لیاری گینگ وار کا سرغنہ عذیر بلوچ پولیس پر حملے کے 2 مقدمات میں بری
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پولیس اہلکاروں پر مسلح حملے سے متعلق 2 مقدمات میں 'ثبوتوں کی عدم دستیابی' پر کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عذیر جان بلوچ سمیت 10 افراد کو بری کردیا۔
عذیر بلوچ کے علاوہ محمد نواز، حسن علی عرف ہسو، عبد الغفار، ظہور احمد، زاہد، عبدالوہاب عرف وہاب اور جاوید عرف پیٹرول والا پر مبینہ طور پر اپریل 2012 میں چاکیواڑہ میں پولیس پارٹی پر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: 'سیکیورٹی خدشات' پر عزیر بلوچ سینٹرل جیل سے رینجرز کے میٹھا رام ہاسٹل منتقل
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (جنوبی) فراز احمد چانڈیو نے دونوں فریقوں کے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد اپنا محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ استغاثہ ملزموں کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا لہٰذا طرح انہیں بری کیا جاتا ہے۔
استغاثہ کے مطابق مبینہ ملزمان نے پولیس سب انسپکٹر مدہ حسین کے ہمراہ پولیس پارٹی پر قتل کی نیت سے شیلنگ اور فائرنگ کی۔
عدالت نے اسی نوعیت کے دوسرے مقدمے میں بھی عذیر جان بلوچ اور 2 دیگر ملزموں کو بری کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: عزیر بلوچ کی فوجی عدالت کی سزا کالعدم قرار دینے کیلئے والدہ کا عدالت سے رجوع
عذیر بلوچ، محمد شاہد اور صدام پر اپریل 2012 میں کالاکوٹ میں پولیس پارٹی پر حملہ کرنے کا الزام تھا۔
استغاثہ کے مطابق ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر عبدالوحید نے پولیس پارٹی کے ساتھ ملزموں کی موجودگی سے متعلق جاسوس کی اطلاع پر چھاپہ مارا جنہوں نے گرفتاری سے بچنے کی کوشش میں مبینہ طور پر فائرنگ کی۔
فائرنگ کے تبادلے میں ایک ملزم ہلاک ہوگیا جبکہ اے ایس آئی وحید زخمی ہوگئے۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ ملزمان کے قبضہ سے ایک کلاشنکوف، ایک 9 ایم ایم پستول اور واکی ٹاکی فون برآمد ہوا تھا۔
خیال رہے کہ عذیر بلوچ کو پاکستان رینجرز سندھ کی جانب سے ابتدائی طور پر 90 روز کی حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا اور پھر جنوری 2016 میں ان کی پراسرار گرفتاری کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: عذیر بلوچ کا جاسوسی، 198 افراد کے قتل کا اعتراف، جے آئی ٹی رپورٹ جاری
اپریل 2017 میں فوج نے اعلان کیا کہ 'جاسوسی' کے الزامات پر انہوں نے عذیر بلوچ کو حراست میں لے لیا۔
یاد رہے کہ عذیر بلوچ انسداد دہشت گردی اور سیشن عدالتوں میں اپنے حریف ارشد پپو کے بہیمانہ قتل سمیت 50 سے زائد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں