالہ بیٹوں اور ان کی امی کے ساتھ اپنی گاڑی پر سفر ہمیشہ خیالوں میں ہی ہوتا رہا تھا۔ کئی مرتبہ سوچا کہ اس طرح بھی سفر کبھی کریں، اور اس سوچ نے حقیقت کا روپ تب اختیار کیا جب لاہور سے ہمارے ایک قریبی عزیز کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہوا۔
بس پھر اس خیال کو حقیقت بنانے کا ارادہ کرلیا۔ محکمہ داخلہ (اہلیہ) کی جانب سے مسلسل بھیانک مسائل (ان کی نظر میں) سے ڈرایا جاتا رہا جیسے کہیں ڈاکو نہ لوٹ لیں، بچے کھانا کہاں سے کھائیں گے اور ان کی دانست میں اس جیسے دیگر ’بین الاقومی‘ مسائل کا نقشہ کھینچا جاتا رہا۔ لیکن بہرحال ہمت اور خدا کی توفیق سے 23 دسمبر سے 2 جنوری تک کا تقریباً 12 روزہ دورہ پاکستان کامیابی سے مکمل ہوا۔
اپنے تجربات قارئین کی دلچسپی اور ایسے ہی کسی سفر کو پلان کرنے کی ہمت بندھانے کے لیے پیش خدمت ہیں۔
آپ اگر ایسے ہی کسی سفر پر جانا چاہتے ہیں تو شاید کچھ رہنمائی مل سکے ورنہ امید ہے کہ کم از کم ہمارے سفر کی کہانی آپ کو بور نہیں کرے گی۔ ایک چیز اور، اور وہ یہ کہ سفر پر نکلنے سے پہلے یہ طے کرلیں کہ ایک ایک لمحے کو یادگار بنانا ہے۔ یعنی یہ نہ سوچا جائے کہ نتھیا گلی پہنچ کر ہی آپ کو مزہ آئے گا، بلکہ یہ سوچ لیں کہ گھر سے نکلنے کے بعد سے ہی تفریح کا آغاز ہوچکا ہے۔
سفر پر جانے سے قبل گاڑی کا معائنہ
کراچی سے لاہور، اسلام آباد اور پھر نتھیا گلی تک جانے اور واپسی کا ہمارا سفر تقریباً 4 ہزار کلومیٹر پر محیط تھا اس لیے جانے سے قبل صرف مکینک پر بھروسہ مت کریں بلکہ خود گاڑی کا جائزہ ضرور لیں۔ اگر آپ کی گاڑی بالکل نئی ہے تب بھی آپ کو گاڑی کا خود جائزہ ضرور لینا چاہیے۔
اس حوالے سے جن جن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، وہ ذیل میں بیان کررہا ہوں۔
ٹائروں کا جائزہ
سب سے اہم چیز گاڑی کے ٹائر ہیں، اگر تبدیل کروانے کی ضرورت ہو تو لازمی کروالیں ورنہ کم از کم اطمینان کرلیں کہ گاڑی کے ٹائر اچھی حالت میں ہیں۔ لمبے سفر کے دوران ٹائروں کی ہوا بڑھ جاتی ہے اس لیے جہاں موقع لگے ہوا کا پریشر ٹھیک کروالیں۔
بریک کی مرمت
اسلام آباد سے مری اور نتھیا گلی تک بریک کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔ بریک لیدر اگر ٹھیک بھی ہیں تب بھی جانے سے قبل سروس کروالیں۔
انجن سے متعلق تسلی
انجن آئل اور فلٹر، اے سی فلٹر، انجن فلٹر یہ چیزیں ہر گاڑی والا عام طور پر تبدیل کرواتا ہی رہتا ہے، لیکن اتنے طویل سفر پر جانے سے پہلے اطمینان سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ فلٹر کیبن میں ہوا لگوالینا زیادہ بہتر ہے۔ صاف ستھرا انجن ایئر فلٹر پیٹرول کی بچت کا سبب بھی بنتا ہے۔
اے سے متعلق پارٹس کی چیکنگ
گاڑی کے ریڈی ایٹر سے انجن تک پانی لے جانے اور بذریعہ ہیٹر ریڈی ایٹر تک پانی واپس لانے والے تمام پائپ جنہیں ہوز پائپ کہا جاتا ہے اچھی طرح چیک کرلیں، پائپ کے دھانے 2، 3سال میں خراب ہوجاتے ہیں جہاں سے گیس قطرہ قطرہ لیکج شروع ہوجاتی ہے جو بعد میں نقصان کا سبب بنتی ہے۔ کمتر کوالٹی کے ہوز پائپ بعض اوقات پھٹ بھی جاتے ہیں۔
ریڈی ایٹر، اے سی کا پنکھا اور انجن کی بیلٹ، یہ دونوں چیزیں بھی مکینک سے چیک کروالیں۔ مکینک کو کام خود بتانا بلکہ ایسے موقع کے لیے کھڑے ہوکر کروانا بہتر ہے۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر مکینک کے پاس بہت رش ہوتا ہے اس لیے وہ اس طرح کی چھوٹی موٹی چیزیں جلد بازی میں چیک کیے بغیر اوکے کی آواز لگا دیتا ہے۔ پلگ بھی چیک کروانا بہتر ہے۔
چونکہ ہمارے سفر میں ایسے علاقے بھی شامل ہیں جہاں درجہ حرارت منفی ہوسکتا ہے اس لیے ریڈی ایٹر میں سادہ پانی کے بجائے اینٹی فریز یعنی کولینٹ ہونا چاہیے۔ گاڑی کی بیٹری انتہائی سرد موسم میں اکثر بیٹھ جاتی ہے اس لیے جانے سے پہلے یقین کرلیں کہ بیٹری کمزور نہیں ہے۔ طویل سفر کے بعد کسی شہر میں اگر رات گزاریں تو صبح ایک مرتبہ اطمینان کے لیے ریڈی ایٹر کے پانی کا جائزہ لے لیں (ٹھنڈی گاڑی میں) تاکہ کوئی ناخوشگوار معاملہ درپیش نہ آئے۔
گاڑی میں انٹرنیٹ اور موبائل چارجنگ کی سہولت
گاڑی میں سگریٹ لائٹر کی جگہ استعمال ہونے والا چارجر اور کیبل معہ گوگل نیوی گیشن کے لیے مناسب فوری جی پیکج۔
ایم ٹیگ کا حصول
کراچی ٹول پلازہ سے پہلے بائیں جانب ایک کنٹینر میں بنا ایف ڈبلیو او کا سہولت مرکز ہے وہاں سے گاڑی پر ’ایم ٹیگ‘ لگوالیں تاکہ آسانی رہے۔ ’ایم ٹیگ‘ کراچی ٹول پلازہ پر مفت ملتا ہے، پری پیڈ کارڈ چارج کروانا ہوتا ہے۔ یہ ایم ٹیگ کراچی سے حیدرآباد اور پھر ملتان تا لاہور یا اسلام آباد موٹرویز پر ٹول ٹیکس کے لیے خودکار کام کرے گا۔ سکھر تا ملتان موٹروے پر فی الحال نقد ادائیگی کرنا ہوگی۔
دیگر بظاہر چھوٹے مگر اہم کام
وائپر کے بلیڈ، بریک لائٹ اور دیگر بلب چیک کروالیں۔ گرمی کا موسم ہو تو گاڑی کا اے سی بھی ٹھیک ہونا آپ کی سہولت کے لیے بہتر ہوگا۔ اسپیئر ٹائر کے علاوہ احتیاطاً میں نے پلاس اور پیچ کس رکھ لیا تھا۔
ایک اہم ترین بات یہ کہ مکینک صاحب کو بھی زحمت دے دیں کہ وہ گاڑی کا مکمل کام ’چھوٹے‘ سے کرانے کے بجائے خود کرلیں۔
آغازِ سفر
ہم نے سفر کا آغاز علی الصبح نہیں کیا تھا کیونکہ کراچی سے نکلنے کے بعد رات سکھر میں رکنے کا ارادہ تھا, اس لیے بہتر یہی سمجھا کہ مکمل آرام کے بعد روٹین میں اٹھنے اور ناشتہ کرنے کے بعد نکلا جائے۔ غیر ضروری نیند کی قربانی آپ کو تھکا دیتی ہے۔ بچوں کے ساتھ اتنی جلدی نکلنا ویسے بھی آسان نہیں ہوتا۔
گاڑی میں سامان کے ساتھ ساتھ وافر پانی، بسکٹ اور چپس وغیرہ، ایک تکیہ اور چھوٹا کمبل بھی رکھ لیا تھا۔ جائے نماز، ایک دو اضافی شاپر وغیرہ بھی ساتھ رکھے۔ کراچی سے سکھر تک سفر کے لیے 2 راستے ہیں ایک یہ کہ کراچی سے حیدرآباد اور پھر براستہ مٹیاری، ہالا، مورو اور رانی پور سکھر تک سفر کیا جائے جبکہ دوسرا راستہ کراچی سے جامشورو اور پھر سیہون اور براستہ دادو، لاڑکانہ اور شکارپور سے سکھر موٹروے تک پہنچا جائے۔
حیدر آباد سے سکھر والے راستے پر بے پناہ ہیوی ٹریفک آپ کو ملے گی۔ کراچی پورٹ سے نکلنے والے ٹرک عموماً اسی راستے سے جاتے ہیں۔ راستہ دیکھا بھالا تھا اس لیے میں نے اسی راستے کو ترجیح تھی۔ کراچی سے سکھر تک کا یہ راستہ تقریباً ساڑھے 4 سو کلو میٹر طویل ہے جو شرافت سے گاڑی چلانے کی صورت میں کم از کم 6 سے 7 گھنٹے میں عبور ہوگا۔ آپ تھک بھی جائیں گے اس لیے پریشان ہونے کے بجائے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ ہم نے 12 بجے سفر کا آغاز کیا، اور راستے میں پھولوں سے لے کر کیلے اور کھجور کے باغات کی سیر کرتے کرتے رات 9 بجے تک سکھر پہنچے۔ اس دوران کبھی چائے اور کبھی واش روم کی ضرورت پوری ہوتی رہی۔ کسی جگہ ٹریفک جام نہیں ہوتا لیکن ٹرک ایک دوسرے کو اوور ٹیک کرتے رہتے ہیں، جس کے سبب رفتار انتہائی سست ہوجاتی ہے۔ ایسے کسی بھی موقع پر پریشان ہونے کے بجائے اس تجربے سے بھی لطف حاصل کرنا بہتر ہوتا ہے۔
سکھر ہمارا پہلا پڑاؤ تھا، رات ہوچکی تھی اور خنکی کافی زیادہ تھی۔ سکھر میں قیام کے لیے آپ کا کوئی دوست یا رشتے دار نہ ہو تو موجود آپشن کچھ یوں ہیں کہ آن لائن بکنک کروائی جا سکتی ہے۔ ہوٹلز کے حوالے سے میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ہوٹل کی آن لائن تصویروں پر کبھی اعتماد مت کریں۔ کوشش کریں کسی ایسے فرد سے معلومات مل جائیں جو کسی وقت خود قیام کرچکا ہو یا آپ کا کوئی جاننے والا ہوٹل کی گواہی دے۔ ہوٹل کی تصویروں پر اعتماد بعد میں مایوس کرتا ہے۔ ہوٹل مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔
اے کلاس ہوٹل، یعنی فائیو اسٹار نہیں ہوگا لیکن مناسب، صاف ستھرا ضرور ہوگا۔ یہ آپ کو 7 سے 10 ہزار روپے تک مل سکتا ہے۔
بی کلاس، یہ گیسٹ ہاؤس ہوگا۔ کرایہ 2 ہزار سے 5 ہزار تک ہوگا۔ آپ کو صرف رات ہی رکنا ہے اس لیے بی کلاس بھی اچھا آپشن ہے۔ اب چونکہ آپ کے پاس اپنی گاڑی ہے یعنی آپ ایک ہزار یا اس سے کم والی چارپائی والی کلاس سے متعلق نہیں ہیں اس لیے سی کلاس کا تذکرہ رہنے دیجیے۔
سکھر بائی پاس سے اتر کر کوئی 5، 7 کلومیٹر بعد سکھر شہر شروع ہوجائے گا۔ چونکہ میری جائے پیدائش سکھر ہی ہے اس لیے میں نے اگلے دن رک کر اپنے پرانے دوستوں سے ملنا بھی تھا۔ میرے لیے سکھر اجنبی نہیں ہے لیکن میری فیملی پہلی مرتبہ سکھر جا رہی تھی اس لیے ان کو گھمانا پھرانا بھی تھا۔
سکھر میں لب مہران پارک سے کشتی کا سفر کیا جاسکتا ہے، یہ اچھی تفریح ہے۔ دریا کے بیچ جزیرے پر قدیم سادھو بیلے کا مندر ہے وہ بھی گھوما جا سکتا ہے۔ سات سہیلی کا مزار، معصوم شاہ کا منارہ، اروڑ کا علاقہ، سکھر اور روہڑی کے درمیان قدیم پل، یہ سب گھومنے کی اچھی جگہ ہیں۔ ہم نے لب مہران سے سکھر بیراج تک کشتی کا سفر اور اس دوران اندھی ڈولفن کی ڈبکیوں کا نظارہ بھی دیکھا۔ سادھو بیلہ گئے، سکھر روہڑی پل کراس کیا اور دوستوں سے ملنے میں سارا دن گزارا۔ اگلے دن صبح جلدی نکلنے کا ارادہ تھا لیکن بچوں کے لیے ناشتے کا انتظام اور تیاری نے دن کے 10 بجا دیے۔ جلدی اس لیے نکلنا تھا کہ لاہور کے قریب انتہائی دھند کی اطلاع تھی۔
سکھر سے ملتان کے لیے موٹر وے کے ذریعے سفر کا آغاز کیا۔ میرا بڑا بھائی بھی اپنی فیملی کے ساتھ اپنی گاڑی پر ہمارا ہمراہی تھا۔ سکھر انٹرچینچ سے پیٹرول کی ٹینکی مکمل بھروانی ضروری ہے کیونکہ آگے پیٹرول بھروانے کے آپشن بہت کم ہیں۔
سکھر ملتان موٹر وے تقریباً 5 سو کلو میٹر طویل ہے۔ 80 سے 100 کلو میٹر بعد قیام و طعام کے مراکز بنے ہوئے ہیں جہاں کچھ عرصے بعد پیٹرول بھی دستیاب ہوگا، لیکن فی الحال نہیں ہے۔ اس وقت تمام قیام گاہیں مکمل آپریشنل نہیں ہیں، بعض میں صرف صاف ستھرے واش روم اور مسجد کی سہولت موجود ہے باقی ضروریات کے لیے عمارت بن چکی ہے لیکن سہولیات ابھی موجود نہیں ہیں۔ فی الحال کھانے کا کوئی مکمل ہوٹل بھی موجود نہیں ہے البتہ بیکری آئٹم مل جائیں گے۔
قیام گاہیں 2 طرح کی ہیں۔ ایک کافی بڑی ہے جس میں واش روم، مسجد، دکان، ہوٹل، پیٹرول پمپ اور دیگر ضروری سہولیات مستقبل میں موجود ہوں گی اور دوسری وہ جس میں پیٹرول پمپ اور ایک دکان مع واش روم اور نماز کی جگہ موجود ہوگی۔
پیٹرول آپ کو سکھر کے بعد رحیم یار خان کے قریب ظاہر پیر اور پھر ملتان کے نزدیک اُچ شریف قیام گاہ پر ملے گا۔ مشورہ یہی ہے کہ اگر بغیر رکے لاہور جانے کا ارادہ ہے تو سکھر کے بعد اُچ شریف سے پیٹرول بھروالیں۔ اگر آپ لاہور کے بجائے اسلام آباد جانا چاہتے ہیں تو کراچی سے ملتان تک سفر کے بعد ملتان میں قیام بھی ممکن ہے۔ ہماری واپسی اسلام آباد سے ہوئی تھی اس لیے اس سفر نامے کے آخر میں وہ تجربہ بھی بیان ہوجائے گا۔ ابھی کراچی سے سکھر اور پھر لاہور کی کہانی سن لیں۔
ہم نے اُچ شریف پر نمازِ جمعہ کے لیے قیام کیا اور پیٹرول کی ٹینکی فل کروائی گئی۔ ایک اور تجربہ یہ تھا کہ ہائی آکٹین پیٹرول مہنگا ضرور ہے لیکن اس سے میرے مشاہدے کے مطابق پیٹرول کی اوسط اور گاڑی کی کارکردگی بہت بہتر ہوجاتی ہے۔
اُچ شریف کے بعد عبدالحکیم سے لاہور موٹروے پر ہم نے غیر ضروری پڑاؤ ڈالا جو آگے جاکر مشکل کا سبب بھی بن گیا۔ اس پڑاؤ میں گرم گرم پکوڑے خریدنے کے چکر میں ہم نے کافی وقت ضائع کردیا، پھر کچھ یوں ہوا کہ سفر خطرناک ہوگیا۔
قصہ کچھ اس طرح ہے کہ ہم نے اس سے قبل دھند کے صرف قصے سن رکھے تھے، اور دھند ایسی خطرناک اور لاعلاج ہوگی اس کا اندازہ نہیں تھا۔ شام 6 کے آس پاس کا وقت تھا، سفر 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جاری تھا، اور ملتان سے لاہور کی جانب رخ تھا۔ فیصل آباد، جڑانولہ انٹرچینچ کراس کرتے ہوئے دیکھا کہ موٹروے پولیس آہستہ آہستہ ایک ٹریک بند کر رہی ہے۔
ابتدائی طور پر تو یہ محسوس ہوا کہ کسی حادثے کی وجہ سے ایک ٹریک بند کیا جا رہا ہوگا۔ یہ منظر بس ایک دم گزر گیا اور برق رفتاری سے سفر جاری تھا۔ اب میں لاہور سے تقریباً ایک سو کلومیٹر دُور تھا کہ مجھ سے کچھ پیچھے سفر کرنے والے میرے بڑے بھائی کی کال آئی کہ یار موٹر وے پولیس نے راستہ بند کرکے زبردستی جڑانولہ انٹرچینچ سے نیچے اتار دیا ہے، کہتے ہیں آگے دھند ہے اور راستہ بند ہے، جبکہ یہاں گاڑیوں کی طویل قطار ہے۔ میں نے فوری کہا بھائی یہاں تو کوئی دھند نہیں آپ کوشش کرو، ان سے بات کرو اور موٹر وے پر ہی آؤ کسی طرح۔ بھائی کا دوبارہ فون آیا کہ کوئی بات سننے پر تیار نہیں۔ مجبوری میں جی ٹی روڈ کی جانب جا رہا ہوں تاکہ وہاں سے لاہور پہنچا جاسکے۔
ابھی یہی پریشانی ہی حاوی تھی کہ اچانک دھند نے ہمیں بھی آلیا۔ دھند کیا تھی بس ایک بے رنگ چادر تھی جس کے نرغے میں آتے ہی جیسے چند قدم پر دکھائی دینا بھی ممکن نہ تھا۔ گاڑی کی رفتار کم ہوتے ہوتے 20 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوچکی تھی۔ کوئی گاڑی دائیں اور کوئی بائیں لڑھک رہی تھی، آگے کون اور پیچھے کون کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ گاڑی کی فوگ لائٹ جلائی، لیکن گاڑی چلانا ناممکن سا ہورہا تھا۔ پھر ہمت کی، سڑک کنارے پیلی پٹی کے ساتھ ساتھ گاڑی چلانا شروع کی۔ وقت جیسے ساکت تھا، عام حالات میں ہمارا سفر لاہور شہر تک صرف آدھے گھنٹے تک کا رہ گیا تھا لیکن اب رات 11 بچ چکے تھے معلوم نہیں تھا کہاں پہنچے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر سفر کرنے والے بھائی کی اطلاع بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ اہلیہ سے کہا آپ سامنے کی طرف نظر رکھیں اور کسی گاڑی سے ٹکرانے سے پہلے ہی بتانے کی کوشش کرنی ہے۔ میں نے اپنی طرف والا شیشہ اتار کر آہستہ آہستہ گاڑی چلانا شروع کردی۔ گوگل میپ بھی آن کرلیا تاکہ اگر کسی جانب سڑک پر کوئی موڑ ہو تو اندازہ ہ سکے۔ شیشہ اتارنے سے سڑک کی سائڈ والی پٹی زیادہ بہتر دکھائی دے رہی تھی۔ ہمارے پیچھے گاڑیاں ہمیں فالو کر رہی تھیں۔ پھر کوئی آگے نکل جاتا تو ہم اس کو فالو کرتے تھے، سفر یوں ہی چلتا رہا۔
آخر ٹول پلازہ آگیا، اور ہم جب وہاں پہنچیں تو بہت سی گاڑیاں ٹول پلازہ کے درمیان تعمیر شدہ سیمنٹ کی دیوار سے ٹکرا چکی تھیں۔ اللہ نے ہم پر رحم کیا۔ ٹول پلازہ پر موٹروے پولیس نے کہا کہ آپ نے آگے جانے والی بس کو فالو کرنا ہے، سب لائن سے چلیں لیکن کچھ دیر بعد ہی ہماری آگے والی گاڑی رک گئی۔ ہم نے شیشے نیچے کرکے گاڑی والے انکل سے پوچھا کہ ’کیا ہوا؟‘ کہنے لگے کافی بس تو دیر پہلے ہی مجھ سے آگے نکل گئی تھی مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا، میں نہیں جاتا آگے۔ ارے یہ کیا، آپ نے بس ہی نکلوا دی، خیر انکل کے ہتھیار ڈالنے کے باوجود میں نے سفر جاری رکھا۔ کبھی گوگل میپ اور کبھی کسی گاڑی کے پیچھے۔ آخرکار ساڑھے 12 بجے لاہور آگیا۔ اگرچہ ایک بس کے پیچھے غلط انٹر چینج سے اتر گئے لیکن شکر کیا کہ چلو شہر تو آگیا۔ لاہور شہر میں قدرے کم دھند تھی۔
دوسری جانب ہمارے بھائی صاحب ہتھیار ڈال چکے تھے اور فیصل آباد کے قریب کسی پیٹرول پمپ پر ہی گاڑی میں رات گزارنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ کمبل اور تکیہ کچھ کام آیا لیکن بہرحال چھوٹے بچوں کے ہمراہ سخت سردی میں رات گزارنا بہت مشکل کام تھا۔
اس لیے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ لوگ دھند والے موسم میں سفر کرنے سے قبل پاکستان میٹ ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ یا پھر موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن 130 سے دھند کی صورتحال ضرور چیک کرلیں۔ ہم نے بعد میں ہر منزل سے قبل ایسا ہی کیا۔ اگلے دن ساڑھے 11 بجے ہمارے بھائی صاحب نے دوبارہ سفر شروع کیا۔ گاڑی میں بچوں کے ساتھ رات کیسے گزری ہوگی، خود ہی اندازہ کرلیں۔
لاہور میں ہمارا قیام 2 روزہ تھا۔ ہم اپنے قریبی رشتے دار کے مہمان بنے۔ پہلے دن مہندی کی تقریب تھی، میزبان کا پیغام ملا کہ شام 5 بجے تک آ جائیں۔ پہلے محسوس ہوا کہ یہ مذاق ہے پھر دوبارہ تصدیق کی تو سوچا کہ اتنی جلدی کیوں بھائی، بہرحال سردی کی وجہ سے بچوں کو تقریب میں نہ لے جانے کا فیصلہ تھا۔ اس شام ساڑھے 5 بجے ہی ہمارے رہائشی علاقے میں اتنی دھند تھی کہ یہی محسوس ہوا کہ ایک دن پہلے والا ماحول ملنے والا ہے۔ لیکن کچھ آگے جاکر رستہ صاف تھا۔ لاہور کی سُپیریر یونیورسٹی کے احاطے میں تقریب تھی جو رائیونڈ روڈ پر واقع ہے۔ جانے کے لیے لاہور کی خوبصورت 6 رویہ رنگ روڈ استعمال کی تھی۔
خوبصورتی سے سجائے گئے پنڈال میں وقت گزرنے کے ساتھ دھند داخل ہونے لگی۔ پارکنگ کی طرف گئے تو حیران رہ گئے کہ کچھ دیر قبل سب ٹھیک تھا اور اب اپنی گاڑی بھی تلاش کرنا ممکن نہیں تھا۔ میزبانوں کو اندازہ تھا کہ دھند خوفناک ہوتی جائے گی اس لیے فوری کھانا لگوایا جاچکا تھا، اندر آنے کے بعد میں نے کسی ایسے شناسا کی تلاش شروع کردی جس نے شہر میں اسی جانب جانا ہو جہاں میں نے جانا ہے۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ تھا کہ مجھے خدشہ تھا کہ شہر میں اس قدر دھند میں سفر شاید موٹروے کی طرح ممکن نہیں ہوگا، اور میرا یہ خدشہ بالکل درست تھا۔ بہرحال میرے کزن صہیب محمود کی مدد سے ایک اچھے دوست معظم بیگ صاحب مل گئے۔ انہوں نے کہا کہ جانا تو کسی اور طرف ہے لیکن آپ کو ایسی جگہ تک چھوڑنے کی کوشش کروں گا جہاں سے سیدھا آپ اپنی قیام گاہ پہنچ سکیں۔
بہرحال جلدی جلدی نکل پڑے۔ معظم بیگ صاحب نے بعد میں بتایا کہ ان کا سارا سفر بھی بس ایک اندازہ اور اللہ کی مدد سے ہی ہوا ورنہ ان کو بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ بخیریت اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے۔
اگلے دن کی تقریب نجی ہوٹل میں تھی اور اس دن آنے اور جانے کے وقت دھند معمولی تھی۔ یعنی آپ خود کچھ کہہ نہیں سکتے کہ کس دن کیسا موسم رہے گا۔ لاہور میں گھومنے کی جگہیں بہت آسانی سے انٹرنیٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہاں، ہوٹل میں رہائش کا تخمینہ ہم بتا دیتے ہیں جو کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
اے پلس، یہ 5 یا فور 4 ہوٹل ہیں جن کا کرایہ تقریبا 15 سے 22 ہزار کے درمیان ہوگا۔
اے کلاس، یہ ہوٹل 10 ہزار سے 15 ہزار کے آس پاس ہوں گے۔
بی پلس یا بی کلاس، یہ 5 سے 7 ہزار کے درمیان ہوگا۔ باقی 3، 4 ہزار والا ہوٹل بس گزارے کا ہوگا۔
لاہور سے اسلام آباد کا سفر
اب ہمارا اگلا پڑاؤ اسلام آباد تھا۔ لاہور سے اسلام آباد موٹروے پاکستان کا سب سے پہلا موٹروے ہے۔ یہ بھی تقریباً 4 سو کلومیٹر طویل ہے۔ راستے میں کلرکہار سالٹ رینج آئے گی جہاں گاڑی احتیاط سے اور کم اسپیڈ پر چلانی ہوگی۔ اس موٹر وے پر پولیس مستعد ہے لہذا بالکل ہوشیاری دکھانے کی ضرورت نہیں اور اسپیڈ کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ طویل سفر ہے، گھومنے نکلے ہیں اس لیے جلدی کی ویسے بھی ضرورت نہیں ہے۔ اسپیڈ سے متعلق ہدایتی بورڈ جگہ جگہ نصب ہیں انہیں ضرور فالو کریں کیونکہ وہ تمام تر تجربے کا نچوڑ ہیں اور ہماری اپنی حفاظت کے لیے ہیں۔
موٹر وے کی دونوں جانب خوبصورت درخت جوان ہوچکے ہیں۔ سب سے اچھا اور بڑا قیام کا مرکز بھیرہ نزد سرگودھا ہے، وہاں خوبصورت واش رومز سے لے کر اچھے ہوٹلز تک تمام سہولیات موجود ہیں۔ فاسٹ فوڈ کی ملٹی نیشنل چین اور کافی کے مرکز بھی موجود ہیں، یہاں اچھا وقت گزرتا ہے۔ لاہور اسلام آباد موٹروے پر پیٹرول باآسانی دستیاب ہے۔ ہم لوگ دن 12 بجے تک مکمل آرام کے بعد نکلے تھے اس لیے رات تک اسلام آباد پہنچے اور رات قیام کیا گیا۔
ایک اور اہم تجربہ یہ ہے کہ آپ مکمل طور پر گوگل نیوی گیشن پر اعتماد مت کریں، بلکہ کسی جاننے والے یا کم از کم راستے میں کسی مناسب آدمی سے مشورہ ضرور کرلیں کہ کون سا راستہ زیادہ بہتر رہے گا۔
گوگل نیوی گیشن 3 طریقوں سے کام کرتا ہے۔ یہ سسٹم آپ کو مختصر راستے، کم رش اور آپ سے قبل استعمال کرنے والے فرد کے تجربے کی بنیاد پر راستہ تجویز کرے گا، اور ضروری نہیں کہ وہ راستہ سب سے بہتر ہو۔
گوگل نیوی گیشن آپ کو بند گلی میں پھنسا بھی سکتا ہے اور غیر ضروری لمبے لمبے یوٹرن تک بھول بھلیاں کی طرح گم کرسکتا ہے۔ یہ بہت سی جگہ بننے والے پُلوں یا انڈر پاس کے حوالے سے درست آگاہی نہیں دیتا اس لیے کسی بھی شہر میں جاتے ہوئے زبانی راستہ ضرور معلوم کرلیں۔
ہاں، یہ ضرور ہے کہ گوگل میپ آپ کی رہنمائی کرتا ہے لیکن سمت کا تعین اور مناسب راستے کا فیصلہ کسی کے مشورے سے کرلیں، جیسے کس طرف سے آنا بہتر ہوگا، کون سا انٹر چینج لینا چاہیے وغیرہ۔
اسلام آباد سے نتھیا گلی براستہ مری ایکسپریس وے
میں عمومی رویے کے اعتبار سے محتاط انسان ہوں اس لیے کسی ایڈونچر کے بجائے منصوبہ بندی کو بہتر تصور کرتا ہوں۔ نتھیا گلی اور مری میں ہمارا ایک ایک دن قیام کا ارادہ تھا، اس لیے پہلے سے ہی ہوٹل بک کرالیے تھے۔ ہوٹل کا تخمینہ آگے بتاتا ہوں۔
اسلام آباد سے ہم صبح 10 بجے تک نکل گئے تھے۔ مری ایکسپریس وے کا راستہ لیا، سنا ہے کہ نتھیا گلی براستہ ایبٹ آباد بھی جایا جاسکتا ہے۔ اس راستے پر خود گاڑی چلانا میرا پہلا تجربہ تھا۔ راستے کے حوالے سے سب کی اپنی اپنی کہانی ہے، کہا جاتا ہے کہ برف باری کے دوران گاڑی پھسل بھی سکتی ہے وغیرہ وغیرہ، اس لیے موسم کا حال معلوم کرکے جائیں۔ ہمارے جانے سے قبل برف باری ہوچکی تھی اب راستہ کلیئر ہونے کی اطلاع تھی۔
اسلام آباد سے مری ایکسپریس وے پر سفر شروع کیا۔ ایکسپریس وے تقریباً 60 کلومیٹر طویل ہے لیکن اونچا نیچا راستہ ہے اس لیے 2 گھنٹے لگ ہی جاتے ہیں۔ رفتار 50 سے 70 کے درمیان رہتی ہے اور سڑک 4 رویہ اور صاف ستھری ہے۔
ایکسپریس وے کے بعد مری سے نتھیا گلی تقریباً 40 کلومیٹر ہے لیکن 3 گھنٹے لگ جائیں گے۔ سڑک ٹوٹی پھوٹی نہیں ہے، درست حالت میں ہے لیکن یاد رکھیں آپ پہاڑوں کے درمیان اوپر کی جانب سفر کر رہے ہیں اور سڑک ایک رویہ ہے یعنی سامنے سے بھی ٹریفک آرہا ہوگا اور بیچ بیچ میں آبادیاں بھی آئیں گی۔ یہاں اوور ٹیکنگ کا موقع ہی نہی۔ یہ پہاڑوں اور درختوں میں گھرا خوبصورت راستہ ہے۔ مری سے نکلتے ہی پہاڑوں پر برف جمی نظر آئی۔ انتہائی خوبصورت منظر تھا، جگہ جگہ لوگ گاڑی روک کر تصاویر بنوا رہے تھے۔ راستے میں پتریاٹہ چیئر لفٹ کے مزے بھی لیے جاسکتے ہیں، لیکن ہم نے بغیر رکے سفر جاری رکھا۔
آخر ایک جگہ گاڑی روکی، وجہ تھے سڑک پر گھومتے بندر، جی ہاں چھوٹے چھوٹے بندر بچوں کے ساتھ بندروں کے جتھے۔ آپ گاڑی روکیں گے تو یہ گاڑی پر سوار ہوجائیں گے اور شیشوں پر لٹکیں گے۔ انہیں احتیاط سے کھانے پینے کی چیزیں دے سکتے ہیں۔ یہ سب بچوں کے لیے بہت خوشگوار تفریح ہوتی ہے۔ 5 گھنٹے بعد ہم نتھیا گلی پہنچ گئے۔ بڑے ہوٹلز کی چین یہاں موجود نہیں ہے البتہ اچھے آرام دہ ہوٹل موجود ہیں۔ سردی میں شاید ہوٹل کا کرایہ کم ہوتا ہے۔ مری کے ہوٹل بھی ملتے جلتے کرائے کے ساتھ ہیں۔ یہاں کے ہوٹل کا کرایہ کچھ ایسے تھا۔
اے کلاس، 13 سے 15 ہزار۔
بی کلاس، کم از کم 6 ہزار سے 10 ہزار تک۔
بی پلس کلاس، 4 ہزار سے 6 ہزار کے درمیان۔ باقی آپ خود اندازہ کرلیں۔
ہمارے ہوٹل سے کچھ آگے کالا باغ کا علاقہ تھا جہاں ایئر فورس کی تنصیبات ہیں۔ دوسری جانب نتھیا گلی کا چھوٹا سا بازار ہے۔ کھانے پینے کے ہوٹل موجود ہیں لیکن بھائی یاد رکھیں، ذائقہ بس مناسب ہی ہے اور تازگی کی گارنٹی میرے پاس نہیں ہے۔ لیکن کھانا باسی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ شام کو اندھیرا ہونے سے قبل ہم اور ہمارے بچے برف سے خوب کھیلے۔ 6 بجے کے بعد ہوٹل سے نہ نکلنے کا فیصلہ کیا کیونکہ درجہ حرارت منفی کی طرف جا رہا تھا جو رات 11 بجے تک منفی 6 ہوچکا تھا۔ اگلی صبح ناشتے کے بعد مری روانگی تھی لیکن مری جانے کا فیصلہ اچھا نہیں تھا۔ ہمارا ہوٹل مری کے جی پی او کے نزدیک مال روڈ پر تھا۔ ہوٹل سے کچھ پہلے ٹریفک اس قدر جام تھا کہ ایک گھنٹہ پھنسے رہے۔
اب ایک بات اور سن لیں، اگر مری جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو مال روڈ سے جتنا دُور ہوٹل میں رکیں گے اتنا اچھا ہوٹل مل سکے گا۔ ہمارا ہوٹل مال روڈ کا سب سے اچھا ہوٹل تھا، جو پاکستان کے ایک بڑے ہوٹل کے زیرِ انتظام ہی ہے لیکن انتظامات اور رہائش مزے دار نہیں تھی۔ نتھیا گلی کے ہوٹل سے زیادہ مہنگا ہونے کے باوجود زیادہ مایوس کن تھا۔ ہم نے آن لائن بک کروایا تھا اور بعد میں موبائل ایپلیکیشن نے ہم سے ہمارا تبصرہ مانگا، میں نے صفر نمبر دے دیے تو کچھ دیر میں ہی ہوٹل کے منیجر کی کال آگئی اور بہت ہی نرم انداز میں کہنے لگے کہ ’بھائی آپ نے ہمارا بیڑہ غرق کردیا، ایسا مت کریں ہماری انتظامیہ ہمارا بیڑہ غرق کرے گی‘۔ تب اندازہ ہوا کہ موبائل ایپلیکیشن پر آنے والے یہ سارے تبصرے اور نمبر بھی اسی طرح بہتر کیے جاتے ہیں۔
میں نے منیجر صاحب کے اچھے اندازِ گفتگو کی وجہ سے یہ وعدہ تو کر لیا تھا کہ تبصرے کو درست کردیتا ہوں لیکن سچی بات ہے کہ مجھے بکنگ ایپلیکیشن میں ایڈٹ کا آپشن نہیں مل سکا۔ اسی لیے اوپر لکھ چکا ہوں کہ تصویر اور انٹرنیٹ کی معلومات کے بجائے کسی فرد کے تجربے سے استفادہ کریں۔ مری کا مال روڈ فیملی کے ساتھ گھومنے کی اچھی جگہ نہیں لگی، نوجوانوں کے غول اٹھکھلیاں کرتے نظر آئیں گے۔ ہوٹل کے کمرے تک شور آپ کا پیچھا کرے گا۔ مطلب سکون کی تلاش میں آنے کے بعد بھی بے سکونی، یہ سلسلہ رات 3 بجے تک جاری رہے گا۔
مال روڈ پر کھانے کا معیار انتہائی خراب ہے، باسی پلاؤ سے لے کر بے ذائقہ برگر تک، یعنی صبح تک میرا بیٹا رات کے برگر کی وجہ سے شدید بیمار ہوچکا تھا، الٹیاں اور پیٹ خراب تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ کچھ دیر میں ہی نڈھال ہوچکا تھا اور 2 دن تک الرجی کی وجہ سے چہرے، زبان اور منہ کے اندر تک دانے رہے۔
مری سے اسلام آباد نکلتے ہوئے کشمیر پوائنٹ پر رات اور گزشتہ روز کا تلخ تجربہ کچھ کم ہوا کیونکہ گھڑ سواری اور ٹرین سفاری کا ٹکٹ خرید کر سفر کیا گیا۔ اب دوبارہ اسلام آباد کا سفر شروع ہوچکا تھا۔ ہوٹل سے ہم صبح 8 بجے نکلے تھے، کشمیر پوائنٹ پر کچھ تفریح کے بعد اسلام آباد تقریباً ایک بجے پہنچ گئے۔ واپسی کا راستہ جلدی طے ہوتا ہے کیونکہ سفر اترائی کی طرف ہے۔
اسلام آباد کی سیر
اسلام آباد میں اوپر بتائے گئے ہوٹل کے کرائے میں ہوٹل کے علاوہ گیسٹ ہاؤس بھی مل جاتے ہیں جو رہنے کے لیے کافی بہتر رہتے ہیں۔ اسلام آباد میں ہم اپنے گیسٹ ہاؤس میں سامان رکھ کر فوری نکل گئے کیونکہ اس رات نیو ایئر نائٹ بھی تھی اور ہم نہیں چاہتے تھے کے کسی جگہ رش میں پھنس جائیں۔ میرے بیٹے کی طبعیت مری کے باسی کھانے کی وجہ سے اچھی نہیں تھی، اس کے لیے اسٹرالر کا بندوبست کیا گیا۔
ہم اسلام آباد کے راول ڈیم کے کنارے برڈ پارک پہنچے۔ یہ بہت خوبصورت جگہ ہے، ایک بہت بڑے پنجرے میں ہزاروں پرندے موجود ہیں۔ فاختہ سے لے کر مور تک اور مور سے اُلّو اور عقاب تک، چہار جانب رنگین طوطے اور تیرتی مرغابیاں اور بطخیں۔ آپ ٹکٹ لے کر پنجرے کے اندر چلے جائیں، سب پرندے آپ کے آس پاس ہوں گے۔ باہر نکلیں تو راول ڈیم کا خوبصورت کنارہ اور تیز رفتار کشتیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایک اچھی تفریح گاہ ہے، اور موقع ملے تو ضرور جائیں۔ دن ڈھل چکا تھا اس لیے پارک میں موجود مزید سرگرمیاں نہیں ہوسکتی تھیں۔ وہاں سے واپس اپنے کمرے میں آگئے، اور اہلیہ کے ہمراہ چپکے سے کھانا کھانے نکل گئے۔ نیا سال شروع ہونے سے قبل ہی نیند کی وادیاں تھیں اور ہم تھے۔
واپسی کا سفر
اسلام آباد کے بازار گھومنے کے بعد 3 بجے تک اسلام آباد سے ملتان کے لیے نکل پڑے۔ اب نیا راستہ لینا تھا اور لاہور جانا ضروری نہیں ہے، اسلام آباد سے لاہور موٹروے پر جانا ہوگا۔ لاہور سے تقریباً 2 سو کلومیٹر پہلے پنڈی بھٹیاں انٹر چینج کے فوری بعد فیصل آباد-گوجرہ انٹرچینج سے موٹر وے کا دوسرا سیکشن لینا ہوتا ہے۔ یعنی لاہور بائی پاس ہوجائے گا۔ یہ سیکشن تقریباً 3 سو کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ یہاں قیام گاہیں موجود ہیں جہاں پیٹرول بھی دستیاب ہے۔ اسلام آباد سے ملتان کا یہ سفر تقریبا ساڑھے 5 سو کلومیٹر پر محیط ہے۔
عبدالحکیم کے بعد ملتان سکھر موٹروے شروع ہوجاتی ہے جس پر ملتان شہر انٹرچینج سے ہم ملتان شہر پہنچ گئے۔ ملتان کے طارق روڈ پر اچھا ہوٹل مل گیا۔ رات ہوچکی تھی، گوگل نیوی گیشن نے خوب خوار کروایا اور سیدھا راستہ گھما گھما کر گھما ہی دیا۔ ہمیں تو اگلی صبح معلوم ہوا کہ سیدھا راستہ بھی موجود تھا۔
ہم نے لاہور اسلام آباد موٹروے کے چکری قیام گاہ سے پیٹرول ٹینک بھروایا تھا، میری 18 سو سی سی گاڑی میں 50 لیٹر کی گنجائش ہے جبکہ میرے بھائی کی ہزار سی سی گاڑی میں 40 لیٹر پیٹرول آیا۔ بتانا صرف یہ تھا کہ ملتان کے قریب بھائی کی گاڑی کی پیٹرول کی لائٹ جل چکی تھی مطلب پیٹرول ختم ہونے کا خطرہ تھا اس لیے پنڈی بھٹیاں سے ملتان کے درمیان کسی جگہ سے پیٹرول دوبارہ بھروانا بہتر آپشن ہے۔ ملتان میں رہائش کے آپشن کچھ ایسے ہیں۔
اے کلاس، کچھ 4 اسٹار ہوٹلز کے زیرِ انتظام ہوٹل موجود ہیں جن کا کرایہ 10 ہزار سے زائد ہوگا۔
بی کلاس، اچھے ہوٹل ہیں جو 4 سے 7 ہزار کے درمیان مل جائیں گے۔
سی کلاس، 4 ہزار سے کم اور باقی آپ کی مرضی ہے۔
ملتان سے اگلی صبح 9 بجے سفر کا آغاز کیا۔ سوہن حلوہ خریدا گیا۔ شہر کا نظارہ کرتے کرتے موٹروے پر پہنچ گئے جو ہوٹل سے تقریباً 25 کلومیٹر دُور تھا۔ ساڑھے 3 گھنٹے سفر کے بعد سکھر آگیا۔ سفر بہت آرام دہ اور پُرسکون ہے۔ گاڑی کی رفتار نہیں ٹوٹتی، رکنے کا دل نہیں چاہتا، کروز کنٹرول اگر گاڑی میں موجود ہو تو اور مزہ آجائے۔ دن ایک بجے سکھر آگیا۔ سکھر میں انٹر چینج کے پاس ہی ایک ریسٹورنٹ میں کھانا اور دیگر ضروریات پوری کیں۔ پھر دوبارہ ڈھائی بجے سفر کا آغاز کیا جو 10، 15 منٹ کے 2 اسٹاپ کے بعد رات 9 بجے بخیریت کراچی گھر پر اختتام پذیر ہوگیا۔ یہ سفر بچوں اور بڑوں کے لیے یادگار رہے گا۔ طویل برداشت کا شکریہ۔
نیو ٹی وی میں کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی کرتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔